چند دن پہلے کی بات ہے۔ اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں لیے‘ ہمارے بہت سے جوان سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے۔ یہ موت انہوں نے لاکھوں روپے دے کر خریدی۔ ان کے سامنے مثالیں موجود تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ خطرہ مول لیا۔ اس کی و جہ کیا تھی؟ غربت؟ بے روزگاری؟
میرا جواب نفی میں ہے۔ ہمارا مسئلہ غربت نہیں‘ جہالت ہے۔ بیروزگاری نہیں‘ ہڈ حرامی اور بددیانتی ہے۔ میں یہ بات تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں اور بہت سے لوگوں سے اس کے حق میں گواہی لے چکا ہوں۔ اس سے حکومت کی نااہلی کا مقدمہ کمزور نہیں ہوتا۔ ریاست کی بے نیازی بھی اپنی جگہ ہے‘ جو قابلِ مذمت ہے مگر سب کچھ حکومت نہیں ہوتی۔ ہم سماج کو ریاست سے الگ کر کے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ سماج کے وجود کے بارے میں باخبر بھی نہیں ہیں۔ ہم فرد کو جانتے ہیں یا ریاست کو۔ اس لیے ان باتوں پر کم ہی غور کرتے ہیں۔
یونان جانے کے لیے ان نوجوانوں نے کم از کم پندرہ لاکھ روپے دیے۔ پندرہ لاکھ سے‘ کوئی چاہے تو پاکستان میں ایک معقول روزگار کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ محنت سے اس میں کئی گنا اضافہ کر سکتا ہے۔ ہمارا نوجوان مگر اس جانب بہت کم سوچتا ہے۔ اس کے سامنے روزگار ی کے حوالے سے صرف دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمت اور دوسرا باہر جانا۔ نجی شعبے کی ترقی کیسے ہو رہی ہے‘ اس میں اس کے لیے کتنے امکانات چھپے ہیں‘ وہ اس پر غور کرنے پر آمادہ نہیں۔ سرکاری ملازمتیں‘ حکومت چاہے بھی تو آبادی کی نسبت سے‘ سب کو نہیں دے سکتی۔ عوامی دباؤ میں جب بعض حکومتوں نے سرکاری اداروں میں لوگ ٹھونسنا شروع کیے تو وہ ان کے بوجھ تلے دب کر برباد ہو گئے۔
اس کی کئی مثالیں ہیں۔ کراچی سٹیل مل‘ پی آئی اے‘ ریڈیو پاکستان‘ پاکستان ٹیلی ویژن۔ میں کئی برس پی ٹی وی سے وابستہ رہا۔ ابتدا میں‘ جب پہلی بار رمضان آیا تو جمعہ کی نماز میں مَیں نے دیکھا کہ اسلام آباد سنٹر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ مسجد‘ پارکنگ‘ عمارت کے اندر سب لابیز بھر گئیں۔ میں نے یہاں کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا تھا۔ حیرت سے پوچھا: یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں۔ معلوم ہوا پی ٹی وی کے ملازمین ہیں۔ یہ صرف دو دفاتر‘ اسلام آباد مرکز اور ہیڈ آفس کے ملازمین تھے۔ میں نجی ٹی وی چینلز سے بھی وابستہ رہا۔ میں مشاہدے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ جو وسائل پی ٹی وی کے پاس ہیں‘ یہ چینلز اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جو کام یہ ادارے ایک فرد سے لیتے ہیں‘ پی ٹی وی میں اس کے لیے دس افراد مختص ہوں گے۔
دنیا بھر میں روزگار کا معاملہ یہی ہے۔ یہ نجی شعبہ ہے جو زیادہ تر ملازمتوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ حکومت ان کے لیے سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی اب یہی ہو رہا ہے۔ صحت اور تعلیم کا بڑا حصہ بھی نجی شعبے کے پاس ہے۔ جن نوجوانوں نے بروقت اس کا ادراک کیا‘ انہیں اچھی ملازمتیں مل گئیں اور وہ معقول تنخواہیں لے رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ہزاروں نوجوان‘ یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی وابستہ ہو گئے۔ وہ معاشی اعتبار سے بہتر ہیں۔
ہمارے نوجوان اگر سرکاری ملازمتوں کے حصار سے باہر نکل کر سوچیں تو یہاں مواقع موجود ہیں۔ جہاں پچیس کروڑ افراد بستے ہوں‘ وہاں ان کی فطری ضروریات روزگار کے بے شمار مواقع پیدا کر دیتی ہیں۔ یہاں لوگوں کو سرکاری ملازمت نہیں ملتی تو پھر وہ باہر جانے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ باہر جانے میں روزگار کے ساتھ‘ کچھ دوسرے خواب (Fantasies) بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ گوریاں جسم وجاں کے ساتھ فدا ہونے کے لیے ان کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان خوابوں کا انجام وہی ہوتا ہے جس کا ہم نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
میں اس لیے غربت کا انتساب جہالت کی طرف کرتا ہوں۔ اگر ہمارے لوگ پندرہ لاکھ روپوں کے ساتھ چاہیں تو چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ دو چار مل کر بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر ہنر سکھانے کے بے شمار ادارے ہیں۔ نوجوان ان سے بھی واقف نہیں۔ اگر وہ سرکاری ملازمت اور باہر جانے کے خواب سے باہر آئیں اور محنت کے لیے آمادہ ہوں تو اپنے لیے مواقع تلاش کر سکتے ہیں۔ اب انٹرنیٹ کی وجہ سے ساری دنیا ان کا مخاطب بن سکتی ہے۔ میں ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو دن کو پڑھتے ہیں اور رات کو آن لائن اچھے خاصے پیسے کماتے ہیں۔
جہالت کے ساتھ دوسری بڑی وجہ ہڈ حرامی ہے۔ یہاں لوگ کام نہیں کرنا چاہتے۔ میں کم وبیش تین سال سے ایک مکان بنانے کی کوشش میں ہوں۔ تعمیرات سے سینکڑوں کاروبار وابستہ ہیں۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ کام موجود ہے‘ لوگ سنجید گی سے کام پر آمادہ نہیں ہیں۔ مجھے ایک سیڑھی بنوانا تھی۔ یہ کام ایک معاوضے کے ساتھ طے ہوا۔ اب کاریگر اگر چاہتا تو ایک ماہ میں اسے ختم کر سکتا تھا۔ اس نے اس پر آٹھ ماہ لگائے۔ اس دوران میں جس طرح بار بار جھوٹ بولا‘ بہانے تراشے‘ وہ ایک المناک داستان ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ میرا جن لوگوں سے واسطہ پڑا‘ نوے فیصد کا معاملہ یہی رہا۔ میں نے جس مجلس میں اس تجربے کا ذکر کیا‘ کم وبیش سب شرکا نے اس کی تائید کی جو اس مکان سازی کے عمل سے گزرے۔ مجھ میں تو گالی دینے کی صلاحیت نہیں‘ لوگوں نے بتایا کہ کس طرح بات گالم گلوچ تک جا پہنچی۔
سادہ سی بات ہے کہ سیڑھی بنانے والا اگر اپنا کام ایک ماہ میں مکمل کر لیتا تو اسے نیا کام مل جاتا۔ یوں اس کے لیے کمانے کے امکانات بڑھ جاتے۔ اس کے ساتھ میں بھی اس اذیت سے نہ گزرتا۔ یہی نہیں‘ مزدوروں کا معاملہ یہ ہے عید اور تہواروں کے نام پر پندرہ پندرہ دن چھٹی کریں گے۔ اکثر مزدور دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنا نقصان کرتے ہیں مگر انہیں اس کا کوئی احساس نہیں۔ محنت اور دیانت داری دونوں کی بے پناہ کمی ہے۔ ہمارے لوگ جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں بیگار کاٹتے اورخوف کے احساس میں جیتے ہیں‘ اگر اس سے آدھی محنت یہاں کریں تو مجھے یقین ہے کہ وہ خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں سوچ کی تبدیلی ضروری ہے۔ انہیں یہاں مواقع تلاش کرنے چاہئیں۔ چند نوجوان مل کر تخلیقی ذہن کے ساتھ قابلِ عمل کاروباری منصوبے بنا سکتے ہیں۔ امن اور سیاسی استحکام سے ان مواقع میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہر ایسے مذہبی وسیاسی فلسفے اور تحریک سے دور رہنا ہو گا جو فساد‘ بدامنی اور انتشار کا پیغام دے۔ ہم تنقید اور خیالات کے اظہار کے لیے ایسے اسالیب تلاش کر یں جن سے سماجی وسیاسی بدامنی پیدا نہ ہو۔ ہم پُرامن رہ کر بھی اپنی مذہبی اور سیاسی وابستگی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
زندگی میں حکومت اور ریاست ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ ہمیں ان دائروں سے نکل کر سوچنا ہوگا۔ سماج ایک بڑا دائرہ ہے جو فطری ہے۔ پھر اس دنیا کا ایک پروردگار ہے‘ جس نے زندگی پیدا کی ہے تو اس کو قائم رکھنے کے اسباب بھی پیدا کیے ہیں۔ ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے ہیں۔ اگر ہم جہالت سے نکلیں اور اردگرد کا علم حاصل کریں تو ہمیں امکانات دکھائی دیں گے۔ اگر ہم محنت اور دیانت کی اقدار کو اپنائیں تو روزگار بھی مل سکتا ہے۔ اس سوچ سے وہ نوجوان بچ سکتے تھے جو سمندر کی بے رحم موجوں کا رزق ہو گئے اور اپنے گھروں میں ہمیشہ کے لیے اداسی چھوڑ گئے۔ سوچیں کہ ہمارا مسئلہ غربت نہیں کچھ اور ہے۔