عمران خان صاحب سے محبت رکھنے والے‘ میرے تنقیدی کالموں پر تبصرہ کرتے ہیں تو میں اس نفسیاتی کیفیت پر غور کرتا ہوں جو انہیں ایسے ردِ عمل پر آمادہ کرتی ہے۔
مجھے اندازہ ہے کہ یہی کام‘ یہ تبصرہ نگار میرے بارے میں بھی کرتے ہیں۔ وہ اُن محرکات کا سراغ لگاتے ہیں جو ان کے خیال میں میری اس تنقیدکا سبب ہو سکتے ہیں۔ ان کا اجماع ہے کہ یہ محرکات مثبت اور اخلاقی ہر گز نہیں ہیں‘ یہ تمام تر دنیاوی اور مادی مفادات کی کارستانی ہے جو مجھ سے یہ تنقید لکھواتی ہے۔ میرے بارے میں کچھ ایسا ہی خیال اُن مذہبی طبقات کا بھی ہے جن کے دینی فہم پر میں تنقید کرتا ہوں۔ وہ ان اسباب کی کھوج میں رہتے ہیں جو مجھے اس تنقید پر آمادہ کرتے ہیں۔ میرے علم کی حد تک وہ بھی اس کا کوئی مثبت محرک تلاش نہیں کر سکے۔
مجھے اس تنقید پر غصہ کم آتا ہے۔ ان ناقدین کی مجھ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ مفادات کا تصادم بھی نہیں۔ اکثر نے مجھے دیکھا نہ کبھی مجھ سے ملے۔ ان کی تنقید میں اس کے باوصف اتنی شدت کیوں ہے؟ میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا سبب ان کا اپنے مؤقف کی صحت پر غیرمعمولی اعتماد ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایک ایسی حقیقت کے انکار کا مرتکب ہو رہا ہوں جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ میں ایک ایسے راہنما پر تنقید کر رہا ہوں جو قدرت کا انتخاب ہے۔ جس کے افکار سنجیدہ اور کردار پاکیزہ ہے۔ جو ہمعصروں میں نہ صرف ممتاز تر ہے بلکہ انسانی تاریخ میں بھی اس کا مثیل تلاش کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ وہ اسے ایک ثابت شدہ مقدمہ سمجھتے ہیں۔ اب اگر کوئی ایسے مقدمے کو نہیں مانتا تو اس کا سبب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے مفادات اس صداقت کی قبولیت میں حائل ہیں۔
میں اس نفسیاتی کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں کیونکہ میں اس سے گزر چکا ہوں۔ شخصی حوالے سے تو نہیں مگر نظری اعتبار سے مجھ پر ایک دور ایسا گزرا ہے جب میں ایک دینی تعبیر کے سحر میں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں جس تعبیر کو درست سمجھتا ہوں‘ اس کی مخالفت کے لیے کوئی اخلاقی جواز اور عقلی دلیل موجود نہیں۔ جو اختلاف کرتا ہے وہ یقینا کسی مفاد کے زیرِ اثر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس تعبیر کی نمائندہ شخصیات سے بھی ایسی محبت پیدا ہو گئی کہ ان کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھی۔ پھر خدا نے کرم کیا اور میں اس فکری حصار سے نکلا۔ میں نے یہ جانا کہ انسان کے فکر میں خلا اور کردار میں کمزوری ہو سکتی ہے۔ معصومیت کی چادر انبیاء ہی کو زیبا ہے جن کی عصمت کی حفاظت عالم کا پروردگار کرتا ہے۔
سوچنے والا آدمی اگر ایک نظری سحر سے نکلتا ہے تو امکان ہوتا ہے کہ کسی دوسرے سحر میں گرفتار ہو جائے۔ تعصب کا ایک چولا اتارے اور دوسرا پہن لے۔ کیا معلوم‘ میں نے بھی محض چولا بدلا ہو؟ ایک کی فکری معصومیت کا انکار کر کے کسی دوسرے کی فکری معصومیت کا قائل ہو گیا ہوں؟ اپنے بارے میں ایسے سوالات حق کے متلاشی کے سامنے رہنے چاہئیں۔ آدمی اپنے بارے میں شاید درست فیصلہ نہ کر سکے۔ دوسرے بہتر رائے دے سکتے ہیں‘ اگر وہ خود کسی عصبیت میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ اتنا مشکل کہ ہر کسی کے بس میں نہیں۔ انسانوں کی اکثریت نسل در نسل ایک عصبیت میں گزار دیتی ہے اور اپنی وابستگیوں کے بارے میں کبھی نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔
میں چونکہ اس نفسیاتی کیفیت کو سمجھتا ہوں اس لیے مجھے تحریک انصاف کی تنقید پر غصہ نہیں آتا‘ تاہم میں یہ خواہش کر سکتا ہوں کہ سیاست‘ مذہب کی طرح عقیدہ نہ بنے۔ سیاست کو انسانی فراست اور مفادات ہی کی کارستانی سمجھا جائے۔ اقتدار کے کھیل میں شریک سب کو انسان جانتے ہوئے ان کی حمایت اور مخالفت کی جائے۔ اپنے راہنما کے ہر اقدام کا جواز تلاش کرنے کے بجائے اسے عقل اور اخلاق کے پیمانے پر پرکھا جائے۔ اگر ایسا ہو تو تحریک انصاف کے وابستگان سے مکالمے کا امکان باقی رہے گا۔ مکالمے کا دروازہ کھلا ہے تو ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھائی جا سکتی ہے۔
محبّانِ خان کے اس رویے کا جب میں نفسیاتی تجزیہ کرتا ہوں تو اس کے چند اسباب سمجھ میں آتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سیاست کو اس کے فطری مفہوم میں نہیں لے رہے۔ وہ اسے حق و باطل کا معرکہ سمجھ رہے ہیں۔ اس سے سیاست ایک مذہبی عقیدے کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اسی کو میں کلٹ کی نفسیات کہتا ہوں۔ رومانویت اسی کی توسیع ہے۔ اس سے سیاسی کرداروں کے ساتھ ایک رومانوی تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو اُن کے بارے میں حقائق کو قبول نہیں کرنے دیتا۔ یہی رویہ مذہب میں سامنے آتا ہے تو بدترین فرقہ واریت کو جنم دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاست میں اس رویے کو اپنایا جائے گا تو پھر سیاسی خیالات میں ایسی شدت کیوں پیدا نہیں ہو گی؟
دوسرا سبب یہ ہے کہ خبر کے لیے ان کا تمام تر انحصار مخصوص ذرائعِ ابلاغ پر ہے جو تمام غیرمصدقہ ہیں۔ اس کی تصدیق چنداں مشکل نہیں۔ اگر وہ ان ذرائع کی دی گئی صرف ان خبروں پر بارِ دگر نظر ڈالیں جو پچھلے تین چار ماہ میں دی گئیں اور پھر یہ دیکھیں کہ واقعات اس طرح رونما ہوئے یا نہیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ان خبروں میں کتنی صداقت تھی۔ جو پیش گوئیاں ان لوگوں نے کیں‘ وہ کس حد تک پوری ہوئیں؟ پھر اُن مخبر خواتین و حضرات کا صحافت کی دنیا میں کیا مقام ہے؟ صرف ایک خبر دیکھیے۔ یہ ذرائع بتاتے رہے کہ مقتدرہ عمران خان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہے مگر وہ مان کر نہیں دے رہے۔ دوسری طرف خان صاحب نے بارہا کہا کہ وہ صرف مقتدرہ سے بات کرنا چاہتے ہیں مگر وہ آمادہ نہیں۔ اب یہ لوگ عمران خان کی بات نہیں سنتے اور ان ذرائعِ ابلاغ کی بات مانتے ہیں کیونکہ یہ ان کے رومانوی تصورات سے قریب تر ہے۔ انہیں اپنا لیڈر اخلاق اور بہادری کی چوٹی پر کھڑا دکھائی دیتا ہے جس کو چھونا کسی کے بس میں نہیں۔
تیسرا بڑا سبب سوشل میڈیا ہے۔ اس کا مزاج کاروباری ہے۔ خان صاحب ایک مقبول سیاسی راہنما ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے کم و بیش تمام مداح سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ اس سے ایک بڑی مارکیٹ وجود میں آئی ہے۔ اس کو گاہک بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایسے تبصرے کیے جائیں اور ایسی خبریں دی جائیں جو اس حلقے کے دل کی آواز ہوں۔ اس سے ایک مصنوعی معلوماتی حصار وجود میں آتا ہے جو حقیقت سے دور ہے۔ پھر یہ لوگ بیک وقت دو متضاد باتوں کو اختیار کر لیتے اور کسی فکری اُلجھاؤ کا شکار بھی نہیں ہوتے جو تضادات کو قبول کرنے کی صورت میں پیدا ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف اگر ان اسباب کا تدارک کر سکے تو وہ یہ جان پائے گی کہ سیاست میں تصادم اور نفرت سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جو فوج سے لڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں‘ وہ ان کے خیر خواہ نہیں۔ پھر وہ سیاسی حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکے گی۔ سب سے بڑی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ معصومیت کا دروازہ بند ہو چکا۔ عمران خان اور تحریک انصاف اسی سماج کی تخلیق ہیں اور ناقدین بھی۔ پھر شاید انہیں میری تنقید بھی سمجھ میں آ سکے۔ اب تو میں یہی عرض کر سکتا ہوں:
عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں