علامہ اقبال یا جون ایلیا؟ ہمارا قومی شاعر کون ہے؟
خود شکستگی کو اگر ہم نے شعار کیا ہے تو گویا زبانِ حال سے ہم نے مان لیا کہ جون ایلیا ہمارے قومی شاعر ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کی 'تعلیمات‘ اور 'افکارِ عالیہ‘ اس وقت ہمارے راہنما ہیں۔ ہم ان کے اس شعر کی عملی تفسیر ہیں:
میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اس تباہی کا ایک عنوان احتجاج کلچر ہے۔ ایک واقعہ بربادی لاتا ہے‘ پھر ہم اس میں احتجاج کا رنگ بھرتے اور اس بربادی میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں۔ واقعہ کُرم میں ہوتا ہے اور ہم کراچی میں رہنے والے ہم وطنوں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں‘ جو ہماری طرح مظلوم ہیں۔ جن کا اس جبر میں کوئی حصہ نہیں۔ ظالم جب ہماری گرفت میں نہیں آتا تو ہم خود کشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ غزہ میں اہلِ فلسطین مظلوم ہیں۔ ان پر ہونے والے ظلم پر کون پاکستانی بلکہ انسان ہے جو دل گرفتہ نہیں۔ اسرائیل پر جب ہمارا بس نہیں چلتا تو ہم اپنے ہی ہم وطنوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔
یہ عالمی حکمران ہوں یا مقامی اہلِ بست و کشاد‘ یہ ہماری پہنچ سے دور ہیں۔ یہ جب متحرک ہوتے ہیں تو ہماری حرکت روک دی جاتی ہے۔ ایک ایمبولینس ان کی جلو میں چلتی ہے کہ کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو انہیں طبی امداد ملنے میں تاخیر نہ ہو۔ دوسری طرف احتجاج کے نام پر نکلنے والے سرِ راہ زخمی پڑے رہتے ہیں۔ ان کی جان بچ سکتی ہے اگر ابتدائی طبی امداد مل جائے۔ انہیں امداد ملنا تو کجا‘ یہ ہسپتال بھی نہیں پہنچ پاتے اور سڑک پر جان دے دیتے ہیں۔ یہ برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پھر بھی سیاسی و مذہبی راہنما لوگوں کو سڑکوں پہ نکالتے ہیں۔ ظالم جس سزا کا مستحق ہے‘ مظلوم وہ سزا پاتے ہیں اور احتجاج 'کامیاب‘ ہو جاتا ہے۔
پھر افواہ سازی ہے جو احتجاج کو ایک فتنے میں بدل دیتی ہے۔ 'شہدا‘ کی تعداد کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کیا جاتا اور پورے سماج کو فساد میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ میں کل ہی ایک شیعہ راہنما کو جناح ہسپتال کے باہر گفتگو کرتے سن رہا تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ جس نوجوان کی 'شہادت‘ کی خبر اڑائی جا رہی ہے‘ وہ اس سے مل کر آ رہے ہیں اور وہ زندہ ہے۔ اس ہسپتال میں کوئی لاش نہیں ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ کتنے لوگوں نے ایک شہادت کی خبر سنی ہو گی اور کتنوں نے اس راہنما کی۔ اس خبر نے مگر ملک میں مذہبی فرقہ واریت کو جتنی ہوا دی ہے‘ میں اس کو سمجھ سکتا ہوں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔
احتجاج کے مروجہ اسلوب کے بارے میں ہمیں اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ احتجاج کرنے والے عام لوگ ہیں اور اس کا ہدف بھی عام آدمی۔ جب ہم راستے بند کرتے ہیں تو اس سے حکمران طبقہ نہیں‘ عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ 'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘ جیسے گمراہ کن نعرے کے حصار سے نکل کر ہمیں ایک پُرامن سماج کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ احتجاج کا یہ مروجہ طریقہ ان قوتوں کو متاثر کرنے میں قطعاً ناکام ثابت ہوا ہے جن کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ میں آج تک یہ نہیں جان سکا کہ اسلام آباد میں اگر غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف کوئی جلوس نکلتا ہے تو فلسطینیوں کو اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس احتجاج کا مخاطب کون ہے؟ اگر پاکستانی عوام ہیں تو وہ پہلے ہی یہی رائے رکھتے ہیں۔ اگر حکومت ہے تو اس کے جذبات بھی عوام سے مختلف نہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہے؟
احتجاج کے حق میں ایک جملہ دہرا دیا جاتا ہے کہ بچہ روئے نہ ماں بھی دودھ نہیں پلاتی۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں بڑا ہو جانا چاہیے۔ ہم تمام عمر دودھ پیتے بچے نہیں بن سکتے۔ احتجاج کو زندگی گزارنے کا مستقل طریقہ نہیں بنایا جا سکتا۔ مسلسل رونے والا بچہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ مجھے ریاست کے بڑھتے ہوئے کردار کا اعتراف ہے مگر اس کے باوجود بہت سے مسائل احتجاج کے بغیر بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔ کُرم میں جرگہ سر گرم ہے۔ جرگہ اس وقت بھی مسائل کے حل کا ایک فورم تھا جب ہماری ریاست موجود نہیں تھی۔ کون ہے جو آج اس جرگے کی بات نہیں مان رہا؟ کون ہے جو اسلحہ جمع کرانے سے گریزاں ہے اور کیوں؟ اس معاشرے میں تاریخی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے مسائل حل کر سکتا ہے۔ اب یہ مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے؟ کون ہیں جو اسے ملک گیر فرقہ وارنہ جھگڑے میں بدلنا چاہتا ہے؟
ہمیں ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔ مذاکرات کا ایک عمل جاری ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی ادارے اور جرگہ بھی مصروف ہے۔ گویا اصلاح کے لیے قوتیں متحرک ہو چکیں۔ انتظار کیا جانا چاہیے کہ ان کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ اس سے پہلے ملک بھر میں ہم وطنوں کو مشکلات میں مبتلا کرنا‘ ملک اور عوام سے ہمدردی نہیں ہے۔ پھر اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایک مقامی جھگڑے کو قومی سطح پر فرقہ واریت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب دوسرے فرقے نے بھی دھرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر سب نے اس احتجاجی اسلوب کو اپنانا ہے تو اس ملک کا کیا ہو گا؟
اگر ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں تو یہ ناگزیر ہے کہ ہم احتجاج کے ہر اس طریقے سے توبہ کریں جو عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بناتا ہو۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ ریاست ہمارے مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں۔ اس کے باوصف ہمیں ریاست تک اپنی بات پہنچانے کے وہ طریقے اختیار کرنے چاہئیں جن سے عام آدمی متاثر نہ ہو۔ اس کی آنچ صرف اقتدار کے ایوانوں کو محسوس ہو۔ یہ سیاست ہو یا مذہب‘ ہمیں احتجاج کا ایسا ہر طریقہ ترک کرنا ہوگا جو سماج میں فساد برپا کرے۔
اس باب میں لازم ہے کہ قانون سازی کی جائے اور احتجاج کا ہر وہ اسلوب ممنوع قرار دیا جائے جس سے عامۃ الناس کو کوئی نقصان پہنچتا ہو۔ اس کے ساتھ عوام کی تربیت کی جائے کہ وہ احتجاج کی نفسیات سے نکلیں۔ اگر احتجاج ناگزیر ہو تو پھر ایسا طریقہ اختیار کریں جس کا ہدف عوام نہ ہوں۔ اس کے ساتھ اب سماج کی اپنی قوت کو اُبھارا جائے جو اجتماعی مسائل حل کر سکتی ہے۔ اگر کُرم کے فسادات کو ریاست حل نہیں کر رہی تو سماج کی قوت کو بروئے کار لایا جائے۔ یہی سماجی قوت دیگر علاقوں میں بھی کام میں لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان جیسے سماج کی ترقی کے لیے تو ناگزیر ہے کہ اگلے دس برس تک اس نوعیت کے احتجاج پر پابندی لگا دی جائے۔ بالخصوص ان عناصر پر جو اس کے نتیجے میں مذہبی یا سیاسی فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے لوگوں کا کام اشتعال انگیزی سے چلتا ہے۔ یہ مذہب میں ہیں اور سیاست میں بھی۔ ضروری ہے کہ عوام ان سے خبردار رہیں۔ یہی ہیں جو عوام کو احتجاجی مہم کا ایندھن بناتے اور اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کرتے ہیں۔ عوام کا بھلا اس میں ہے کہ ملک میں سکون ہو۔ اگر کوئی اختلاف ہو تو اسے مکالمے اور دوسرے پُرامن طریقوں سے حل کیا جائے۔
ہم نے جون ایلیا کو نہیں‘ اقبال کو اپنا قومی شاعر مانا ہے۔ ان کی تعلیم امن اور وحدت کی ہے۔ ان کا پیغام ہے:
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ