بہار کی آمد آمد ہے بلکہ بہار گھر کے اندر آ پہنچی ہے۔ ملک بھر میں موسم بھی انگڑائیاں لے کر کروٹیں بدل رہا ہے۔ شمالی علاقوں میں کچھ جگہ تازہ برف باری کی اطلاعات کے باوجود بیشتر علاقوں میں سردی رخصت ہو رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے۔ دھوپ بھرا آسمان بادلوں سے خالی ہے اور ہوائیں سردی کی کیفیت سے خالی۔ نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ ٹنڈ منڈ‘ خشک اور بے رنگ ٹہنیاں تازہ ہلکے سبز پتوں سے بھرنے لگی ہیں۔ آموں کے پتے زنگار رنگ اٹھانے لگے ہیں اور آموں کا بور نمو کر رہا ہے۔ پیٹریا بیل پر کاسنی پھولوں کے گچھے آ چکے ہیں اور اس سال وسٹیریا بیل پر پہلی بار فانوس نما سفید پھولوں کا انتظار ہے۔ جگہ جگہ درخت مَول رہے ہیں اور کلیاں نمودار ہونے کو ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے بہار کی آمد کی اطلاع اپنے مور سے ملتی ہے اور اس نے کئی دن پہلے موسم بدلنے کا اعلان کر دیا تھا۔ مکمل براق سفید ہونے کی وجہ سے اس کا نام میں نے ''برف پوش‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اس کی فرشتہ پر ملکہ کا نام ''مرمریس‘‘ رکھا گیا ہے۔ سردی کے آغاز سے پہلے برف پوش اپنے پَر جھاڑ دیتا ہے اور پنجرے میں روئی کے گالے ہر طرف بکھرے نظر آتے ہیں۔ سردیوں میں وہ سست اور کمزور نظر آتا ہے۔ سرد ترین ہوائوں کے جھکڑوں میں وہ اور اس کی مورنی اپنے پروں میں ہوا بھرے لحاف میں دبک کر بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن بہار کے آغاز ہی میں اس کے نئے چمکیلے سفید پر پھر نمودار ہوتے ہیں۔ دم کی لمبائی بڑھنے لگتی ہے۔ اور ہر سال پہلے سے بڑا پنکھ اس کیلئے بہار اور گرمیوں کا تحفہ ہوتا ہے۔ گرمیاں آتی جاتی ہیں اور پنکھ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ پورا پنکھ پھیلا کر وہ رقص کرتا ہے اور مورنی کو رجھانے کیلئے کبھی پنکھ جھٹک کر‘ کبھی کھول کر اور کبھی پھڑپھڑا کر آگے پیچھے رقص کے قدم اٹھاتا ہے تو لگتا ہے اس سے بہتر نظارہ کہیں اور نہیں ملے گا۔ اس کی پُروقار حسین ملکہ مرمریس ایک شانِ بے نیازی سے ان محبوبانہ ادائوں کو دیکھتی ہے اور دانہ چگنے یا پانی پینے میں مصروف رہتی ہے۔ مورنی کی پُرتمکنت چال چلتی ملکہ عالیہ وہی سب انداز اپناتی ہے جو کسی خوبصورت ملکہ کے ہونے چاہئیں۔ یعنی آئو‘ اپنے حسن اور توانائی سے مرعوب کرو اور مجھے جیتو۔ یہ میری مرضی ہے کہ کب تمہیں وصل کا موقع دیتی ہوں۔ یہ ادائے دلبری اور طرزِ عاشقانہ سارے پرندوں میں ہوتی ہے لیکن جس خوبصورتی سے مور ان کا اظہار کرتے ہیں‘ شاید اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ لان‘ باغ اور پارک خزاں کے آغاز میں پرندوں کے چہچہوں سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ یہ نغمے پہلے کم اور پھر اور کم ہونے لگتے ہیں۔ یہ آتی سردیوں کی تیاری ہے اور سکوت کے ساتھ پرندوں کی اپنی توانائی بچا کر رکھنے کی فطری کوشش۔ بہار ان کی چونچیں اور پر کھولنے ہی سے تو آتی ہے۔ جشنِ بہار آپ اور ہم کیا منائیں گے جیسے یہ پرندے مناتے ہیں۔
میں چند دن پہلے موروں کے پاس بیٹھا ان کی باغ وبہار ادائیں دیکھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے گیٹو اور گرے یاد آ گئے اور اس یاد نے ایک پرانا زخم تازہ کر دیا۔ گیٹو اور گرے میرے پاس موروں کا پہلا جوڑا تھا اور یہ سفید نہیں بلکہ بلیک شولڈر مور تھے۔ یہ بارہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے جب ایک دوست نے موروں کے دو چوزے مجھے تحفتاً بھیجے۔ ان چوزوں کی عمر صرف چند ہفتے تھی اور ان بے رنگ چوزوں کے سر پر اگر تاج نہ ہوتا تو انہیں مور کہنا مشکل تھا۔ یہ چوزے کچھ دنوں میں مجھ سے مانوس ہو گئے اور میرے ہاتھ سے دانہ چگنے لگے۔ بچپن میں پڑھی ہوئی ایک نظم ''گیٹو گرے‘‘ کی مناسبت سے میں نے مور کا نام گیٹو اور مورنی کا نام گرے رکھ دیا۔ پیڑوں‘ پھلوں‘ پھولوں‘ پودوں‘ پرندوں‘ مچھلیوں سے مجھے ہمیشہ سے محبت ہے اور خوبصورت موروں کا یہ جوڑا بھی مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ جوڑا بڑا ہوتا گیا۔ ان کی بے رنگ گردنوں پر نیلے رنگ کے پر نمودار ہوئے تو ہماری خوشی دیدنی تھی۔دھیرے دھیرے گیٹو اور گرے چمکدار خوش رنگ پروں سے ڈھکتے گئے۔ گیٹو کے رنگ گہرے نیلے کالے اور دیگر شوخ رنگوں کا امتزاج تھے اور گرے اپنے نام کی طرح سرمئی سفید اور سیاہ رنگوں سے بنی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ گیٹو اور گرے کے وزن‘ حجم اور رنگوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ بہار کی آمد کی اطلاع ہمیں گیٹو کے رقص کے آغاز سے ملتی۔ وہ سینکڑوں آنکھوں‘ اَن گنت نقش ونگار اور بے شمار رنگوں والا مور پنکھ پھیلا کر رقص کرتا تو کافی بڑا پنجرہ بھی چھوٹا پڑ جاتا۔ ان دنوں میں یہ رقص صبح دم آغاز ہو جاتا۔ صبح میں دفتر جانے کیلئے نکلتا تو گرے کو لبھانے کیلئے گیٹو حالتِ رقص میں ہوتا۔ وہ وقفے وقفے سے اپنے مکمل بڑے اور لمبے تاج پنکھ کو ایک جھٹکا دے کر گرنے سے بچاتا اور کبھی آگے اور کبھی پیچھے اپنے مخصوص رقص کے قدم اٹھاتا۔ گرے کی بے نیازی اور دلبرانہ تغافل بھی قابلِ دید ہوتا تھا۔ بظاہر بے توجہی سے دانہ چگنے میں مصروف یا مورنی کی باوقار چال چلتی گرے ایسی محبوبہ تھی جو اپنے عاشق کا ہر بھید بھائو جانتی ہو اور اپنے غرور میں اسے کسی خاطر میں نہ لاتی ہو۔ بہار کے دنوں میں یہ روز کا معمول تھا‘ جو صبح صبح شروع ہوتا اور دو تین بجے سہ پہر تک گیٹو اپنا ''شو‘‘ ختم کر دیتا۔ گرم دن گزرتے اور سردیوں کی آمد آمد ہوتی تو گیٹو کی دم‘ تاج اور پنکھ جھڑنا شروع ہو جاتے اور وہ کمزور نظر آنے لگتا۔ کبھی جب گیٹو موج میں ہوتا تو اپنی مغرور چمکدار نیلی گردن پھلا کر ایسی زور دار آوازیں نکالتا کہ دور دور تک سنائی دیتیں۔ کسی اجنبی کو گھر میں دیکھ کر بھی اس کا انداز الگ ہوتا اور کسی جانے پہچانے شخص کے گھر کے دروازے پر پہنچنے سے پہلے بھی اس کی آواز سے آمد کی خبر مل جاتی۔ یہ معمول پانچ سال سے جاری تھا۔ گیٹو اور گرے دونوں ہی گھر کے مکینوں میں اس طرح رچ بس گئے تھے کہ ایک دن اچانک میری بیگم نے دفتر میں مجھے فون کرکے بتایا کہ مورنی مر گئی ہے تو اچانک جیسے کسی نے میرے دل کو بھینچ لیا۔ میں ایک صدمے کی کیفیت میں بس بیٹھا رہ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ ایک دو دن سے وہ کچھ سست تو محسوس ہو رہی تھی لیکن ایسی کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آتی تھی۔ گھر پہنچا اور گیٹو کو دیکھا تو اپنا صدمہ بھول گیا۔ اس پر واضح طور پر مورنی کی جدائی کا اثر تھا۔ وہ خلافِ معمول جس طرح بیٹھا تھا اسی طرح بیٹھا رہا۔ گھنٹوں بعد دیکھنے پر بھی وہ اسی طرح بیٹھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر میں فکرمند ہوگیا۔ وہ کبھی کبھی دانہ چگنے کیلئے اپنی مخصوص شاخ سے اترتا لیکن چند دانے بھی بے رغبتی سے کھاتا۔ دو دن بعد میں جب دفتر کیلئے نکلا تو وہ زمین پر ایک دیوار کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔ اس کی ایسی کیفیت ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی حالانکہ وہ پہلے بھی ایک دو بار بیمار ہوا تھا۔ احتیاطاً پرندوں کے ڈاکٹر کو بلوایا۔ اس نے انجکشن اور دوا دی۔ اس کی بھی رائے یہی تھی کہ بظاہر سب ٹھیک لگتا ہے لیکن اس کا صدمہ واضح ہے۔ اور پھر بالآخر گیٹو بھی رخصت ہو گیا۔ گرے کی جدائی کے ٹھیک چار دن کے بعد۔ گرے کی جدائی کے بعد چار دن وہ اس طرح رہا جیسے کسی نے اسے حنوط کر دیا ہو۔ پرندوں میں ایسی بے مثال محبت۔ ذہن پر گہری یادیں چھوڑ جانے والی ایسی رفاقت۔ ایسی تو نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی۔ گیٹو اور گرے کا پنجرہ خالی ہو گیا اور دل اس سے بھی زیادہ خالی۔ کچھ عرصے بعد برف پوش اور مرمریس نے پنجرہ بھر دیا لیکن جو محبت گیٹو اور گرے سے مجھے ملتی تھی اس کی یاد کبھی گئی نہیں۔
سسی پنوں‘ ہیر رانجھا‘ مرزا صاحباں‘ جہانگیر نور جہاں‘ شاہجہاں ممتاز محل کی محبت کی کہانیاں سنائی گئی ہیں‘ کتابیں لکھی گئی ہیں اور نظمیں کہی گئی ہیں۔ اس محبت سے بہت محبت کی گئی ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ پرندوں کی محبت کی داستانیں کون سنائے گا؟ ان پر گیت کون لکھے گا؟ ان کی محبت سے محبت کون کرے گا؟