رانی پور کی فاطمہ کے بعد‘ اب کراچی کے مصطفی کی لاش اس ملک کے نظامِ عدل کو پکار رہی ہے۔
اس کہانی میں نظامِ عدل ہی نہیں‘ اس سماج کا المیہ بھی چھپا ہوا ہے۔ آج ایک والد اپنے بیٹے کو پھانسی سے بچانے کے لیے ہر جتن کر رہا ہے۔ کل جب وہ جرائم اور منشیات کے دلدل میں دھنس رہا تھا‘ والد نے اس کو نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر اسے اپنے بیٹے سے کوئی دلچسپی اور محبت تھی تو اسے بچانے کا وقت وہ تھا جب وہ آوارگی کے حصار میں تھا۔ جب بیٹے نے گھر کو جرائم کا اڈا بنارکھا تھا‘ اس وقت باپ سویا رہا۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ آج جب انجام سامنے دکھائی دینے لگا تو اس کی شفقتِ پدری جاگی ہے۔ لیکن کیا فی الواقعہ اس کا انجام سامنے ہے؟
خبر پھیلی کہ فاطمہ کی ماں نے بیٹی کی آبروریزی اور قتل کے ملزم سے صلح کر لی ہے۔ بتایا گیا کہ 17فروری کو عدالت اس بارے میں فیصلہ دے گی۔ میں اخبارات دیکھتا رہا۔ مقدور بھر ٹی وی چینلز کی خبریں بھی سنیں کہ عدالت کے فیصلے کی کوئی اطلاع ملے۔ کچھ پتا نہ چل سکا کہ عدالت میں کیا ہوا۔ ابھی اس کی تفصیلات ڈھونڈ رہا تھاکہ مصطفی کے وحشیانہ قتل کی خبر میڈیا کا موضوع بن گئی۔ نظامِ عدل کے بارے میں سوالات کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اَن گنت فاطمہ اورمصطفی روز مر رہے ہیں۔ ہر قتل سماج‘ ریاست اور بالخصوص نظامِ عدل کے لیے ایک نیا سوال ہے جس کے لیے ان کے نمائندے جوابدہ ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
اس نظامِ عدل کے بارے میں میرے لیے جو سوال سب سے اہم ہے‘ وہ میں سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ قتل کے ایک واقعہ کی جو تفصیلات ہمارے سامنے آتی ہیں‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ قتل کے اتنے شواہد موجود ہیں کہ تردید کا کوئی سوال نہیں۔ اس کے باوجود برسوں یہ مقدمات چلتے ہیں اور فیصلہ نہیں ہو پاتا؟ سوال یہ ہے کہ جب اتنے شواہد موجود ہیں تو عدالت جلد فیصلہ کیوں نہیں سناتی؟ اب دو ہی امکان ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تفصیلات غلط ہیں جو پولیس اور میڈیا بیان کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عدالت دانستہ سزا نہیں دیتی۔ اگر میڈیا یا پولیس نے غلط بیانی کی تو اسے ثابت ہو جانا چاہیے۔ اور اگر عدالت فیصلہ کرنے میں متذبذب ہے تو اس کے اسباب بھی معلوم ہونے چاہئیں۔ اتنے شواہد کی موجودگی میں‘ ایک مقدمے کا برسوں تک فیصلہ کیوں نہیں سنایا جاتا؟
قانون کے ماہرین ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ بہت سے گناہ گاروں کو سزا نہ دینا کسی ایک بے گناہ کوغلط سزا دینے سے بہتر ہے‘ اس لیے عدالتیں پوری احتیاط کرتی ہیں۔ یہ منطق کسی حد تک قابلِ فہم ہے مگر میرا سوال دوسرا ہے۔ جب ایک قتل ہوا ہے تو لازماً کوئی قاتل بھی ہو گا؟ اس قاتل کی تلاش کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر ایک ملزم قاتل نہیں ہے تو اسے رہا کیوں نہیں کیا جا رہا؟ برسوں مقدمہ لٹکائے رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ نور فاطمہ کے قتل کا فیصلہ سنایا جا چکا۔ اب اپیلوں کا فیصلہ ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ قتل کے مقدمات کو برسوں تک التوا میں رکھنے کا جواز کیا ہے؟ چند ماہ پہلے ایک حاملہ خاتون کو اس کی ساس اور نندوں نے مل کر قتل کر دیا تھا۔ اعتراف بھی کر لیا۔ پھر سزا کیوں نہیں ملی؟
قرآن مجید نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی پر قصاص کو فرض کیا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی سے یہ غفلت کیوں؟ اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسے برسوں جیل میں بند رکھنا بھی تو جرم ہونا چاہیے۔ ایک منصف کے لیے قتل کا ایک مقدمہ کسی اضطراب کا سبب کیوں نہیں بنتا ہے کہ وہ عدل کے لیے بے چین ہو جائے؟ ہمارے نظامِ عدل میں یہ حساسیت کیوں نہیں؟ ہر مقدمہ متقاضی ہے کہ اس کا فیصلہ جلد ہو۔ قتل کا معاملہ مگر خاص ہے۔ یہ پورے معاشرے کی زندگی کا سوال ہے۔ اگر عدالتیں ایسے مقدمات میں تساہل کا مظاہرہ کریں گی تو سماج میں قتل کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ہر قاتل اس امید کے ساتھ جرم کرے گا کہ وہ عدالت سے بچ جائے گا۔
انسانی جان کی حرمت کا یہ تقاضا ہے کہ قتل کے مقدمے کا فیصلہ جلد ہو۔ ہم ہر معاملے میں قانون سازی کرتے ہیں تو ایسے مقدمات کے بارے میں کیوں نہیں؟ میرا مطالبہ ہے کہ ہماری پارلیمان مقدمات کے بارے میں بالعموم اور قتل کے باب میں بالخصوص‘ عدالتی فیصلے کے لیے مدت کا تعین کرے۔ یہ قانون بن جائے کہ اتنے عرصے میں قتل کا فیصلہ سنانا عدالت کے لیے لازم ہو گا۔ وکلا کو بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ایک خاص وقت میں اپنے دلائل مکمل کریں۔ اگر کوئی مقدمہ زیادہ پیچیدہ ہے تو عدالت بالاتر عدالت سے زیادہ وقت کے لیے‘ جو متعین ہو‘ درخواست کرے اور اس کا جواز فراہم کرے۔ بڑی عدالت مطمئن ہو تو کسی خاص مقدمے میں وقت کا دورانیہ بڑھا سکتی ہے۔ اسی طرح اپیل کے بارے میں طے ہو کہ اس کا فیصلہ بھی ایک خاص وقت تک سنانا لازم ہو گا۔
قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں جس کے بارے میں تساہل کا مظاہرہ کیا جائے۔ مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیے تو دنیا میں قصاص کو فرض کہا گیا۔ آخرت کے حوالے سے قاتل کی سزا دائمی جہنم ہے۔ سماجی اعتبار سے پرکھیے تو انسانی جان کی حرمت کو اولیت دی گئی ہے۔ ریاست کا مقصدِ وجود ہی جان ومال کا تحفظ ہے۔ آج فرد‘ سماج ا ور ریاست‘ سب انسانی جان کے معاملے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فرد معمولی بات پر دوسرے کی جان لے لیتا ہے۔ سماج میں مذہب اور غیرت کے نام پر انسانی قتل کو گلیمرائز کیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں ثبوت کے باوجود‘ جلدی فیصلے نہیں ہوتے۔
سب سے بڑی ذمہ داری عدالت کی ہے۔ عدالت کی طرف سے سماج کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ قتل کا مجرم لازماً انجام کو پہنچے گا۔ قاتل کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ وکلا کو بطور خاص عدالت کی معاونت کرنی چاہیے۔ وہ کسی ایسے آدمی کا مقدمہ نہ لڑیں جس کے بارے میں انہیں یقین ہو جائے کہ وہ قاتل ہے۔ سماج بھی زبانِ حال سے اعلان کرے کہ قتل کا مقدمہ اگر عدالت میں ثابت نہ ہو تو بھی سماج میں قاتل کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جہاں قتل ہوتا ہے‘ مقای لوگ جانتے ہیں کہ قاتل کون ہے‘ یہ الگ بات کہ عدالت کے سامنے پیش نہ ہوں۔
ہمارا نظامِ عدل اس وقت عوامی اعتماد کے بحران میں مبتلا ہے۔ لوگ اس کے سیاسی اسباب پر بات کرتے ہیں۔ میرے نزدیک زیادہ اہم پہلو سماجی ہے۔ اس نظام کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ قاتل کے ساتھ ہے یا مقتول کے ساتھ۔ رانی پور کی فاطمہ ہو‘ اسلام آباد کی نور فاطمہ ہو‘ یا پھر کراچی کا مصطفی‘ ان کے مقدمے کے جو فیصلے ہوں گے‘ ان سے ہمیں اس سوال کا جواب ملے گا۔ جو سماج انسانی جان کی حرمت کے بارے میں بے حس ہو جائے‘ امن اس سے روٹھ جاتا ہے۔ بدامنی میں کوئی محفوظ نہیں ہو تا۔ وسائل اور منصب پھر کسی کام نہیں آتے۔ فساد کی آگ میں ہم نے سب کو جلتے دیکھا ہے۔ سب لوگوں کو مل کر اس کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جب ایک قتل پر سماج خاموش رہتا ہے تو پھر کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے آخری الہام میں یہ کہا گیا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔