"KNC" (space) message & send to 7575

اعتدال ناگزیر ہے

مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ محاذ آرائی میں اعتدال کو برقرار نہیں رکھا جا سکا جو مناسب نہیں تھا۔
سیاست میں کم لوگ ہیں جو اس بات کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ اپنی کسی کمزوری کا اعتراف کریں۔ اس کے لیے ذات کے گرد قائم اَنا کے حصار کو توڑنا پڑتا ہے جو ایک مشکل کام ہے۔ مولانا اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے‘ جو اُن کی بہادری کی دلیل ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف نے سیاسی محاذ آرائی میں توازن قائم نہیں رکھا۔ یہ دوطرفہ عمل تھا جس سے باہمی تعلقات میں تلخی در آئی۔ اس تلخی سے سیاسی فضا مکدر ہوئی۔ مولانا کا یہ جرأت مندانہ بیان‘ امید کی جانی چاہیے کہ سیاسی عمل کو متوازن بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ کیا اس طرح کا کوئی اعتراف دوسرے فریق کی طرف سے ہو گا؟ مجھے افسوس ہے کہ میں اس بارے میں کسی پُرامیدی کا اظہار نہیں کر سکتا۔
اہلِ سیاست کے باہمی تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے۔ تلخی کا در آنا بھی کوئی عجوبہ نہیں۔ بالغ نظر سیاست دان مگر اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ یہ تلخی ایک حد سے بڑھنے نہ پائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس بات کا امکان رہتا ہے کہ اس کا دائرہ قیادت سے کارکنوں تک پھیل جائے اور سیاست میں تشدد پیدا ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ سیاست میں آج کا مخالف کل کا دوست ہو سکتا ہے اور سنجیدہ اہلِ سیاست اس امکان کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاست میں کوئی تعلق مستقل نہیں ہوتا۔ اس لیے فاصلہ اتنا بڑھانا نہیں چاہیے کہ کل جب قریب آنا پڑے تو دشواری ہو۔ دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے عقلِ عیار سو دلائل تلاش لے گی مگر آدمی اپنا سامنا نہیں کر سکتا۔ مولانا فضل الرحمن عام طور پر معتدل گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا شمار شائستہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے‘ تاہم متوازن رہنے کا بڑا انحصار فریقِ ثانی پر بھی ہوتا ہے۔ سیاستدان بھی انسان ہوتا ہے۔ مولانا مودودی اور نوابزادہ نصراللہ خان کی سطح کے لوگ کم ہوتے ہیں جو ہر حال میں اپنے وقار اور اخلاق برقرار رکھتے ہیں۔ بڑے لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ کبھی اخلاقی تقاضوں کا لحاظ نہ رکھا جا سکے تو اس پر اظہارِ تاسف اور رجوع کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا اعتراف ان کی بڑائی کا اظہار ہے۔
مولانا کے بارے میں اگر حسنِ ظن کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس اظہارِ تاسف کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ان کے ہاں اعتدال کے مزید مظاہر بھی دیکھیں گے۔ اگر ان کا سامنا کسی نئے سیاسی مخالف سے ہو گا تو اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے تاکہ انہیں دوبارہ اس صورتحال سے گزرنا نہ پڑے۔ اس سے دوسرے سیاستدان مثال لے سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہماری سیاست کے لیے نیک شگون ہو گا۔
تحریک انصاف آج کی سیاست میں ایک اہم فریق ہے۔ عمران خان صاحب کی عوامی مقبولیت کے بارے میں دوسری رائے نہیں۔ اس لیے سیاست میں اعتدال کے لیے خان صاحب کا معتدل ہونا بہت ضروری ہے۔ کیا وہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں جواباً انہی جذبات کا اظہار کر پائیں گے؟ یہ سوال بڑ ا اہم ہے۔ اس باب میں مَیں اپنی رائے کا اظہار کر چکا۔ اگر یہ درست ثابت ہوتی ہے تو پھر مولانا کی اعتدال پسندی سیاست کو زیادہ متاثر نہیں کر پائے گی۔ آج خان صاحب اپنے ہی بیانیے کی گرفت میں ہیں۔ اگر وہ مولانا کے لیے درِ دل وا کرتے ہیں تو انہوں نے سیاست میں حق و باطل کی جو لکیر کھینچی ہے‘ وہ بے معنی ہو جائے گی۔ اگر نہیں کرتے تو انہیں حلیف نہیں ملیں گے۔ سیاست میں دوستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ میں مدت سے یہ لکھ رہا ہوں کہ عمران خان کے فطری حلیف اہلِ سیاست ہی ہو سکتے ہیں۔ ان کا معاملہ مگر یہ ہے کہ وہ آج بھی انہی کو حلیف بنانا چاہتے ہیں جن سے لڑ رہے ہیں۔ یہ ایسا مخمصہ ہے جس نے ان کی سیاست کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ کیسی اصول پسندی ہے کہ 'بڑی برائی‘ سے تو اتحاد ہو سکتا ہے مگر 'چھوٹی برائی‘ سے نہیں۔
اہلِ سیاست کا مقدمہ اس وقت تک کمزور رہے گا جب تک وہ غیر سیاسی قوتوں پر انحصار کرتے رہیں گے۔ آج سب یہی کر رہے ہیں۔ کوئی خورسند ہے کہ اس کا شمار ان قوتوں کے حواریوں میں ہوتا۔ کوئی خطوط لکھ لکھ کر اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ دونوں کی کاوش کا نتیجہ ایک ہے: اہلِ سیاست کی کمزوری۔ غیرسیاسی قوتوں سے بے نیاز ہو کر سیاست کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ تصادم مول لیا جائے۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی تاریخ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب انہوں نے ریاستی اداروں کی تائید اور ان سے متصادم ہوئے بغیر سیاست کی ہے۔ ان جماعتوں کی تاریخ کا سنہری دور یہی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے شاید قابلِ بیان نہیں۔
اس وقت ملک میں عوامی سطح پر فاصلوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی قیادت اعتدال کا مظاہرہ کرے تاکہ سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی معتدل رہیں۔ سب اپنے اپنے سیاسی خیالات اور مؤقف پر قائم رہیں مگر خود کو دوسروں سے مختلف ثابت کرنے کی اداکاری نہ کریں۔ اگر سیاست میں اعتدال آیا تو ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات میں بھی اعتدال آئے گا۔ یہ اعتدال سماج کو معتدل بنائے گا اور اسے انتہا پسندی سے دور رکھے گا۔ آج ہمیں اس کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی انتہا پسندی‘ مذہبی انتہا پسندی سے کم خطرناک نہیں۔ دونوں کے نتائج یکساں ہیں۔
کچھ عرصے سے یہ چلن عام ہوا ہے کہ عوامی مقبولیت کے حصول کے لیے دوسروں کے خلاف بلند آہنگ ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اب تو مذہبی جماعتوں کے راہنما بھی اسی لغت اور لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اعتدال کی طرف رجوع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لب و لہجہ ہمیشہ کامیابی کی ضمانت نہیں۔ سیاست کو جلد یا بدیر بالآخر اعتدال ہی کی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔ اہلِ سیاست جتنا جلدی اس کا ادراک کر لیں گے ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آ سکی کہ میڈیا میں مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کرنے والے بھی سیاست میں اسی انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔
عمران خان صاحب سمیت سب کا بھلا اسی میں ہے کہ سیاست اپنے فطری بہاؤ کی طرف لوٹے۔ سونامی اٹھانا سیاست کا مزاج نہیں۔ معاشرہ ہر حوالے سے اگر انتہا پسندانہ رجحانات کا شکار ہو جائے گا تو پھر وہی ہو گا جو یہاں ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں قتل کے واقعات جس تعداد میں ہوتے ہیں اگر اس کے اعداد و شمار سامنے آئیں تو ہمیں اندازہ ہو کہ اعتدال سے محرومی نے انسانی جان کو کھیل تماشا بنا دیا ہے۔ اس کیفیت سے عوام کو نکالنا ہماری ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے طرزِ عمل میں مجھے امید کی کرن دکھائی دی۔ انہوں نے اس سے پہلے اپنے ہم مسلکوں کو مذہبی انتہا پسندی سے بچانے کی مستحسن کوشش کی۔ اگر وہ سیاست میں بھی اس کی اہمیت کو نمایاں کر رہے ہیں تو دیگر اہلِ سیاست کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔ اعتدال ہی میں درست فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ اہلِ سیاست کو ہیجان سے نکلنا ہو گا تاکہ قوم بھی اس سے نکلے۔ ہمیں ریاست ہی نہیں‘ سماج کو بھی بچانا ہے۔ دونوں صرف اعتدال سے بچ سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں