بہت سے بیانات اور اشاروں کے بعد آخر وہ مرحلہ آ گیا جب بنگلہ دیش نے سرکاری طور پر حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے یہ تصدیق کی ہے کہ مطالبے کا سفارتی خط وصول ہو چکا ہے لیکن یہ بھی کہا کہ وہ اس مرحلے پر اس سے زیادہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ سب جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین اس وقت ایک نئی خلیج حائل ہے‘ جو خلیج بنگال سے زیادہ طوفانی ہے۔
اگست 2024ء میں ایک عوامی لہر کے ذریعے تختہ الٹ دیے جانے کے بعد حسینہ واجد نے بھارت میں پناہ حاصل کی۔ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالا اور عوامی مطالبے پر سابقہ حاکم جماعت کے احتساب کیلئے تحقیقات شروع کر دیں۔ بہت سے مقدمات قائم ہوئے اور بہت سی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ جرائم کا وہ ٹربیونل‘ جسے خود حسینہ واجد نے اپنے مخالفوں کو کچلنے کیلئے بنایا تھا‘ حسینہ واجد اور اس کے قریبی ساتھیوں کے خلاف سرگرم عمل ہو گیا۔ حسینہ واجد پر 100 کے قریب مقدمات قائم ہو گئے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین مجرموں کی حوالگی کا ایک معاہدہ موجود ہے۔2013ء میں ہونے والا اور 2016ء میں ترمیم شدہ یہ معاہدہ بنیادی طور حسینہ حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر باغیوں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے یہ ضروری ہے۔ حوالگی کے اس تازہ مطالبے پر حسینہ واجد یا ان کے خاندان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت حوالگی کے اس مطالبے کو منظور کرے گا یا رد کر دے گا اور یہ کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘ یہ ایک بڑا سوال ہے۔
حوالگی کا معاہدہ کیا ہے؟ یہ معاہدہ ایسے مجرموں اور دہشت گردوں کو ایک دوسرے کے حوالے کرنے سے متعلق ہے جو دونوں ممالک کی سکیورٹی کیلئے خطرہ ہوں۔ بھارت کے وہ علیحدگی پسند جو بنگلہ دیش میں چھپ کر رہتے ہوں یا وہ بنگلہ دیشی جو بھارت میں رہ کر بنگلہ دیش کیلئے خطرہ ہوں‘ اس ذیل میں آتے ہیں۔ معاہدے کے مطابق ایسے مجرم جو کم از کم ایک سال قید کی سزا کے حقدار ہوں یا وہ مجرم جو ایسے جرائم میں ملوث ہوں جو دونوں ممالک میں جرم تصور ہوتے ہوں‘ اس فہرست میں شامل ہیں۔ 2016ء میں ترامیم کے ذریعے اس معاہدے کو مزید سخت کر دیا گیا تھا۔ اب کسی ثبوت کے بجائے طلب کرنے والے ملک کی کسی بااختیار عدالت کا وارنٹ بھی کافی ہے۔ البتہ معاہدے کے آرٹیکل 6 کی رو سے سیاسی ملزموں کو استثنا مل سکتا ہے اور حوالگی کے مطالبے کو رد کیا جا سکتا ہے‘ تاہم اس استثنا کی شرائط کافی سخت ہیں اور قتل‘ اغوا اور دہشت گردی جیسے جرائم سیاسی جرم کی ذیل میں نہیں آتے۔ شیخ حسینہ پر اس وقت جو مقدمات قائم ہیں‘ ان میں قتل‘ غیر قانونی طور پر لوگوں کو غائب کرنا‘ قتل عام اور نسل کشی بھی شامل ہیں۔ اب اگر بھارت آرٹیکل 6 کے مطابق حوالگی کے مطالبے کو رد کرتا ہے تو قتل اور نسل کشی وغیرہ کے جرائم کو سیاسی کہنا بہت مشکل ہوگا۔ آرٹیکل 8 کے مطابق ایسے الزامات‘ جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہ ہوں اور بدنیتی کی بنیاد پر یا فوجی بنیادوں پر ہوں‘ تب بھی حوالگی رد کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس شق پر بھی عمل آسان نہیں۔
اصل مسئلہ قانونی نہیں بلکہ عملی ہے۔ بھارت کیلئے بنگلہ دیش کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔ حوالگی سے انکار اس تنائو کو بڑھا دے گا جو اس وقت بھی بہت زیادہ ہے۔ بھارت کے خلاف عوامی لہر اپنے عروج پر پہنچ جائے گی اور بنگلہ دیش کے آئندہ انتخابات میں یہ عنصر جیتنے والوں کیلئے بہت مؤثر ہو سکتا ہے۔ بھارت نے سالہا سال کی محنت سے بنگلہ دیش سے جو فوائد حاصل کیے‘ وہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔ بھارت کیلئے اپنی مشرقی ریاستوں (سیون سسٹرز) کی سکیورٹی اہم ہے اور بنگلہ دیش کو سخت حریف بنا کر وہاں بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت بھارت ان ریاستوں میں ترسیل کیلئے اپنے تنگ اور دشوار واحد زمینی راستے سلی گری کوریڈور کے بجائے بنگلہ دیش کی بندرگاہیں‘ ریل اور سڑک کا نظام استعمال کر رہا ہے‘ جو کم خرچ اور کم مسافت والا راستہ ہے۔ بنگلہ دیش یہ سہولت ختم کر دے تو بھارت کیلئے بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ اس علاقے میں چین کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ بھی ایک مسئلہ ہے اور بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ بنگلہ دیش چین کی آغوش میں جا گرے۔ دوسری طرف حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنا عوامی لیگ اور بھارت کے حامیوں کیلئے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ یہ واضح پیغام ہوگا کہ بھارت اپنے فائدے کیلئے پرانے اور قابلِ اعتماد اتحادیوں کی قربانی دے سکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندو ؤں کی اچھی خاصی آبادی ہے‘ جو عوامی لیگ کے حامی ہیں۔ بھارت نہیں چاہے گا کہ بنگلہ دیش میں یہ حمایت بالکل ختم ہو کر رہ جائے۔ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کیلئے بھی یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس لیے ان کی نظریں بھارت پر ٹکی ہیں۔
دوسری طرف بنگلہ دیش کیلئے بھی آزمائشیں کم نہیں۔ داخلی امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں۔ عوامی لیگ کے زوال کے باوجود عوام میں اس کا اثر مختلف حصوں میں موجود ہے‘ جسے یکسر نظر انداز کرنا نئی افراتفری کا سبب بن سکتا ہے۔ معاشی صورتحال بھی بہتر نہیں اور بیروزگاری اور مہنگائی سے لوگ مسلسل پریشان ہیں۔ پھر سرحدوں پر بھارت سب سے بڑ ی فوجی اور معاشی طاقت ہے۔ بنگلہ دیش تین اطراف سے بھارت میں گھرا ہے اور چوتھی طرف سمندر ہے۔ دونوں ممالک میں پانی کا بڑا تنازع بہت مدت سے ہے اور زیادہ تر دریا بھارت سے ہو کر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش بھارت سے فوجی پنجہ آزمائی کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ کوئی علاقائی ملک بھارت کے خلاف مدد کو نہیں آنے والا‘ اس لیے ایک حد سے زیادہ بھارت کو ناراض کرنا بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے ایک خیال یہ ہے کہ حوالگی کا مطالبہ عوام اور حسینہ مخالف قوتوں کو مطمئن کرنے کی کوشش ہے۔ قانونی کارروائی میں کئی سال لگ سکتے ہیں‘ اس لیے کوئی خاص کارروائی مقصود نہیں ہے۔
بھارتی میڈیا مسلسل تاثر دے رہا ہے کہ بنگلہ دیش بنیاد پرستوں اور دائیں بازو کے کٹر بھارت مخالف عناصر کی گرفت میں ہے اور اگلے انتخابات کے بعد حکومت بھارت مخالف ہو گی۔ کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت اور مندروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ دو ماہ قبل ایک ہندو مذہبی رہنما کی بنگلہ دیش میں گرفتاری پر بھارت میں ہندو تنظیموں نے کافی مظاہرے کیے اور اگرتلہ میں بنگلہ دیشی سفارتخانے میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ بھی کی۔ اس کے چند گھنٹوں بعد ڈھاکہ میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ بنگلہ دیش حکومت ہندو اقلیت پر حملوں کی تردید کرتی ہے لیکن بھارت اپنی تشویش عبوری حکومت تک پہنچاتا رہا ہے۔ بھارت کے خارجہ سیکرٹری وکرم مشری نے پچھلے دنوں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور اہم لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ یہ ایک طرح سے نئی دہلی کا اعترا ف ہے کہ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کو بھول کر نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو اندیشہ ہے کہ عبوری حکومت میں تو معتدل عناصر ہیں لیکن اگلی حکومت سخت گیر مذہبی عناصر کی آ سکتی ہے اس لیے اس نے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔
بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کا زور اصلاحات پر ہے۔ لیکن عبوری حکومت کتنی مدت رہ سکتی ہے‘ جلد یا بدیر اسے انتخابات کرانے ہوں گے۔ بنگالی عوام کا مزاج ہے کہ وہ جلد سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ عبوری حکومت کے خلاف بھی آوازیں اٹھنی شروع ہو چکی ہیں۔ عوامی لیگ مخالف سیاسی جماعتیں بھی چاہتی ہیں کہ حسینہ مخالف لہر کے اثرات کا فائدہ اٹھایا جائے اور جلد انتخابات ہوں۔ اس لیے ممکن ہے کہ 2025ء ہی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جائے۔ 2025ء کیا خبریں لائے گا‘ کیا بنگلہ دیش گرداب سے نکل سکے گا‘ کیا خلیج بنگال سے بڑی خلیج پیدا ہونے والی ہے۔ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔