تیمور نے انسانی کھوپڑیوں کا مینار بنایا۔ صدر ٹرمپ غزہ کی اجڑی بستی میں امرا کے لیے عشرت کدے آباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہ رہائشی سکیم کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مظہر جہاں امرا ہی کو رہنے کا حق ہے۔ اب ایک نظر اپنے گھر پر ڈالیے: بنوں میں کیا ہوا؟ اکوڑہ خٹک میں کیا ہوا؟ یہ مغرب ہو یا مشرق‘ کل ہو یا آج‘ انسان تبدیل نہیں ہوا۔ اس نے صرف اپنا طریقۂ واردات تبدیل کیا ہے۔ اس کی فطرت آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ اس کا شاکلہ آج بھی وہی ہے جس پر وہ تخلیق کیا گیا۔
تمدن کا ارتقا‘ انسان کی ذہانت ا ور صلاحیتوں کا اظہار ہے۔ وہ جن جبلتوں کے ساتھ پیدا ہوا‘ اُن کی تحریک پر اس نے تہذیب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ غار میں رہنے والا انسان جبلتوں کا اسیر تھا اور جدید شہروں کا مکین بھی انہی جبلتوں کی گرفت میں ہے۔ اس کا تہذیبی ارتقا اتنا ہی ہے کہ اس نے اپنے جبلی مطالبات پورے کرنے کے جدید سے جدید تر انداز سیکھ لیے۔ اپنی فطری آسودگی کے لیے نئے ظروف تراش لیے۔ اس کے اندر کی طلب آج بھی وہی ہے جو ہزاروں برس پہلے تھی۔ اس میں کوئی فطری ارتقا نہیں ہے۔ وہ اگر کل ظالم اور جاہل تھا تو آج بھی ظالم اور جاہل ہے۔
اخلاقیات کا سارا تصور انہی جبلتوں سے پھوٹا ہے۔ جبلتوں کو کیسے ایک نظم کے تابع کیا جائے کہ فرد اور سماج فساد سے محفوظ رہ سکیں۔ اخلاقیات نے اس سوال کے جواب میں‘ جبلتوں کے ساتھ ہی جنم لیا۔ یہ خیر کی طرف اس کا فطری جھکاؤ ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اخلاقیات اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان خیر کا ادراک رکھنے والے فطری مطالبے کو غالب رکھے۔ جبلی تقاضے اگر فسادکی طرف پیش قدمی کرنا چاہیں تو خیر کی یہ داخلی قوت اتنی توانا ہو کہ اس کے قدم روک لے۔ وہ دروازے پر زنجیر ڈال دے اور انسان فطری تقاضوں سے مغلوب ہو کر زمین پر فساد برپا کرنے کے لیے بے لگام نہ چھوڑ دیا جائے۔ اگر جبلی تقاضے عالمگیر ہیں تو لازم ہے کہ اخلاقیات کا نظام بھی عالمگیر ہو۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر وہ تصور درست نہیں جو اخلاقیات کو ایک موضوعی معاملہ قرار دیتا ہے۔ جس کے تحت یہ مانا جاتا کہ انسانی اخلاقیات زمان ومکان کی قید میں ہیں۔ جب جبلتیں اس قید سے آزاد ہیں تو اخلاقی نظام‘ اس کی گرفت میں کیسے ہو سکتا ہے؟
جنس‘ بھوک اور طاقت کے لیے آج کا انسان‘ اگر کسی اخلاقی نظام کے تابع نہ ہو تو ہر حد پار کر جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ زر‘ زمین اور زن تو محاورتاً ہمارے ہاں بھی فساد کی جڑیں مانے جاتے ہیں۔ قرآن مجید جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ سناتا ہے تو طاقت کی نفسیات کے بارے میں ملکہ سبا کا یہ جملہ نقل کرتا ہے: ''بادشاہ لوگ جب کسی بستی (کو فتح کرکے اُس) میں داخل ہوتے ہیں تو اُس کو درہم برہم اور اُس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں‘‘ (النمل: 34)۔ تاریخی شواہد اس جانب راہنمائی کرتے ہیں کہ انسان کا اخلاقی مسئلہ ہمیشہ سے یکساں رہا ہے۔ یہ جبلتوں کے سوئے استعمال پر خیر کے داخلی داعیے کا پہرہ بٹھانا ہے۔ اللہ کے پیغمبر اس کے بارے میں متنبہ کرنے اور اس داعیے کو طاقتور بنانے کے لیے تشریف لاتے اور اس کے لیے خود کو بطور مثال پیش کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ نبی کریمﷺ پر تمام ہو گیا۔
یہ انسان کے بڑے المیوں میں سے ایک‘ اور شاید اس کے ظالم ا ور جاہل ہونے کی دلیل ہے کہ مذہب جو اس کے اخلاقی تزکیے کے لیے ہے‘ اُس کے لیے حصولِ قوت کا ایک ذریعہ بن گیا اور اس نے مذہب کے نام پر ہر اخلاقی تقاضے کو پامال کرنا جائز سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ انسان کی بلاوجہ جان لینے کے لیے بھی مذہب کو حوالہ بنا لیا۔ مذہب جو تمام جبلتوں کو ایک نظامِ اخلاق کے تابع کرتا ہے‘ اسے انسان نے اپنے جرائم کے لیے پردہ سمجھ لیا۔ اس سے لوگوں کو یہ موقع ملا کہ وہ زمین پر فساد کے اسباب میں مذہب کو بھی شامل کر لیں۔ اہلِ کلیسا کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنے اعمال سے اس مقدمے کو تقویت پہنچائی۔ افسوس کہ اہلِ اسلام کا ایک گروہ بھی اسی راستے پر چل نکلا۔ اکوڑہ خٹک اور بنوں کے واقعات ان مذہب مخالف نظریات کی صحت کے لیے دلیل بن گئے۔
انسانی جان کی حرمت کو ہر نظامِ اخلاق میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اسلام اس معاملے میں شدید تر ہے‘ جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ اس نے قصاص کو نظمِ اجتماعی کے لیے فرض کہا۔ لبرل ازم قاتل کی جان لینے کو روا نہیں رکھتا۔ گویا قاتل کے لیے جینے کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ اسلام کو قاتل سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ مقتول کے ساتھ کھڑا ہے۔ جان کی حرمت کا تصور بھی اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ ہر جرم کے لیے ایک کراہت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے اور یہ عالمگیر ہے۔ گویا اس مقدمے میں جان نہیں جو اخلاقیات کو موضوعی قرار دیتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے کو عرب دنیا نے مسترد کر دیا ہے۔ عالمی ضمیر نے بھی اسے قبول نہیں کیا۔ یہ خیر وشر کے ازلی ہونے کی دلیل ہے جس کا آغاز ہابیل و قابیل کے قصے سے ہو گیا تھا۔ اس قصے کو الہامی ادب نے بیان کیا ہے۔ اس کی روشنی میں ہم آج اکیسویں صدی کے انسان کو دیکھتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ دونوں کی نسلیں آج بھی اسی طرح اپنی فطرت کا اظہار کر رہی ہیں جس طرح ان کی اوّلیں نسل نے کیا تھا۔ دونوں کی ذریت آج بھی اسی طرح اپنے اخلاقی حاسے کے ساتھ موجود ہے۔
انسای تاریخ میں فطرت سے انحراف کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ استثنا مگر اصول نہیں بنتا۔ اگر کوئی قبیلہ ایسا پایا جاتا تھا جو انسانی گوشت کھانے کو روا رکھتا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ا نحراف اخلاقِ انسانی کے کسی ارتقائی مرحلے کا بیان ہے۔ ہمیں اسی نوعیت کے انحرافات انسان کے جنسی رویے میں بھی ملتے ہیں۔ ان کے اسباب تلاش کیے جا سکتے ہیں مگر اس سے یہ برآمد کرنا کہ انسان کی اخلاقی حس موضوعی اور ارتقا پذیر ہے‘ محض تکلف ہے۔ اس کی گواہی یہ بھی ہے کہ ان انحرافات نے انسان کی جسمانی اور سماجی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ انسان کی سلامتی فطرت سے ہم آہنگی ہی میں ہے۔
طاقت کے متلاشی‘ سکندر ہو یا تیمور‘ ہٹلر ہو یا عصرِ حاضر کے مہذب فاتحین‘ کسی نظریے کے غلبے کا عَلم اٹھائے ہوں یا کسی نسل اور قوم کی برتری کا‘ آفرینش سے سب ایک ہی جبلت اور فطرت کے تابع رہے ہیں۔ تہذیبی ارتقا نے ان کے طریقۂ واردات کو تو بدلا ہے‘ فطرت کو نہیں۔ ان کا علاج اسی اخلاقی حاسے کو بیدار کرنا ہے۔ وہی حاسہ جس نے سیدنا آدم علیہ السلام کی دعا میں ظہور کیا اور جسے آج انسانی تکریم کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے۔ ظلم‘ جس کی بدترین صورت بے گناہ کا قتل ہے‘ ہابیل سے لے کر آج کے مہذب انسان تک‘ کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ انسان کی نجات اسی تصورِ حیات کی طرف رجوع میں ہے جو انسان کو اصلاً ایک اخلاقی وجود سمجھتا اور اس کے تزکیے کو اس کی منزل قرار دیتا ہے:
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند