"KNC" (space) message & send to 7575

ملتان میں دو دن

ہماری جامعات سے‘ کیا سماجی تبدیلی کی کوئی تحریک اُٹھ سکتی ہے؟
گزشتہ ہفتے‘ دو دن ملتان میں گزرے۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے ادارۂ تصوف وعرفان نے بین المذاہب ہم آہنگی میں تصوف کے کردار پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب اس کے منتظمِ اعلیٰ تھے۔ ان کی محبت مجھ جیسے گوشہ نشین اور سفر گریز کو بھی وہاں لے گئی۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ‘ دنیا بھر سے آئے ہوئے اہلِ علم کا یہ ایک شاندار اجتماع تھا۔ ترکیہ کے شہر بُرسا کی ایک یونیورسٹی سے ڈاکٹر بلندت شنائے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ترکیہ تصوف کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہ کس طرح کا مرکز ہے‘ اس کی ایک دلچسپ داستان راشد شاذ صاحب نے 'لستم پوخ‘ کے عنوان سے اپنے سفر نامے میں بیان کی ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
اس کانفرنس کا بیج جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد زبیر اقبال کے بزمِ خیال میں پھوٹا جو ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب اور ان کی ٹیم کی مساعی سے ایک تناور درخت بن گیا۔ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘ پیغام پاکستان اور قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی نے بھی اس کو پانی دیا۔ مجھے دو دن اس کی چھاؤں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ نئی نسل کو‘ جو اپنے دنیاوی مستقبل کے بارے میں زیادہ حساس ہوتی ہے‘ اسے اخلاقی پہلو کی طرف بھی متوجہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ سوال بھی غور وفکر کا مرکز بنے کہ تصوف کی روایت سے‘ ہم کس طرح مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں۔ میرے سامنے ایک سوال یہ بھی تھا جامعات کیا سماجی تبدیلی میں کوئی بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں؟
جامعات دنیا بھر میں علم کی تخلیق کے مراکز ہیں۔ ان کا اصل وظیفہ علم کی خدمت ہے۔ علم کی ایک صورت اطلاقی ہے۔ جامعات میں اس حوالے سے بھی تحقیق ہوتی ہے۔ اپنے جوہر میں لیکن یہ تمام کام 'علم ‘ ہے۔ ایک سماج کے عمومی ارتقا میں اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ اس میں علم تخلیق ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر جامعا ت میں یہ کام ہو رہا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سماجی ارتقا کے لیے انہوں نے اپنے حصے کا کام کر دیا۔ اب یہ دوسرے اداروں کا کام ہے کہ وہ اس علم سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں بنیادی تحقیقی کام امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہوا۔ اس علم سے امریکی وزارتِ خارجہ اور حکومت نے فائدہ اٹھایا اور اس خطے کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی طے کی۔ سماجی ارتقا کا عمل اسی طرح اداروں کے اشتراکِ عمل سے آگے بڑھتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ جامعات کی فضا آزادانہ تحقیق کے لیے سازگار ہو۔ وہاں کسی کو یہ خوف نہ ہو کہ اس نے اگر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر دیا تو اس کے لیے جینا مشکل ہو جا ئے گا۔ اس کی رائے اگر علمی اعتبار سے وقیع نہیں ہو گی تو پورا امکان ہے کہ رد کر دی جائے۔ وہ سماج تک پہنچ نہیں پائے گی۔ اگر پہنچے گی تو بھی کوئی اثر نہیں ڈالے گی۔ یہ علم وتنقید کی وہ مثبت سرگرمی ہے جو علم کی روایت کو آگے بڑھاتی ہے۔
ہمارے لیے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا جامعات میں علم تخلیق ہو رہا ہے؟ کیا ہم اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ میرا احساس ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں جو لوگ بطور طالب علم یا استاد آتے ہیں‘ وہ ان رویوں کا پرتو ہوتے ہیں جو ہمارے سماج میں موجود ہیں‘ الا ماشاء اللہ۔ اس طرح جامعات میں اگر کوئی وائس چانسلر یا استاد یہ چاہے کہ تحقیق کے عمل کو کسی تعصب کے بغیر آگے بڑھائے تو اس کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ جامعات کی ضرورت ہے کہ پہلے وہ فضا پیدا ہو جو تحقیق کے عمل کو آزادانہ بنا سکے۔ یونیورسٹی تک پہنچنے والے طالب علموں پر یہ واضح ہو کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں اور اختلافِ رائے کیسے علمی ارتقا میں معاون ہوتا ہے۔
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی یہ کانفرنس‘ یہ فضا پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی۔ منتظمین نے یہ چاہا کہ اس کے لیے تصوف کی روایت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کے فلسفیانہ پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس میں شبہ نہیں کہ ہماری خانقاہوں میں لوگوں کو مذہبی تعصبات سے بلند کرنے کی کوشش کی گئی۔ دوسروں کے احترام کی بات ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی صوفیوں کے مزارات پر آتے ہیں۔
ہم ہر اس تجربے سے استفادہ کر سکتے ہیں جو لوگوں میں محبت پیدا کرنے اور نفرتیں کم کرنے کا سبب بنے۔ تاہم اس کے لیے ہمارے سامنے ایک معیار رہنا چاہیے۔ یہ معیار اللہ کے آخری رسولﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ یہ خانقاہی روایت ہو یا کوئی اور‘ لازم ہے کہ اس میں کسی ایسی بات کی آمیزش نہ ہو جو اسوۂ پیغمبر سے متصادم ہو۔ اللہ کی کتاب نے بین المذاہب ہم آہنگی کے باب میں جو تعلیمات دی ہیں اور نبیﷺ نے عملی مثالیں قائم کی ہیں‘ وہ ہمارے لیے کفایت کرتی ہیں۔ زمانے کے تمدن کے ساتھ نئے تجربات میں کوئی حرج نہیں‘ اگر انہیں پرکھنے کے لیے یہ معیار ہمارے سامنے رہے۔
ان کانفرنسوں کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے معاشروں میں جو خیالات پروان چڑھ رہے ہیں‘ انہیں سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے ترکیہ سے تشریف لانے والے سکالر ڈاکٹر بلندت شنائے سے ترکیہ کے علمی منظرنامے پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ایک موضوع فتح اللہ گولن کی تحریک بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تحریک کے دو چہرے تھے۔ ایک جو سب کے سامنے تھا اور جو مسلمانوں کی روایت کے مطابق تھا۔ دوسرا باطنی تھا اور وہ خطرناک تھا۔ وہ ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے جب ا ن سے اس کے شواہد کے بارے میں پوچھا تو ان کاجواب بھی 'باطنی‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گولن مہدی ہو نے کا اعلان کر نے والے تھے اور یہ ایک کلٹ تھا۔ تاہم وہ اس تاثر کے علاوہ کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکے جسے عقل اور منطق کے حضور میں پیش کیا جا سکے۔ تصوف کے باب میں ان کی گفتگو علمی اور سوچ بچار کیلئے مواد فراہم کرتی تھی۔
یہ کانفرنس کسی سماجی تبدیلی کی بنیاد بنے گی یا نہیں‘ اس کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے۔ تاہم یہ کانفرنس یونیورسٹی کی فضا کو یقینا متاثر کرے گی۔ اگر اس سے جامعہ میں اس ماحول کو تقویت ملے گی جو آزادانہ تحقیق اور اختلافِ رائے کو گوارا کرے تو یقینا یہ اہم کامیابی ہو گی۔ اس سے سماجی تبدیلی کا دروازہ کھلے گا۔ یہاں کے فارغ التحصیل جب سماج کا عملی حصہ بنیں گے اور اس تعلیم وتربیت کا اطلاق کریں گے جو یونیورسٹی نے فراہم کی تو اس سے ان شاء اللہ سماج میں مسلکی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
قومی رحمۃ للعالمین اتھارٹی نے جامعہ کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی اتفاق کیا جس پر عمل درآمد سے ان کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اعلیٰ تعلیم بالواسطہ ہی سماجی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اصل تبدیلی تو بنیادی تعلیم پر توجہ دینے سے آئے گی۔ ملتان میں مَیں جنوبی پنجاب کے سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر عبیداللہ سے بھی ملا۔ قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی ان کے ساتھ مل کر بچوں کو سیرتِ پیغمبرﷺ سے روشناس کرانے کا ایک جامع پروگرام رکھتی ہے۔ ان شاء اللہ یہ کام بھی جلد شروع ہو جائے گا۔
ملتان میں دو دن کا قیام خوش گوار یادوں اور امید کے ساتھ تمام ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں