اگر لازمی نہ ہو جائے تو میں سردیوں کے چند مہینوں میں تو لاہور سے باہر بالکل نہ جاؤں۔ جنوبی علاقوں میں تو ہرگز نہیں۔ شمالی اور سرد علاقوں میں بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ سرد تر علاقوں میں جاڑے کے حسن‘ خوبصورتی اور سردی کی خوشبو میں اضافہ تو ہو جاتا ہے‘ برف باری کا حسین منظر بھی مل جاتا ہے لیکن جاڑوں کی جو دیگر خوبصورتیاں لاہور میں موجود ہیں‘ وہ کیسے اور کتنی ڈھو کر لے جائی جائیں گی۔ وہ کھانے‘ مشروبات‘ میوے اور سوغاتیں وہاں اس طرح کہاں مل سکتی ہیں جیسے لاہور میں مل جاتی ہیں اور برسوں کی کوشش سے ان ٹھکانوں کے بھید جان چکا ہوں۔
میرے ایک دیرینہ دوست اعتزازصاحب ہیں‘ جنہیں میں انکے مزاج کی مناسبت سے اعتراض صاحب کہتا ہوں۔ حساس‘ زود رنج اور ہمہ وقت شاکی اعتراض صاحب۔ انہیں اس لقب پر اعتراض ہے لیکن بہرحال انہوں نے برسوں کے بعد قبول کر لیا ہے۔ انہوں نے یہ جملہ سن کر کہ میں سردیوں کے چند مہینوں میں تو لاہور سے باہر بالکل نہ جاؤں‘ اضافہ کیا کہ ''اورگرمیوں کے چند مہینوں میں تو لاہور بالکل نہ آؤں‘‘۔ مشتاق احمد یوسفی نے بھی تو اپنے ہمزاد مرزا کی زبانی کہا ہے کہ ''کیلنڈر سے اپریل‘ مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست اور ستمبر کے مہینے ہمیشہ کیلئے خارج کردیے جائیں تو واللہ لاہور کا جواب نہیں‘‘۔ اپریل کو اس میں شامل کرنے سے تو مجھے اختلاف ہے کہ یہ پیارا مہینہ ہے‘ لیکن باقی مذکورہ مہینوں کے بارے میں کافی حد تک اتفاق کرتے ہی بن پڑتی ہے۔
لاہور میں گلابی موسم نومبر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اب کمبخت سموگ نے ایسا قہر ڈھایا ہے کہ پورے نومبر پر اسی کی نحوست کا غلاف چھایا رہتا ہے۔ لوگ لاہور سے بھاگنے لگتے ہیں‘ اس لیے اسے بھی جلد کیلنڈر سے نکال دینا پڑے گا۔ تو باقی سردیوں میں کتنے مہینے رہ گئے۔ دسمبر‘ جنوری۔ بس دو مہینے۔ فروری سے تو موسم رنگ بدلنا شروع کر دیتا ہے اس لیے سردیوں کے یہی دو مہینے ہیں جنہیں آپ سال کے بہترین مہینے کہہ سکتے ہیں۔ اللہ اگر عافیت رکھے‘ صحت رکھے اور منفی سوچ کی سموگ کا غلاف دماغ پر نہ چڑھا ہوا ہو‘ تو یہ مہینے لاہور کی خوبصورتی کشید کرنے کے دن ہیں۔ کھانے‘ پینے‘ سونے‘ جاگنے‘ چہل قدمی کرنے اور ملاقاتوں کے دن۔ انگیٹھیوں اور آتش دانوں کے ساتھ کافی یا چائے کی چسکیوں اور خشک میوے سے شغل کرنے کے دن۔ گرم لحافوں میں لمبی رات گزارنے اور دھند بھری صبح کی مہک میں آنکھیں کھولنے کے دن۔ خاموش اور سرد راتوں کے سکوت میں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کے دن۔
بات لاہور کی ہے لیکن آپ جس ملک کے جس شہر میں بھی رہتے ہوں‘ اپنے ماحول کے مطابق اس میں تبدیلی کرتے چلے جائیے۔ پاکستان کے ہی نہیں‘ ہندوستان کے وہ شہر بھی‘ جن کا موسم لاہور سے قریب تر ہے۔ مثلاً سہارنپور‘ دہلی یا لکھنؤ وغیرہ۔ پاکستان میں اسلام آباد‘ ایبٹ آباد‘ پشاور وغیرہ سردیوں میں خوبصورت تر ہیں لیکن کیا وہاں سردیوں کی وہ سوغاتیں بھی اس طرح مل سکتی ہیں جیسے لاہور میں۔ کھانے پینے کی چیزوں کی کمی نہیں اور بعض چیزوں میں لاہور پر فائق بھی لیکن مجموعی طور پر اتنی متنوع چیزیں شاید ہی کسی شہر میں یکجا مل سکیں۔ شاید کیا‘ میرا تجربہ یہی ہے کہ یقینا نہیں مل سکتیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ اپنا اپنا ذائقہ اور پسند بھی ہے‘ جس کی لت لگ گئی سو لگ گئی۔ ایک عمر کے بعد جسم زندگی کی مخصوص طرز کا عادی ہو جاتا ہے اور Grovesبن چکی ہوتی ہیں۔ بدلنا ممکن نہیں رہتا۔ میری گرووز بھی بن چکی ہیں۔ ہر شہر کی اپنی خوشبو اور اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ خود کو اسی کے مطابق ڈھال لیا جائے لیکن پھر بھی کسی شہر میں جانا ہوتو دل من پسند ذائقے ڈھونڈتا ہے۔
آج کا دن اعتراض صاحب کے ساتھ گزر رہا ہے۔ وہ کچھ دن کیلئے میرے مہمان ہیں لیکن میں ان کے سموگی غلاف میں آنے کا نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ حضور! جو کچھ بھی ملک اور دنیا میں ہو رہا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ آپ کی‘ میری مرضی سے بدلنے کا نہیں۔ اور سب کچھ غلط بھی نہیں ہو رہا‘ بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ تو ان دو مہینوں میں توکچھ دیر کیلئے دنیا پر‘ ملک پر‘ قوم پر دانت پیس پیس کر غصہ کرنے کے بجائے ارد گرد کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئیے‘ اٹھیے میرے ساتھ چلیے‘ ذرا شہر کا ایک چکر لگاتے ہیں‘ کچھ چیزوں سے زندگی کشید کرتے ہیں۔ جیکٹ پہنیے اور سارے بوجھ ذہن سے جھٹک دیجئے۔ بازار جا رہا ہوں۔ چلیے پہلے مچھلی منڈی چلتے ہیں۔
ہمارے بچپن میں بھی مچھلی صرف ان مہینوں میں کھائی جاتی تھی جن کے نام میں ''ر‘‘ آتا ہو۔ اب بھی زیادہ تر یہی تاثر ہے کہ مچھلی گرم مہینوں میں نہیں کھانی چاہیے۔ لیکن ملکوں ملک گھومنے کے بعد میں تو یقین رکھتا ہوں کہ مچھلی کسی بھی موسم میں کھائی جا سکتی ہے اورکافی کسی بھی موسم میں پی جا سکتی ہے۔ ساری دنیا میں اسی پر عمل ہے۔ برصغیر کے مخصوص گرم موسم میں شاید اس کی کوئی مصلحت رہی ہو لیکن بنگلہ دیش‘ برما‘ مغربی بنگال بھی تو اسی برصغیر کا حصہ ہیں۔ وہ کون سے سرد ملک ہیں؟سارا سال وہاں مچھلی کھائی جاتی ہے بلکہ مرغوب ترین خوراک یہی ہے۔ انہیں کیوں نقصان نہیں پہنچاتی؟
لیجیے!مچھلی منڈی پہنچ گئے۔ ہر قسم کی مچھلیاں موجود ہیں۔ یاد رکھیے کہ درجہ بندی میں پہلے نمبر پر دریائی یا میٹھے پانی کی مچھلی آتی ہے۔ دوسرے پر سمندری اور تیسرے نمبر پر فارمی مچھلی۔ آج ہم دریائی مچھلی لیتے ہیں۔ یہ سول مچھلی ہے‘ سب سے مہنگی لیکن فنگر فش کیلئے بہترین۔ یہ سنگھاڑا مچھلی ہے‘ سالن کیلئے سب سے بہتر۔ یہ ملی مچھلی ہے‘ قدرے سستی اور سالن کیلئے عمدہ۔ یہ دریائی کھگا ہے‘ چھوٹا قد مگر سالن کیلئے لاہوریوں کی پسندیدہ۔ یہ تھیلا مچھلی ہے جسے رہو کہہ کر بھی لوگ بیچتے ہیں۔ اور یہ اصلی رہو‘ جو تلنے کیلئے بہترین ہے۔ فارمی رہو نہیں لینی کہ بے ذائقہ ہے۔ بام‘ چڑا‘ مہاشیر‘ سب دریائی اور سب اچھی ہیں۔ ترجیح اپنی اپنی! اور ہاں دریائے سندھ کی پلہ مچھلی‘ جو لاہو رکم کم آتی ہے‘ کافی کانٹوں والی لیکن سندھ‘ خاص طور پر حیدر آباد وغیرہ کے علاقوں میں مرغوب ترین ہے۔ یہ وہی مچھلی ہے جو ایلش یا ہلسا کے نام سے بنگال کی مرغوب ترین ہے۔ وہی ایلش جس پر بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ٹھنی ہوئی ہے۔سمندری مچھلی؟ فنگر فش کیلئے؟ بیکٹی (Bhekti) بہترین رہے گی جسے ڈانگری بھی کہتے ہیں۔ سرمئی یعنی کنگ فش سالن اور فنگر فش دونوں کیلئے بہت اچھی۔ اور پاپلیٹ مچھلی سبحان اللہ! سفید ہو یا کالی‘ سالن کیلئے بہترین۔ تلنے کیلئے تین دانت والی مشکا مچھلی‘ جو کراچی کی بہترین دعوتوں میں موجود ہوتی ہے‘ بہترین ہے۔ سمندری مچھلی میں اور بھی بہت قسمیں ہیں۔ چھوڑیے آج کیلئے اتنا کافی ہے۔
اور ہاں! آتے ہوئے ایک ریڑھی پر شکرقندی اور سنگھاڑے دیکھے تھے نا! اسی موسم کی سوغات ہیں‘ لیے چلتے ہیں۔یہیں ایک ریڑھی پر سرخ‘ نارنجی فروٹر کا ڈھیر ہے۔ زرد‘ پیلے‘ سنہرے کینو آچکے ہیں جو ایران میں نارنجِ پاکستانی کے نام سے بہت مہنگے بکتے ہیں۔ روس میں اس کی بے حد مانگ ہے اور سرگودھا کا بہترین کینو تو برآمد ہی ہو جاتا ہے۔ یہاں مارکیٹ میں کم کم ہی نظر آئے گا۔ اور یہ کیسا بڑا بڑا سرخ سفید امرود ہے۔ یہ بھی لیتے ہیں۔ چلیے اب گھر چلیں۔ شکر قندی اور سنگھاڑے اُبالتے ہیں۔ دیکھیں سرد جھونکوں کے ساتھ کیسی دھوپ کھلی ہوئی ہے۔ اس دھوپ کیلئے تو پورا نومبر ترس گئے تھے۔ یہاں خنک تمازت والی دھوپ میں کرسی پر بیٹھیں۔ چھلے ہوئے کینو اور فروٹر سامنے ہیں۔ امردو قاش در قاش موجود ہیں۔ ابلی شکر قندی اور بڑے سنگھاڑوں کی قاب پیش کردی گئی ہے۔ کٹوریوں میں گلابی نمک‘ کالا نمک اور چاٹ مسالاالگ سے ہے۔ لگائیں اور مزے سے کھائیں۔ بھول جائیں کہ دنیا اور ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ بھول جائیں کہ حکمران کیا کر رہے ہیں۔ آپ اور میں اس لمحے میں سب سے بڑے بادشاہ ہیں۔ سب سے زیادہ آسائشوں والے۔ دو مہینوں کیلئے‘ صرف دو مہینوں کیلئے سب بھول جائیں۔ اعتراض صاحب! آپ کو بادشاہ کہہ لوں اگر اعتراض نہ ہو؟