"SUC" (space) message & send to 7575

مدفون نشانیاں

دریا اپنے چوڑے پاٹ کے ساتھ تیز روانی میں تھا۔ یہ سیلاب کے نہیں‘ عام روانی کے دن تھے‘ جب دن بھر گہرا نیلا پانی دھوپ میں بچھی نیلی جاجم کی طرح جھمجھماتا تھا اور ڈھلتے سورج کی کرنیں اسے سنہرا غسل دینے میں مصروف رہتی تھیں۔ شام ڈھلے دریا پر چل کر آتی ہوئی نرم خنک ہوا‘ تیز کڑکتی دھوپ اور ریگستانی گرم لُو کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو جاتی اور لوگ گھروں‘ دیواروں اور درختوں کے سائے سے نکلنا شروع ہو جاتے تھے۔ دریا کے دونوں کناروں پر آنکھوں کو ہریالی بخشتے کھیت اور درخت تھے۔ دریا کنارے جھاڑیوں کے بیچ دلدلی زمین میں کچھ بگلے زمین پر نظریں گاڑ کر بیٹھے رینگتے کیڑوں اور چھوٹی مچھلیوں کو تلاش کرتے تھے۔ اس ہریالی زمین میں دریا ہر ایک کو رزق فراہم کرتا تھا۔ لمبی تھوتھنی والے مگرمچھوں سے لے کر آبی اور خاکی پرندوں تک سب کو۔ اور انسان کو تو رزق ملتا ہی یہیں سے تھا۔ انسان کنارے پر اور کشتیوں میں بنسی‘ ڈور‘ کانٹوں اور جال سے تڑپتی مچھلیاں پانی سے نکالتے تھے۔ پانی پر منڈلاتے پرندے بھی ان کا شکار ہوتے تھے۔ اسی پانی سے وہ کھیت سیراب کرتے‘ جہاں سے انہیں اناج اور سبزیاں ملتی تھیں۔ یہی پانی ان کے حلقوم میں پہنچ کر شدت کی پیاس بجھاتا اور شریانوں میں داخل ہو کر جسم کو رواں رکھتا تھا۔ شام اترتی تو آگ بگولا دن کچھ دیر کو آنکھیں بند کر لیتا۔ پھر دریا میں شاہی بجرے رواں ہوتے اور عام لوگ بھی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر دریا میں نکلتے۔ بارش بہت کم ہوتی تھی لیکن سال میں ایک بار آنے والا دریائی سیلاب ان کی سارے سال کی خوشیاں ساتھ لے آتا۔ دریا اپنے کناروں سے نکل کر دونوں طرف دور دور پہنچتا‘ اور جہاں جہاں پہنچتا‘ اس زمین کو زرخیز مٹی‘ ہریالی اور زندگی کے تحفے دے آتا تھا۔
ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح یعنی آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے بھی دریائے نیل مصر کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح تھا۔ نیل جو قدیم مصر یا ''مصرائیم‘‘ کا دوسرا نام تھا۔ نیل نہیں تو مصربھی نہیں۔ یہ آبِ حیات پورے ملک میں جنوب سے شمال کی طرف بہتا اور زندگی ممکن بناتا تھا۔ جہاں جہاں دریا بہتا‘ دونوں کناروں پر ہریالی کی پٹی ساتھ ساتھ چلتی‘ جس کی دوسری طرف ہولناک اور وحشت ناک صحرا شروع ہو جاتا۔ سرخی مائل زرد ریت کے ٹیلے‘ سنگلاخ چٹانیں‘ بے آب دشت‘ یہ صحرا موت تھا اور زندہ انسان اگر یہاں آتے تو فقط مردے دفنانے۔ یہ ریگستان موت تھا اور دریا حیات۔ دونوں کے بیچ ایک خطِ سیراب اس طرح کھنچتا تھا کہ ہریالی کے بعد اگلا قدم بنجر زمین پر پڑتا۔
شاہی بجرا دریا کنارے منتظر تھا۔ اونچے ستونوں کے بیچ سے پروہتوں کی ایک جماعت نکلی جن کے ہاتھوں میں ایک تابوت تھا۔ فراعنہ کے اٹھارہویں خانوادے کا بادشاہ اور وقت کا فرعون تھتھموسس دوم مر گیا تھا اور اب اسے آخری سفر پر لے جایا جا رہا تھا۔ اسے حنوط کر دیا گیا تھا اور اب کچھ فاصلے پر مقبرہ اس کا منتظر تھا۔ پروہتوں اور آمن معبد کے بڑے پجاریوں کی جماعت تدفین کے مذہبی بول پڑھتی جا رہی تھی۔ ان کے پیچھے محافظوں اور خدمتگاروں کے جلو میں تھتھموسس دوم کی ملکہ ''ہت شیپ ست‘‘ تھی۔ لمبی حریری قبا پہنے‘ کھات نامی فراعنہ کا مخصوص سر پوش پہنے‘ گلے میں چوڑا ہار زیب تن کیے بڑی ملکہ۔ وہی ہت شیپ ست جو آگے چل کر مصر کی سب سے بڑی اور عظیم خاتون فرمانروا کہلائی۔ اس نے تھتھموسس کے مقبرے کیلئے اس زمانے کے بڑے فراعنہ کی طرح وادیٔ شاہاں (valley of the kings) کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اس سے کچھ فاصلے پر اپنی بنائی گئی عبادتگاہ کے قریب کا مقام چنا تھا۔ وادیٔ شاہاں کے فرعونوں کے مقبروں میں ان کے ساتھ قیمتی ساز وسامان دفن کیا جاتا تھا‘ جو بہت جلد لٹیروں کے ہاتھ میں پہنچ جاتا تھا۔ ہت شیپ ست نے قدرے گمنام اور دشوار جگہ کا انتخاب کیا تھاجو چٹانوں کے بیچ تھی‘ پیدل پہنچنا دشوار تھا لہٰذا سوچا گیا کہ لٹیروں کے لیے اسے ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔ اس انتخاب کی داد دینی چاہیے۔ وادیٔ شاہاں کے سارے مقبرے کھوج نکالے گئے۔ صرف کم عمر بادشاہ طوطن خامن کا مقبرہ بچ رہا تھا جو نومبر 1922ء میں برطانوی ہاورڈ کارٹر نے KV62 کے مقام پر دریافت کیا اور مصریات میں ہمیشہ کیلئے اپنا نام لکھوا لیا۔ لیکن دیر الباہری میں موجود تھتھموسس دوم کا مقبرہ نگاہوں سے اوجھل رہا۔ تھتھموسس فراعنہ کے اٹھارہویں خانوادے کا‘ جو بہت بڑے اور نامور فرعونوں پر مشتمل تھا‘ چوتھا فرعون تھا۔ اسی خانوادے میں آگے چل کر طوطن خامن بھی تھا۔ تھتھموسس دوم کی حنوط شدہ ممی ایک اور غیر متعلق جگہ پر دیگر فراعنہ کی ممیوں کے ساتھ مل چکی تھی لیکن مقبرہ ہنوز پوشیدہ تھا۔ دراصل ہوا یہ کہ ان فراعنہ کے تقریباً 500 سال بعد‘ جب ان کے مقبروں میں سے اکثر لوٹ کھسوٹ کی نذر ہو چکے تھے اور بہت سوں کو پہاڑی سیلابی ریلوں نے برباد کر دیا تھا‘ اُس وقت کے اکیسویں خانوادے نے ان مقبروں سے ممیاں اور بچ رہنے والا سامان نکالا اور تھیبس کی چٹانوں میں ایک دشوار گزار خفیہ جگہ پر منتقل کر دیں۔ اصل مقبرے خالی رہ گئے۔ 1881ء میں یہ خفیہ جگہ شاہی ممیوں سمیت دریافت ہو گئی۔ ان ممیوں میں بڑے فرعونوں سیٹی اول‘ رعمسیس دوم‘ تھتھموسس دوم اور تھتھموسس سوم وغیرہ کی ممیاں بھی تھیں۔ ساڑھے تین ہزار سال قبل کی یہ ممیاں قاہرہ کے میوزیم میں پہنچیں اور اہرامِ مصر کے سائے میں قاہرہ کے جدید عجائب گھر میں آج کے دیکھنے والوں کیلئے نشانیاں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن تھتھموسس کے مقبرے کی نامعلوم جگہ ابھی تک معمہ بنی ہوئی تھی۔
وادیٔ شاہاں سے دو میل دور دریائے نیل کے مغربی کنارے پر دیر الباہری میں ہت شیپ ست کا بنایا ہوا عظیم الشان معبد ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کیلئے‘ جنہیں قدیم مصری تاریخ اور آثارِ قدیمہ کی خبروں کا چسکا ہے‘ 2022ء میں یہ بڑی خبر تھی کہ اس معبد کے قریب ایک نیا مقبرہ جسے C4 کا نام دیا گیا ہے‘ دریافت ہوا ہے۔ کھدائی سے قبل اسے تھتھموسس دوم کی کسی کم درجہ ملکہ کا مقبرہ خیال کیا گیا لیکن 19 فروری 2025ء کو برطانوی‘ مصری مشترکہ ٹیم کے Dr. Piers Litherland نے یہ کہہ کر اس مقبرے کی اہمیت میں بے حد اضافہ کر دیا کہ یہ کسی ملکہ کا نہیں بلکہ خود بادشاہ کا مقبرہ ہے۔ یہ مصری مقبروں میں‘ طوطن خامن کے مقبرے کی دریافت کے 100 سال بعد‘ اہم ترین دریافت ہے۔ ''ایک بڑا زینہ اور زمین کے اندر اترتی ہوئی کشادہ راہداری اس مقبرے کے عظیم الشان ہونے کی نشانیاں تھیں۔ سیلاب سے تباہ شدہ مقبرے میں اصل چیمبر تک پہنچے تو گری ہوئی چھت کا کچھ حصہ اصل حالت میں محفوظ تھا۔ یہ نیلے رنگ کی چھت تھی جس پر سنہرے ستارے تھے۔ نیلی چھت پر سنہر ے ستارے صرف فرعونوں کے مقبروں کی خصوصیت تھی۔ یہاں Amudat کی مذہبی تحریریں تھیں جو صرف بادشاہوں کی تدفین کیلئے مخصوص تھیں۔ لیکن مقبرہ بالکل خالی تھا۔ لوٹ مار کی وجہ سے نہیں بلکہ سامان منتقل کیے جانے کی وجہ سے‘‘۔ یہاں سے سفید آرائشی پتھر Alabaster کے ایک مرتبان کے ٹکڑے بھی ملے جن پر نہ صرف تھتھموسس دوم کی مخصوص مہر تھی بلکہ اس کی بڑی ملکہ ہت شیپ ست کا نام بھی موجود تھا۔ اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ یہ کسی کم درجہ بیوی کا نہیں بلکہ خود فرعون کا مقبرہ تھا۔
ایک راز اگلے رازوں کا ہاتھ پکڑ کر سلجھ گیا مگر کئی نئی گتھیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ فرعون کی ممی کے ساتھ کوئی ساز وسامان نہیں ملا۔ وہ تمام قیمتی سامان کہاں گیا؟ کیا تھیبس کی چٹانوں میں خفیہ جگہ پر منتقلی سے پہلے یہ ممی کسی اور جگہ ساز وسامان کے ساتھ منتقل کی گئی تھی؟ کیا ابھی وہ سامان مدفون اور ہنوز دریافت ہونے کا منتظر ہے؟ تھتھموسس دوم اور طوطن خامن‘ دونوں اٹھارہویں خانوادے کے غیر اہم بادشاہ تھے لیکن ان کے مقبروں کی دریافتوں نے انہیں اہم ترین بنا دیا۔ قرآن کریم میں نہی سب فراعنہ میں کسی کے لیے کہا گیا۔ ''پس ہم تیرا بدن محفوظ کر دیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے لوگوں کیلئے نشانی بن سکے۔ اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں سے لاعلم ہیں‘‘۔ (یونس: 92)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں