"KNC" (space) message & send to 7575

مناظرہ اور مکالمہ

مناظرانہ طبیعت سے مکالمہ ممکن نہیں۔ ایسے مزاج سے پالا پڑ جائے تو اعراض بہتر ہے۔ بصورتِ دیگر ایک دھول اُڑے گی جس میں لازم ہے کہ آپ کا چہرہ گرد سے اَٹ جائے۔
جو لوگ سنجیدگی کے ساتھ علم یا سماج کی خدمت کرنا چاہتے ہیں‘ وہ مناظرے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اپنا نقطہ نظر شائستگی کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ کوئی اعتراض اٹھے تو اس کا جواب بھی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے دے دیتے ہیں۔ اگر فریقِ ثانی کو اس کے بعد بھی اپنی رائے پر اصرار رہے تو وہ اپنا قدم کھنچ لیتے اور الجھتے نہیں۔ وہ مکالمے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں مگر جیسے ہی دوسرا مناظرے کے میدان میں اترتا ہے‘ وہ شکست کا اعتراف کرتے اور اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔
مناظرانہ مزاج کو دوسرے کے مؤقف کی تفہیم سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ حق تک پہنچنا بھی اس کے پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ اس کو صرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرا ناحق پر۔ مباحثے کے اخلاقی تقاضے اس کا مسئلہ نہیں ہوتے۔ اسے دوسرے کو زیر کرنا ہوتا ہے اور بس۔ اس کے لیے وہ کوئی ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس کی نظر دوسرے کے کمزور پہلوئوں پر ہوتی ہے۔ دوسرے کی پگڑی اچھالنا اس کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔ اگر کسی کو القاب سے پکارنا ہو تو کوئی اخلاقی تقاضا اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ احمد جاوید صاحب نے اپنے ایک ہم عصر کے اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے‘ ان کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ ناقد کے کمزور پہلو سے کبھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ مناظرانہ طبیعت کے لیے یہ سب اجنبی ہے۔ مدمقابل جتنا رسوا ہو‘ اسے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے۔
مکالمہ دوسروں کے احترام کو لازم کرتا ہے۔ اس کا انجام فتح وشکست نہیں‘ تفہیم ہوتا ہے۔ آپ اپنی بات اچھے اسلوب میں بیان کرتے ہیں تاکہ دوسراسمجھنا چاہے تو اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ قبولیت یا عدم قبولیت آپ کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح آپ دوسرے کی بات کو بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔ مکالمے کے نتیجے میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی رائے سے رجوع کر لیں اور کسی تیسری رائے کو اختیار کر لیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہیں اور بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں‘ اس امکان کو تسلیم کرتے ہوئے کہ آج کا اختلاف کل کسی اتفاق میں بھی ڈھل سکتا ہے۔ اس سے اختلاف کے باوجود فضا مکدر نہیں ہوتی‘ میل جول کے امکانات باقی رہتے ہیں اور اتفاقِ رائے کی امید بھی زندہ رہتی ہے۔
ہمارے ہاں مذہب اور سیاست میں مکالمے کی جگہ مناظرے نے لے لی ہے۔ اہلِ سیاست جب مل بیٹھتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ مطلوب اتفاقِ رائے نہیں بلکہ دوسرے کو چت کرنا ہے۔ مقصد دوسرے کے مؤقف کی تفہیم یا اپنی رائے کا ابلاغ نہیں۔ مذاکرات کے نام پر چال چلی جاتی ہے۔ مکالمے کو سیاسی فائدے کے لیے بطور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اخلاقیات کہیں زیرِ بحث نہیں ہوتے۔ سیاستدان میڈیا میں آمنے سامنے ہوتے ہیں تو وہاں بھی مطلوب یہی ہوتا کہ دوسرے کو شکستِ فاش دی جائے۔ سوشل میڈیا پر مذہبی مباحث میں مشغول دانشوروں اور سکالرز کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اہلِ سیاست سے بھی بدتر۔ علم ان کے لیے مفید بننے کے بجائے حق تک رسائی کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔ حق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر ہے۔ علم کا تکبر جہالت کی بدترین صورت ہے۔
علم تواضع سکھاتا ہے۔ ہم نے تو یہی جانا ہے کہ جو علم کی دنیا میں پیش قدمی کرتا ہے‘ ہر دن اس پر اپنی بے علمی ہی منکشف ہوتی ہے۔ اس سے عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ میں نے یہ عاجزی غیر مسلم سکالرز میں زیادہ دیکھی ہے۔ یہ وہاں کے نظامِ تعلیم کا اثر ہے۔ میرا ایک بار شکاگو یونیورسٹی کے شعبہ الٰہیات میں جانا ہوا۔ وہاں ان لوگوں سے ملا جو تیس چالیس برس سے عہدنامہ قدیم وجدید اور قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔ میرے ساتھ ایک دو افراد ایسے تھے‘ جن پر اپنی لاعلمی آشکار نہیں تھی۔ انہوں نے جو گفتگو کی‘ میرے جیسا طالب علم بھی سمجھ سکتا تھا کہ وہ ایک مبتدی کے سطح کی ہے۔ میں نے مگر اُن اساتذہ کو دیکھا کہ اس توجہ سے سُن رہے ہیں جیسے اُن پر نئے علمی نکات منکشف ہو رہے ہوں۔ جب انہوں نے جوابی گفتگو کی تو اس میں بھی انکسار تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ علم اور انکسار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
مجھے خوش بختی سے ایسے اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوئی جن میں علم تھا اور انکسار بھی۔ مثال کے طور پر میں نے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم کے ساتھ کم وبیش پچیس برس گزارے۔ اُن کے علمی مرتبے کا اعتراف عالمی سطح پر ہوا۔ ان کا مطالعہ غیر معمولی تھا۔ اس کے باوصف‘ ان میں تواضع ایسی تھی کہ میرے جیسا کم علم بھی سر راہ مل جاتا تو اسے یہ احساس نہ ہوتے دیتے کہ وہ اتنی بڑی علمی شخصیت سے مخاطب ہے۔ مجھے اللہ نے جاوید احمد غامدی صاحب کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع عطا فرمایا۔ جوانی کے دور میں انہوں نے جو تنقید ی مضامین لکھے‘ ان میں کہیں کہیں سختی دکھائی دیتی ہے مگر اب وہ اس رائے کا اظہار کر چکے کہ ایسا نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ ان کے ناقدین‘ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر ان پر صریح بہتان لگاتے ہیں لیکن وہ جواب میں پتھر نہیں اٹھاتے۔ خود کو صرف اپنی بات کی شرح تک محدود رکھتے ہیں۔ جنہوں نے ان کے ابتدائی دور کی تحریریں پڑھی ہیں‘ وہ جانتے کہ ان کے پاس وہ قلم ہے کہ ان کے ناقدین اس کی تاب نہ لا سکیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک بار ایک معاصر کا علمی محاکمہ کیا۔ انصاری صاحب کی روایت ہے کہ ہم نے دوبارہ ان کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کی تو انہوں نے فرمایا: 'میں کسی کے خلاف دو بار قلم نہیں اٹھاتا‘۔ جاوید صاحب کو بھی دوسری بار قلم اٹھانے کی ضرورت نہ پڑتی مگر جیسے جیسے ان کے علم اور عمر میں اضافہ ہوا‘ ہم نے دیکھا کہ ان کے ہاں تواضع بھی اسی طرح بڑھی ہے۔
مناظرے کی نفسیات اس بات کو سمجھ نہیں سکتی۔ ہمارے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ سیاست اور مذہب کی ترجمانی مناظر حضرات کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اس وجہ سے سماج میں مکالمہ نہیں ہو رہا۔ اہلِ سیاست ایک جگہ مل بیٹھتے ہیں نہ اہلِ مذہب۔ اگر کبھی ملتے بھی ہیں تو کسی مفاد کے لیے۔ جیسے ہی کام نکل جا تا ہے‘ وہ اپنی صف الگ کر لیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سماج میں فاصلے بڑھنے لگے۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہو نے لگے۔ اس سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں اور اکثر بات صریح بہتان تک جا پہنچی۔ یوں نفرت اور بداعتمادی کو فروغ ملا۔
ختمِ نبوت کا مطلب یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد ہمیں اپنی اوقات کا احساس ہونا چاہیے۔ زیرِ آسمان اب کوئی ہستی ایسی نہیں کہ جس کی زبان سے صرف حق صادر ہوتا ہو۔ ہماری بات میں غلطی کا امکان موجود ہے اور دوسرے کے مؤقف میں صحت کا۔ اگر یہ احساس زندہ رہے تو پھر ہمارے درمیان مکالمہ ہوگا نہ کہ مناظرہ۔ ہم دوسروں کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اگر تنقید کریں گے تو پہلے سمجھیں گے کہ فہم کے بغیر تنقید تعصب اور جہالت ہے۔ اسی سے بات بہتان تک جا پہنچتی ہے جو بڑا گناہ ہے۔ ہمیں اس مقام پر کھڑا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ ہمارے شر سے بچنے کے لیے‘ ہم سے بات کرنے سے گریز کرنے لگیں۔ ہمارے بارے میں یہ رائے پیدا ہو کہ ان سے مکالمہ نہیں ہو سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں