نائن الیون سے پہلے کی دنیا یاد کیجیے اور پھر بعد کا عالمی منظرنامہ جب لوگ دنیا کی تاریخ کو قبل از نائن الیون اور بعد از نائن الیون کے ادوار میں تقسیم کرنے لگے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں بھی امریکی رُخ بہت تبدیل ہوا لیکن اس بار چند دنوں ہی میں انہوں نے امریکی پالیسیوں کو جس طرح گھمایا ہے اور اس کے نتیجے میں بالآخر دنیا کے ممالک کو جو حتمی پوزیشن لینی پڑے گی اس کے باعث ممکن ہے کہ لوگ نائن الیون کو بھول جائیں اور دنیا قبل از ٹرمپ اور بعد از ٹرمپ کی تاریخیں لکھنے پر مجبور ہو جائے۔ معاملہ امریکی پالیسیوں کا نہیں بلکہ عالمی جغرافیے کا بھی ہے۔ جو اعلانات امریکی صدر نے کیے ہیں اور روز کر رہے ہیں‘ اگر ان پر اسی طرح عمل ہو گیا تو دنیا کے بہت سے خطوں کا جغرافیہ بدل جائے گا۔ سرحدیں اور حکومتیں بدل جائیں گی۔ بہت ممکن ہے یہ سب نہ ہو لیکن؟ اور یہ لیکن بہت بڑا ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے ساتھیوں کو خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے کینیڈا کو ہتھیانے کی دھمکی حقیقت پر مبنی ہے اور امریکہ کی نظریں کینیڈا کی انتہائی اہم معدنیات پر ہیں۔ ٹروڈو کے مطابق امریکہ جانتا ہے کہ ہمارے وسائل کیا ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ آسان ترین طریقہ کینیڈا کو ضم کرنے کا ہے لیکن کینیڈا امریکہ میں ضم ہونے والا نہیں۔
یہ کہنا تو آسان ہے لیکن فرض کیجئے کہ ٹرمپ اپنے ارادے کو پورا کرنے پر تُل جاتا ہے تو کینیڈا کے بس میں کیا ہے؟ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان دنیا کی سب سے لمبی یعنی 8891کلو میٹر کی سرحد ہے۔ اس میں سمندری اور زمینی دونوں سرحدیں شامل ہیں۔ ابھی اس سرحد پر کوئی مسئلہ نہیں۔ دونوں طرف کے شہری بآسانی دوسرے ملک میں آ جا سکتے ہیں۔ میں دو سال پہلے ونڈسر میں تھا جو چھوٹا سا خوبصورت کینیڈین سرحدی شہر ہے اور امریکی سرحدی شہر ڈیٹرائٹ کے سامنے دریا کی دوسری طرف بسا ہوا ہے۔ دریائے ڈیٹرائٹ سرحد کا کام کرتا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ونڈسر میں رہائش نسبتاً سستی ہے اور ڈیٹرائٹ میں جابز زیادہ ہونے کے باعث بہتر تنخواہیں ملتی ہیں؛ چنانچہ بہت سے کینیڈین شہری ڈیٹرائٹ میں ملازمت کرتے ہیں اور شام کو ونڈسر اپنے گھر آجاتے ہیں۔ اسی طرح امریکی شہری شاپنگ کیلئے ونڈسر آجاتے ہیں۔ ایسی سہولتیں اس بہت طویل سرحد پر دونوں طرف ہیں۔ بلکہ ہمسایہ ملکوں میں امریکہ اور کینیڈا کی مثالیں دی جاتی تھیں کہ دیکھو ہمسائے اس طرح رہتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑتے ہیں اور امریکہ کینیڈا پر ٹیرف عائد کرتا ہے ‘جو چند دن پہلے عائد کرکے کچھ وقت کیلئے مؤخر کر دیا گیا ہے (جواب میں کینیڈا نے بھی ٹیرف عائد کیا تھا) تو یہ مثالی ہمسائیگی ختم ہو جائے گی۔ اتنی لمبی سرحد کی حفاظت اور دیکھ بھال کینیڈا کیلئے کیسے ممکن ہو گی؟ دفاعی لحاظ سے کینیڈا امریکہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ معاشی معاملات اور لین دین میں بھی امریکہ کی بہت برتری ہے اور یہ بات ڈونلڈ ٹرمپ کو علم ہے۔ بالفرض امریکہ اپنے ارادے پر عمل کرتا ہے تو کیا کینیڈا اسے روکنے کی پوزیشن میں ہے؟ دفاعی اور معاشی لحاظ سے تو بالکل نہیں۔ رہی عالمی رائے عامہ تو اس کا حال آپ اسرائیل کی کارروائیوں میں مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ زبانی جمع خرچ اور بس۔
حالیہ نیتن یاہو ٹرمپ ملاقات کے بعد دو بڑے امریکی اعلانات سامنے آئے ہیں۔ ایک تو ٹرمپ نے آئی سی سی یعنی عالمی جرائم کی عدالت پر پابندی لگا دی ہے۔ صرف امریکہ میں کام کرنے پر نہیں بلکہ سفری پابندیاں بھی۔ عدالت کے اہلکار اور ان کے اہلِ خانہ اب امریکہ سفر نہیں کر سکتے۔ اور ان کے اثاثے ضبط کیے جانے کی خبریں بھی ہیں۔ جو عہدے دار امریکہ میں موجود ہیں‘ انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔ گویا ٹرمپ نے عدالت کو جرم کا مرتکب قرار دے کر اسے سخت سزا سنا دی ہے۔ عدالت کا بنیادی جرم یہ تھا کہ ہیگ‘ ہالینڈ میں قائم شدہ اس عدالت نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے کر اس کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ اگرچہ حماس کے رہنما محمد ضیف کے بھی وارنٹ اسی عدالت نے جاری کیے تھے لیکن امریکی مؤقف یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کو ایک ہی پلڑے میں رکھ کر عدالت نے نا انصافی کی۔ عالمی عدالت کو دنیا کے ممالک تسلیم کرتے ہیں اور 125ملک اس کے رکن ہیں۔ لیکن اب امریکہ نے اسے سزا سنا کر گویا اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اگرچہ دنیا کے 79ممالک نے‘ جن میں یوکے‘ فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں‘ عدالت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس عدالت سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور ناانصافی جیسے عالمی مسائل کا تصفیہ ہوتا ہے‘ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب ملک ان پابندیوں کو کیسے واپس کروا سکتے ہیں؟ آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر لوئس مورینو اوکامپو نے کہا کہ اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا یورپ‘ یوکے‘ جنوبی افریقہ‘ ارجنٹینا‘ برازیل‘ جاپان‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا جیسے ملک مسٹر ٹرمپ کو امریکی نہیں بلکہ عالمی صدر بن جانے کی اجازت دے دیں گے؟
نیتن یاہو ٹرمپ ملاقات کے بعد دوسرا بھونچال اس وقت آیا جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ غزہ کے فلسطینیوں کو قریبی ممالک کی طرف بے دخل کرکے غزہ پر امریکی قبضہ ہوگا۔ اس اعلان کے بعد اہم امریکی عہدیداروں نے کافی وضاحتیں پیش کرنے کی کوششیں کیں جن میں یہ بھی تھا کہ امریکی فوج غزہ میں نہیں اتاری جائے گی۔ فلسطینیوں کی یہ بے دخلی عارضی ہو گی اور اس کا مقصد غزہ کی تعمیر ِنو ہو گا‘ تاہم ان وضاحتوں کے توڑ کیلئے خود ٹرمپ ہی کافی ہیں جنہوں نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ غزہ پر امریکی کنٹرول ہو گا‘ اگرچہ اس کی ہمیں جلدی نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے محتاط طرزِ عمل اختیار کیا اور اگرچہ ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کیا لیکن کھل کر بات کرنے سے گریز کیا۔ اس معاملے پر ٹرمپ کے جو بیانات بعد میں سامنے آئے اس میں اس منصوبے کی کافی زیادہ ذمے داری اسرائیل پر ڈالی گئی ہے۔ مثلاً غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا‘ غزہ کا ملبہ صاف کروانا‘ جو بہت بڑا کام ہے اس لیے کہ 85فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور پھر اس خالی غزہ کو امریکہ کے حوالے کرنا‘ جو یہاں تعمیر نو کا کام کر سکے۔ یہ ٹرمپ کا خواب سہی لیکن اس پر عمل بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔ سب سے بڑا مسئلہ تو اسرائیل کا ہوگا جس کیلئے اس منصوبے میں اچھی بات صرف فلسطینیوں کی بے دخلی ہے۔ باقی صرف مزدوری ہے۔ اور یہ سب کرکے اس پٹی کو امریکہ کے حوالے کردینا اپنے پڑوس میں ایک سپر پاور کو لا بٹھانا ہے۔ اس میں اسرائیل کو حاصل کیا ہو گا؟ غزہ کو برباد کرکے رکھ دینے کے باوجود اسرائیل نہ اپنے قیدی چھڑا سکا تھا‘ نہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال سکا ‘ نہ حماس کو ختم کر سکا ۔ تو اب یہ کام وہ کیسے کرے گا جبکہ وہ خود زخم خوردہ ہے۔ حماس‘ حزب اللہ اورایران کبھی اس پر آمادہ نہیں ہوں گے اور اس بار یہ سارے عزائم دیکھتے ہوئے مسلم ملکوں کی مدد بھی زیادہ مل جانے کا امکان ہے۔ خود اسرائیل کیلئے بہت سے خطرات بڑھ جائیں گے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس منصوبے کو رد کردیا ہے۔ اور اردن‘ مصر‘ لبنان اور شام جیسے عرب ممالک کے تعاون کے بغیر یہ منصوبہ پورا نہیں ہو سکتا۔ مشرقِ وسطیٰ میں نئی جنگ چھڑی تو یہ ایک بڑے خطے کی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
لیکن کچھ بھی ہو‘ اندھی طاقت کوئی بھی فیصلہ کروا سکتی ہے۔ سکندر مقدونی نے پوری دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے‘ چنگیز اور ہلاکو نے پوری دنیا پر منگول حکمرانی چاہتے ہوئے‘ ہٹلر نے جرمن نسل کو پوری دنیا سے برتر بتاکر بہت سے ملک فتح کرتے ہوئے عملی دشواریوں کا سوچا تھا یا کسی مخالف رائے کو سنا تھا؟ صاحبِ نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک۔ کولمبیا‘ میکسیکو‘ پانامہ‘ گرین لینڈ‘ کینیڈا‘ ڈنمارک اور اب غزہ۔ کیا واقعی بعد از ٹرمپ زمانوں میں دنیا کا جغرافیہ تبدیل ہونے والا ہے؟