"KNC" (space) message & send to 7575

غامدی صاحب کا تجزیہ اور ناقدین

سیاسی تجزیے کے دو اجزا ہیں۔ ایک موجود سیاسی منظرنامے کی تفہیم اور بیان‘ تاریخی پس منظر کے ساتھ۔ دوسرا اس کو بدلنے کا لائحہ عمل‘ اگر یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔
یہ کام سماج کے اہلِ دانش سر انجام دیتے ہیں۔ برصغیر کے درماندہ مسلم سماج کو جو سیاسی وتہذیبی مسائل درپیش تھے‘ بہت سے اہلِ دانش نے ان کا تجزیہ کیا اور اپنے فہم کے مطابق اس کا حل تجویز کیا۔ اس باب میں مَیں دو شخصیات کا ذکر کروں گا۔ ایک علامہ اقبال‘ دوسرے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ ان دونوں مفکرین نے ایک طرف وسیع تر تناظر میں امتِ مسلمہ کے بحران کا تجزیہ کیا اور دوسری طرف ہند میں آباد ملتِ اسلامیہ کے مسائل کو سمجھا اور ان کا حل پیش کیا۔ علامہ کے تمام علمی وفکری کام کا مرکز ومحور یہی ہے مگر بطورِ خاص 'پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘ اور خطبہ الہ آباد کا موضوع یہی مسائل ہیں۔ مولانا مودودی کا تحریری سرمایہ 'تحریکِ آزادیٔ ہند اور مسلمان‘ کے عنوان سے جمع کر دیا گیا ہے۔
تاریخ اور سماجی علوم کا گہرا شعور ایک دانشور کو سیاسی وقائع نگار سے ممتاز کرتا ہے‘ اور اگر وہ مذہب کا علم رکھتا ہے تو وہ واقعات کو سننِ الٰہی کی روشنی میں بھی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یوں اس کا تجزیہ متقاضی ہوتا ہے کہ اس کی تفہیم پر کچھ وقت صرف کیا جائے۔ یہ ممکن ہے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو اجنبی دکھائی دے۔ دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ مگر آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ضرور بنتا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ آ پ اس سے اتفاق کریں یا اختلاف۔ اقبال اور سید مودودی کا کام اسی نوعیت کا ہے اور آج بھی توجہ کا مستحق ہے۔
دورِ حاضرمیں یہ فر یضہ جاوید احمد صاحب غامدی نے سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے بھی ایک طرف بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ کے فکری‘ تہذیبی اور سیاسی بحران کا تجزیہ کیا اور اس کا حل پیش کیا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے پاکستان کے خاص پس منظر میں بھی یہی خدمت سر انجام دی ہے۔ جاوید صاحب کا یہ کام ان کے خطبات اور گفتگو کے ساتھ تحریری صورت میں بھی موجود ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک پاکستان کو ابتدا ہی سے دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک ریاست کی صورت گری میں فوج کا غیر آئینی کردار‘ جس سے نہ ختم ہونے والی سول ملٹری کشمکش نے جنم لیا اور پھر اس نے بے شمار انڈے بچے دیے۔ 'فوج کا بیانیہ‘ کے عنوان سے گفتگو کا ایک سلسلہ ہے جو یوٹیوب پہ موجود ہے‘ جو اس باب میں فوج کے کردار کا محاکمہ ہے۔ دوسرا مسئلہ قومی ریاست کو ایک مذہبی ریاست میں ڈھالنے کی مشق ہے۔ جاوید صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہ دونوں مسائل کیسے ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں۔ ان کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ہم اگر سوختہ ساماں ہیں تو یہ آگ ہماری اپنی لگائی ہوئی ہے۔
ان مسائل کی نشاندہی کے ساتھ جاوید صاحب نے 'جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے پاکستان کو درپیش ان مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ علم واخلاق میں برتری اور پیش قدمی ہی سے قومیں بحرانوں سے نکلتی ہیں۔ یہ سماجی تعمیر کا ایک صبر آزما کام ہے۔ سیاست اس کا راستہ نہیں ہے۔ انقلاب ایک گمراہ کن تصور ہے۔ پلک جھپکنے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اگر آتی ہے تو پائیدار نہیں ہوتی۔ طاقت کے موجود مراکز سے تصادم‘ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر طاقت کے مراکز پر کوئی ناجائز قبضہ کر لے جیسا کہ پاکستان میں ہوا‘ تو اسے نکالنے کے لیے تدبیر کی جاتی ہے۔ سیاسی عمل اسی تدبیر کو تلاش کرنے کا نام ہے۔ دارالحکومت پر چڑھائی جیسے اقدامات سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
پاکستان ایک ریاست ہے۔ یہ خلا میں معلق کوئی وجود نہیں۔ اس کی سلامتی ہمیں عزیز ہے اور اس کا انحصار اداروں کی مضبوطی پر ہے۔ ایسا ہی ایک ادارہ فوج بھی ہے۔ فوج کی قیادت اگر آئین سے انحراف کی مرتکب ہوئی ہے تو اس کا علاج یہ نہیں کہ فوج کو تقسیم یا کمزورکرنے کی کوشش کی جائے۔ عوام میں فوج کے خلاف نفرت کو پھیلایا جائے۔ اس کا علاج سیاسی قوتوں کو مضبوط بنانا اور عوام کی شعوری سطح کو بلند کرنا ہے۔ اس سے وہ مزاحمت وجود میں آئے گی جو ریاستی اداروں سے متصادم ہوئے بغیر‘ ایسا ماحول تشکیل دے گی جس میں اقدار مضبوط ہوں گی اور اس طرح کے انحرافات کا امکان ختم ہو جا ئے گا۔
میں اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ یورپ میں اسی طرح جمہوریت مضبوط ہوئی۔ مذ ہب وریاست کا باہمی رشتہ نئے خطوط پر استوار ہوا۔ سماج میں اس فکری ارتقا کا عمل آگے بڑھا جس سے خود احتسابی کی روایت وجودمیں آئی۔اس کی وجہ سے وہاں غلطیوں کی اصلاح کا خودکار نظام قائم ہو گیا۔ اگر سیکولرازم نے مطلوبہ نتائج نہیں دکھائے تو اسی معاشرے میں 'پوسٹ سیکولرازم‘ کا تصور بھی سامنے آیا جس نے مذہب کے کردار کا ازسرِ نو تعین کیا۔
جاوید احمد غامدی صاحب واحد دانشور ہیں جنہوں نے فکر ودانش کی سطح پر یہ خدمت سر انجام دی ہے۔ تاہم یہ انسانی کاوش ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس باب میں ان کی بات حرفِ آخر نہیں۔ ان کے بیانیے میں اگر کوئی کمزوری ہے تو اسے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ ایک نیا بیانیہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ تنقیدی کام لیکن استہزا‘ جذبات نگاری اور جاوید صاحب کی تحلیلِ نفسی سے نہیں ہو گا۔ اس سے سطحی ذہن اور جذبات کی تسکین کا سامان تو کیا جا سکتا ہے‘ سماجی تعمیر کی خدمت سر انجام نہیں دی جا سکتی۔ اس کے لیے دو کام کرنا پڑیں گے۔ ایک یہ کہ بنیادی تجزیہ اگر درست نہیں تو پھر صحیح تجزیہ سامنے لانا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اگر یہ لائحہ عمل درست نہیں جو جاوید صاحب تجویز کر رہے ہیں تو پھر درست حکمتِ عملی تجویز کرنا ہو گی۔
اہلِ دانش کا اصل وظیفہ یہ ہے کہ وہ سماج میں قومی مسائل پر سنجیدہ اور دانش مندانہ سرگرمی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سے سوچ کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں اور فکری سرگرمی کو مہمیز ملتی ہے۔ اس کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اسے عوامی سطح پر شہرت نہیں ملتی۔ مقبول بیانیوں کو رد کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں جان بھی جا سکتی ہے۔ جلاوطنی اور دیگر بہت سے صدمے بھی سہنا پڑتے ہیں۔ دشنام کا ہدف بھی بننا پڑتا ہے۔ سرسیّد کی طرح اپنوں کے تیر کھانا پڑتے ہیں۔ اس لیے یہ کام وہی کر سکتا ہے جو فرہاد کا جگر رکھتا ہو۔ یہ شعلے کی طرح بھڑک اٹھنے والوں کا نہیں‘ گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہنے والوں کا کام ہے۔
فطرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ارتقا کے اصول پر قائم ہے۔ کوئی پودا ایک ہفتے میں پھل دیتا ہے نہ انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی چلنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ جن مسائل کی مسلسل آبیاری کی گئی‘ وہ غیر فطری طریقوں سے حل نہیں ہوں گے۔ امتِ مسلمہ کی تاریخ یہی ہے کہ جب کچھ لوگوں نے ایک قائم نظام کو کسی سیاسی حکمتِ عملی کے بغیر اکھاڑ پھینکنا چاہا تو اس نے بڑے حادثات کو جنم دیا۔ اُس عہد کے علما نے اس مسئلے کو غور وفکر کا موضوع بنایا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی حل مثالی نہیں ہوتا۔ حل ممکن ہوتا ہے یا غیر ممکن۔ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ہماری حکمتِ عملی شر میں اضافہ کرے گی یا خیر میں۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھ کر قوم کے اہلِ دانش کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کو استہزا اور سطحی جذبات نگاری کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں