بنگلہ دیش میں حسینہ واجد‘ عوامی لیگ اور اس کے حامیوں کے خلاف ایک نئی لہر اٹھی ہے۔ ''شیطان کا شکار‘‘ یعنی Devil Hunt نامی اس مہم میں اب تک 1400 کے لگ بھگ افراد گرفتار کیے جا چکے اور یہ پکڑ دھکڑ ابھی جاری ہے۔ متعدد عمارتیں جلائی اور مسمار کی گئی ہیں اور عوامی لیگ کے رہنما پہلے عوام اور پھر حکومت کے غضب کا نشانہ بنے ہیں۔ عبوری حکومت کو چھ ماہ ہو چکے اور یہ نئی لہر بظاہر اس مؤقف کی تردید ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب گرد بیٹھنے لگے گی اور عوامی لیگ کے روپوش ارکان سامنے آئیں گے تو حسینہ مخالف لہر کا زورتحلیل جائے گا۔ تاحال یہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا‘ بلکہ عوامی لیگ اور حسینہ واجد کیلئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
نیا معاملہ پانچ فروری کو شروع ہوا جب حسینہ واجد نے‘ جو بھارت میں جلاوطنی کے دن بسر کر رہی ہیں‘ سوشل میڈیا پر ایک شعلے برساتی تقریر کی جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ محمد یونس کی عبوری حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہ پس منظر بھی ذہن میں رکھیے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد حسینہ واجد اور ان کے گھرانے کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اشتعال انگیزی سے باز رہنے کو کہا تھا۔ قبل ازیں حسینہ واجد اور ان کے بیٹے کی طرف سے سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال اور مخالفین بارے تبصرے کیے جاتے رہے تھے مگر پھر کچھ عرصہ اس گھرانے کی طرف سے سکوت رہا۔ یہ سکوت پانچ فروری کو اس وقت ٹوٹا جب حسینہ واجد نے اپنے حامیوں کیلئے ایک تقریر کی لیکن حامیوں سے پہلے اس تقریر کا ردعمل مخالفین کی طرف سے آیا۔ طلبہ تحریک‘ جس نے حسینہ حکومت کا تختہ الٹا تھا‘ اس خطاب پر برہم ہو گئی۔ بیشمار لوگوں نے 32 دھان منڈی ڈھاکہ کا رخ کیا جو شیخ مجیب الرحمن کا گھر اور حسینہ واجد فیملی کی رہائشگاہ رہی ہے۔ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں اس گھر کو میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ اگست 2024ء میں حکومت ختم ہو جانے کے بعد اس میوزیم میں کافی توڑ پھوڑ کی گئی لیکن عمارت کا ڈھانچہ اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پانچ فروری کے تازہ واقعے میں مشتعل ہجوم نے عمارت کو آگ لگا دی اور بلڈوزر سے پوری عمارت مسمار کر دی۔ یہاں تو معاملہ یکطرفہ رہا لیکن غازی پور میں مخالف دھڑوں کا ٹکراؤ ہوا۔
غازی پور ڈھاکہ کے نواح میں ایک بستی ہے۔ چھ اور سات فروری کی درمیانی شب ایک ہجوم غازی پور میں حسینہ واجد کی تصاویر اور یادگاریں گرانے کیلئے اکٹھا ہوا تو اس دوران مبینہ طور پر حسینہ واجد کے وزیر مزمل الحق کی رہائش گاہ سے ہجوم پر فائرنگ ہوئی اور 14 افراد زخمی ہو گئے۔ مزمل الحق حسینہ حکومت کے سینئر وزیر تھے اور آج کل مفرور ہیں۔ طلبہ تحریک کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ جو لوگ لوٹ مار کی روک تھام کیلئے وہاں پہنچے‘ ان پر فائرنگ کی گئی۔ اسی شام ایک نامعلوم حملہ آور نے ڈپٹی کمشنر دفتر کے باہر ایک طالبعلم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان واقعات سے لوگ مزید مشتعل ہوئے اور عبوری حکومت کو فوری اقدامات کرنا پڑے۔ غازی پور کا واقعہ ہی آپریشن 'ڈیول ہنٹ‘ کا پیش خیمہ بنا۔
ڈاکٹر یونس نے اس ہنگامے کا ذمہ دار حسینہ واجد کو قرار دیا اور کہا کہ سابق حکومت کی لاقانونیت اور فاشسٹ اقدامات اور نئی حکومت کا قانون کا احترام ہی نئے اور پرانے بنگلہ دیش میں بنیادی فرق ہے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ عوام اور طلبہ کے تحفظ کیلئے ایسے تمام عناصر کو تلاش کرکے گرفتار کیا جائے گا جو ملکی امن و امان کیلئے مسئلہ بنتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانگیر اسلم چودھری نے کہا کہ ایسے تمام لوگ جو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں‘ تلاش کیے جائیں گے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری شیطان نہیں پکڑاجاتا۔ وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نسیم الغنی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ شکست خوردہ فاشسٹ حکومت کی طرح ہم غیر انسانی اور بے رحم اقدامات نہیں کریں گے کیونکہ ہماری تحریک بنیادی طور پر انسانی حقوق ہی کی تحریک ہے۔
سابقہ حکمران جماعت اور اس کے حامیوں کے خلاف پولیس اور سکیورٹی فورسز کا جوائنٹ آپریشن پہلے سے جاری ہے۔ اب آپریشن ڈیول ہنٹ کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ملک گیر آپریشن زیادہ مربوط اور مرکزی کنٹرول کے تحت کیا جا رہا جس میں پولیس‘ فوج‘ بارڈر گارڈ اور کوسٹ گارڈ وغیرہ سب شامل ہیں۔ بنگلہ دیش کے سابق حکمرانوں کیلئے ایک نئی بری خبر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ ہے۔ اقوام متحدہ کی حسینہ واجد کے اقتدار پر چمٹے رہنے اور اس کوشش میں عوام کو بے رحمی سے کچلنے کے الزامات پر انسانی حقوق کی جو تحقیقاتی ٹیم ہے‘ اس نے کہا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کے دوران 1400 کے لگ بھگ لوگوں کو قتل کیا گیا‘ جن میں بیشتر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ مزاحمتی عوام کو بے رحمی اور سختی سے کچلنے کے حکم سینئر سکیورٹی افسران اور سیاستدانوں کی طرف سے دیے گئے۔ یو این انسانی حقوق کے چیف والکر ترک کے مطابق حسینہ واجد سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداران ان سنگین واقعات سے نہ صرف واقف بلکہ ان میں ملوث تھے۔ نظام کو استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہلاک شدگان میں 13فیصد کم عمر بچے تھے۔ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ماورائے عدالت ہلاکتوں‘ اغوا‘ گمشدگیوں‘ گرفتاریوں اور تشدد کے واقعات اعلیٰ سیاسی عہدیداروں اورسینئر سکیورٹی افسران کے علم میں تھے اور انہی کی ہدایت پر کیے گئے۔ یو این رپورٹ میں چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ حکومتی اعداد وشمار 834 کی نسبت یو این رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جا رہی۔ عوامی لیگ نے اس رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ اس کا دارومدار سکیورٹی اہلکاروں اور افسران کی ناقابلِ اعتبار گواہیوں پر ہے جو خود کو بچانے کیلئے کسی بھی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ بہرحال حسینہ واجد‘ جن پر 100 کے قریب سنگین مقدمات قائم ہیں‘ اور مفرور عوامی لیگی رہنمائوں کیلئے یہ بری خبر ہے۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ یو این رپورٹ صرف ان معاملات سے متعلق ہے جو گزشتہ برس جولائی‘ اگست کی طلبہ تحریک میں رونما ہوئے۔ اس سے پہلے کے معاملات رپورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش بہت سی انقلابی تبدیلیوں کی لہر پر ہے۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ بنگلہ دیش کے نصاب میں بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ شیخ مجیب‘ حسینہ واجد اور ان لوگوں کو‘ جنہیں حسینہ واجد دور میں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا‘ نصاب سے نکالا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے بہت سے ہیروز کو قصداً گمنامی میں دھکیل دیا گیا‘ اب انہیں سامنے لایا جا رہا ہے۔ اللہ اللہ! کبھی شیخ مجیب اور اس کی بیٹی کی کیا طاقت تھی‘ کیا زور تھا اور کیا دبدبہ تھا۔ پورے ملک میں کوئی آواز نہ ان کے خلاف اُٹھ سکتی تھی‘ نہ کوئی شخص ان کے سامنے کھڑا ہو سکتا تھا۔ یہی شیخ مجیب جو خود تو سیاسی کارکن تھا مگر 1975ء میں اقتدار کے زور پر اس نے بنگلہ دیش صرف ایک سیاسی پارٹی نظام کے تحت چلانے کا اعلان کر دیا۔ تمام مخالف جماعتیں ختم کرکے رکھ دی گئیں۔ یہی تو چہرہ تھا جو پورے ملک کے کونے کونے میں بلند قامت مجسموں‘ دیو قامت تصویروں اور یادگاروں میں ہر وقت سامنے رہا کرتا تھا۔ پھر جب وقت اور مہلت ختم ہوئی تو 32 دھان منڈی کی سیڑھیوں پر اس کی لاش پڑی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈھاکہ سے دور اس کے آبائی گاؤں تنگی پورہ میں تدفین اور غسلِ میت بھی صحیح طرح انجام نہیں دیا جا سکا تھا۔ ہر زمانے میں یہ مصرع اپنی سچائی واشگاف کر دیتا ہے۔
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں