"KNC" (space) message & send to 7575

بارش مبارک مگر…

اللہ کا شکر کہ مینہ برسا۔ فطرت کا چہرہ دھل گیا۔ چہروں پر اطمینان کی لہر ابھری۔ زمین کی پیاس پوری طرح نہیں بجھی مگر زندگی کے آثار ضرور پیدا ہو گئے۔ گندم کی فصل اس مرحلے میں ہے کہ اسے پانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس بارش نے اسے بھی مرنے سے بچا لیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں بھی ہمیں اپنی رحمت سے محروم نہ رکھے۔
بارش کب ہو گی‘ اس کا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے۔ اس جملے کا ایک مفہوم ہے۔ آسمان والے کی ایک سنت ہے جس کا تعلق زمین پر ہونے والے واقعات سے ہے۔ بارش‘ جن عوامل کے تابع ہے‘ وہ فطرت کی کتاب میں رقم کر دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے چاند‘ سورج‘ انسان‘ سب کے لیے ا یک تقدیر مقرر کر دی ہے۔ گویا انہیں کچھ قوانین کے تابع بنا دیا ہے۔ انسان اگر ان قوانین کو جان لے تو وہ اس تقدیر کو سمجھ سکتا ہے۔ وہ ان کے تابع رہ کر زندگی گزارتا ہے تو مظاہرِ فطرت بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ جب وہ ان سے انحراف کرتا ہے تو نظامِ فطرت متاثر ہوتا اور زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔
انسان نے اب اپنی عقلی کاوش سے یہ جان لیا ہے کہ وہ قوانین کیا ہیں۔ مثال کے طور پر اسے معلوم ہو گیا ہے کہ بارش کیسے ہوتی ہے۔ اس عمل میں سورج‘ سمندر اور درخت کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ سورج کی شعائیں کیسے سمندر کی موجوں میں تلاطم لاتیں‘ اس کے پانی کو بخارات میں بدلتیں‘ بخارات بادل بنتے‘ بادل ہوا کے دوش پر سوار ہوتے اور وہاں جا برستے ہیں جہاں انہیں حکم ہوتا ہے۔ انسان کو معلوم ہو گیا ہے کہ سورج اور زمین کا فاصلہ کیا ہے۔ اگر یہ کم یا زیادہ ہو جائے تو زمین پر زندگی ناممکن ہو جائے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ زمین اور سورج کے درمیان ایک پردہ تان دیا گیا ہے۔ اگر زمین پر ہونے والی سرگرمیاں متوازن نہ رہیں تو اس پردے کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ پردہ کمزور ہوتا ہے تو سورج کی شعائوں کو روک نہیں سکتا جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
گویا بارش کب ہونی ہے اور زمین کا درجہ حرات کیسے معتدل رہ سکتا ہے‘ انسان نے برسوں پہلے اُس قانون کو دریافت کر لیا‘ یہ سب جس کے تابع ہے۔ اب یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ زمین پر کتنی بارش چاہتا ہے۔ اگر اسے زیادہ بارش چاہیے تو اسے زیادہ پودے لگانا پڑیں گے۔ اسے ایسے ایندھن کے استعمال سے گریز کرنا ہوگا جو فضا کو مکدر اور اس تہہ کو مجروح کرے جو سورج سے آنے والی روشنی کو‘ زمین پر زندگی کے موافق بناتی ہے۔ اسے پانی کی حفاظت کرنا ہو گی جس پر ہر ذی روح کا انحصار ہے۔ یہ کام انسان کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ اسی کو کہا جاتا ہے کہ انسان کا مستقبل اس کے ہاتھ میں ہے۔
ہمارے فقہا اور اہلِ علم نے دینی نقطہ نظر سے بھی اس بات کو نمایاں کیا ہے۔ پانی اور ہوا کے معاملات کو انہوں نے دو حوالوں سے مخاطب بنایا ہے۔ ایک ملکیت اور دوسرا ضرر (نقصان)۔ پانی اور ہوا کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان پر کسی فرد یا قوم کی اجارہ داری نہیں۔ کوئی پانی اور ہوا کا دروازہ دوسرے پر بند نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وہ ان کو آلودہ بھی نہیں کر سکتا۔ فقہا نے اس بات کو انسانی حقوق کے تناظر میں بھی دیکھا ہے۔ انہوں نے ایسا تنور لگانے سے منع کیا جس کا دھواں پڑوسی کے لیے نقصان یا ناگواری کا باعث بنے۔ اگر اس کا اطلاق عالمی سطح پر کیا جائے تو کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فضا کو آلودہ کرے جس سے پڑوسی ممالک اور دنیا کی فضا متاثر ہو۔
واقعہ یہ ہے انسان نے فطرت سے لڑ کر اپنے لیے زندگی کو اجیرن بنا لیا ہے۔ بھوک اور جنس کے باب میں اس نے فطرت سے ہم آہنگی پیدا نہیں کی تو انسانی سماج برباد ہو نے لگا۔ یہی معاملہ اس نے ماحول کے ساتھ کیا۔ پانی ضائع کیا‘ حالانکہ اس کو معلوم تھا کہ زیرِ زمین ذخیرہ کتنا ہے اور کب تک اس کے کام آ سکتا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بارش میں تاخیر ہو جائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ خشک سالی کا خطرہ پیدا ہو جا تا ہے اور ایک پریشانی ہمیں گھیر لیتی ہے۔ ہم اس کے باوجود اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ سب ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس میں حیرت کی بات تھی۔
ہم نے چار ماہ کے اس عرصے میں کیا سیکھا؟ کیا ہم اپنے طرزِ عمل کو بدلنے پر آمادہ ہیں؟ اس کا ایک متوقع جواب یہ ہے کہ ہم حکومت کو لعن طعن کریں کہ وہ کچھ نہیں کر رہی۔ اس کا جواز بھی موجود ہے کہ اس باب میں حکومت نے اپنی ذمہ داری نہیں ادا کی۔ ایک جواب یہ ہے کہ ہم ایک شہری کے طور پر یہ دیکھیں کہ مجھے جو کرنا چاہیے‘ کیا میں اس کے لیے تیار ہوں؟ غسل خانے اور باورچی خانے میں‘ کیا ہم پانی کے استعمال میں محتاط ہیں؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ آج ہم گیس سے کیسے محروم ہوئے؟ میں نے بارہا یہ مشاہدہ کیا کہ اگر ایک بار چولہا جلا تو گھنٹوں بلاوجہ جلتا رہا کہ دوسری بار دیا سلائی کون جلائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج زیرِ زمین گیس کے ذخائر ختم ہو گئے۔ ہم درآمد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
یہی کچھ ہم پانی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پانی بھی اسی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے۔ ہم نہاتے وقت شاور چلاتے ہیں اور وہ چلتا ہی رہتا ہے۔ نلکا کھولتے ہیں تو بند کرنا بھول جاتے ہیں۔ یہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اب یہ صورتِ حال پیدا ہو چلی ہے کہ ہم خشک سالی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ چند ماہ بارش نہ ہو بڑے شہروں میں پینے کے لیے پانی میسر نہیں ہوتا۔ کراچی میں تو برسوں سے یہ بحران موجود ہے‘ اب تو راولپنڈی اور اسلام آباد میں یہی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ راول جھیل میں پانی کم ہو جائے تو دونوں شہروں کی پیاس بڑھ جاتی ہے۔ آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ خاندان کی تنظیم نہ کرنا بھی فطرت سے کھیلنا ہے۔
ماحولیات کے باب میں سماج کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ گاؤں کی زندگی میں کبھی اس کا سوال نہیں تھا کہ پانی کی بھی کوئی قیمت ہے۔ شہری زندگی نے بتایا ہے کہ پانی مفت میں نہیں ملے گا۔ ہم نے بطور شہری اس بات کو سمجھنا ہے۔ پانی کو ضائع ہو نے سے بچائیں۔ اسی کا نام شعور ہے۔ ہیجان پیدا کرنا یا شب وروز دوسروں کو برا بھلا کہتے رہنا شعور نہیں ہے۔ سماجی شعور‘ سیاسی شعور سے بڑھ کر ہے۔ افراد میں ہر طرح کا شعور ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت سے کیا مطالبہ کرنا ہے اور ہمیں خود کیا کرنا ہے۔ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں اس کے لیے اپنی سماجی قوت کا ادراک کرنا چاہیے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بارش سے نوازا۔ چار ماہ کا وقفہ اس لیے تھا کہ ہم پانی اور ماحول کے بارے میں حساس بنیں۔ ہم فطرت کی آواز کو سنیں اور جانیں کہ اس کی تعزیریں کتنی سخت ہو تی ہیں۔ فطرت جزا اور سزا کے معاملے میں کسی امتیاز کی قائل نہیں۔ ہر عمل کا ایک نتیجہ ہے اور وہ پہلے سے بتا دیا گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں