فراہی سر سیّد سکول اور مکتبِ فراہی کے افکار ونظریات میں وہی فرق اور اختلاف ہے جو زمین اور آسمان میں ہے۔ یہ اختلاف اصول میں بھی ہے اور اطلاق میں بھی۔ یہ اب تیسری نسل کو منتقل ہو چکا۔ سر سیّد مرحوم سے غلام احمد پرویز صاحب تک اور امام حمید الدین فراہی سے جاوید احمد صاحب غامدی تک‘ یہ اختلاف نکھرتا اور نمایاں ہوتا چلا گیا‘ یہاں تک کہ اب کسی اشتباہ کا امکان بھی باقی نہیں رہا۔ یہ بات برصغیر کی مسلم فکر کا ایک مبتدی بھی جانتا ہے۔ ان کو ایک گروہ قرار دینا‘ اگر دانستہ ہے تو اخلاق اور خدا خوفی سے بے نیازی کی دلیل ہے‘ اگر نادانستہ ہے تو فکر ونظر کا افلاس ہے جو افسوسناک ہے۔
امام فراہی سرسید سے کم عمر ہونے کے باوصف‘ ان کے ہم عصر تھے۔ بیس سال کی عمر میں دینی علوم اور عربی وفارسی کی تعلیم سے فراغت کے بعد‘ امام فراہی انگریزی زبان کی تعلیم کے لیے علی گڑھ کالج میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر سرسید نے کالج کے پرنسپل کے نام خط میں لکھا کہ آپ کے پاس ایک ایسا طالبعلم بھیج رہا ہوں جو عربی وفارسی میں اتنا قابل ہے کہ کالج کا کوئی پروفیسر بھی اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہ وہ دور ہے جب سرسید کو اپنی تفسیرِ قرآن کے انگریزی ترجمے کا خیال آیا۔ امام فراہی کی قابلیت کو دیکھ کر‘ سب کی نگاہِ انتخاب ان پر پڑی۔ امام کے شاگردِ رشید‘ امام امین احسن اصلاحی کے مطابق ''جب مولانا کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو مولانا نے فرمایا کہ میں اس اشاعتِ معصیت میں کوئی حصہ نہیں لینا چاہتا‘‘۔ (مولانا حمید الدین فراہی‘ ص: 8)۔
اس ظاہر وباہر اختلاف کے باوصف‘ عامۃ الناس کو یہ باور کرانے کی مہم کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہے کہ یہ ایک ہی مکتبِ فکر ہے اور ان پر اجتماعی طور پر 'متجدد‘ کی پھبتی کَسی جاتی ہے۔ اہلِ علم تو اس فرق سے واقف ہیں‘ عام قاری کی معلومات کیلئے میں نے یہاں ان امور میں مکتبِ فراہی کی تعبیرات کو بیان کیا ہے‘ جن کے بارے میں بالعموم یہ ابہام پیدا کیا جاتا۔ اس سے بالکل واضح ہو جائے گا کہ مکتبِ فراہی نہ کوئی نیا مسلک ہے نہ فرقہ۔ یہ اسی دین کا نمائندہ گروہ ہے جو اس امت میں نسل در نسل‘ تواتر کے ساتھ منتقل ہوتا آیا ہے۔ اگر کہیں اختلاف ہے تو اس کی نوعیت اس اختلاف جیسی ہے جو اس امت میں علمائے تفسیر‘ محدثین‘ متکلمین اور فقہا میں ہوتا آیا ہے۔ اس اختلاف سے فہم کا نیا باب تو کھلتا ہے‘ نیا دین ثابت نہیں ہوتا۔ اس تحریر میں عمومی جائزہ مقصود نہیں‘ صرف وہ امور زیرِ بحث رہیں گے‘ جن کو بنیاد بنا کر سرسید سکول اور مکتبِ فراہی کو ایک گروہ بتایا جاتا ہے۔ میں اپنی بات چند نکات کی صورت میں بیان کر رہا ہوں۔
اسلام کیا ہے؟ دورِ جدید میں مکتبِ فراہی کے سب سے مستند شارح اور مجتہد‘ اپنی کتاب ''میزان‘‘ کا آغاز اس سوال کے جواب سے کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ''دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اس کے بعد اس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اس سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ‘ اس زمین پر اب محمدﷺ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے۔ یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول وفعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں‘ وہی اب رہتی دنیا تک دینِ حق قرار پائے... رسول اللہﷺ سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہوا‘ اور وہ دو صورتوں میں ہم تک پہنچا: قرآن مجید اور سنت‘‘۔ (ص: 13)۔ سنت کیا ہے‘ اس کے بارے میں جاوید صاحب نے لکھا: ''یہ دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبیﷺ نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد‘ اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا‘‘۔
اب تین باتیں بغیر کسی ابہام کے واضح ہو گئیں۔ ایک یہ کہ دین کا ماخذ تنہا نبیﷺ کی ہستی ہے۔ دین وہی ہے جسے آپﷺ دین قرار دیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ دین صرف قرآن نہیں ہے‘ سنت بھی ہے۔ قرآن کیا ہے‘ سنت کیا ہے‘ یہ ہمیں نبیﷺ نے بتایا ہے۔ تیسری بات یہ کہ دین صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر کا نام ہے۔
یہاں لوگ دینِ ابراہیمی کی روایت کے بارے میں اشتباہ پیدا کرتے ہیں۔ مکہ کے لوگ یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ دینِ ابراہیمی پر قائم ہیں۔ چونکہ سیدنا اسماعیلؑ کے بعد ان کی طرف براہِ راست کوئی پیغمبر نہیں آیا تو انہوں نے دین کے عقائد اور مناسک میں بہت سے مشرکانہ باتیں اور بدعات داخل کر دی تھیں۔ جیسے حج ہو رہا تھا مگر سیدنا ابراہیمؑ کے طریقے پر نہیں۔ نبیﷺ نے عقیدے اور عمل کو شرک اور بدعات سے پاک کیا اور اس دینی روایت میں اضافہ بھی فرمایا۔ آپؐ نے بتایا کہ حج کا درست طریقہ کیا ہے‘ نماز کیسے قائم کرنی ہے۔ نہ صرف بتایا بلکہ اسے صحابہ میں جاری فرما دیا۔ صحابہ نے بالجماعت اسے آنے والے نسلوں کو منتقل کر دیا۔ یہ سارا دین ہے اور اس کا ماخذصرف قرآن نہیں‘ وہ سنت بھی ہے جسے صحابہ نے اجماع کے ساتھ روایت کیا۔
نبیﷺ کی یہ حیثیت خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرما دی کہ آپ اس دین کی تبین اور شرح ووضاحت کریں گے۔ چنانچہ آپﷺ نے کبھی قول سے اس دین کے کسی پہلو کی وضاحت کی‘ کبھی عمل سے کی‘ کبھی کسی استفسار کے جواب میں کچھ ارشاد فرمایا۔ ان روایات کو امت نے بہت محنت کے ساتھ جمع کر دیا۔ اسے اجتماعی طور پر 'احادیث‘ کہا جاتا ہے جو اکثر اخبارِ آحاد ہیں۔ چونکہ اس عنوان سے رطب ویابس جمع ہو گیا تھا‘ اس لیے مستند باتوں کو الگ کرنے کے لیے مسلمانوں نے ایک عظیم الشان علم‘ علمِ حدیث کی بنیاد رکھی۔ جاوید صاحب نے اس مکمل بات کا خلاصہ ان لفاظ میں کیا: ''نبیﷺ نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں‘ وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
1۔ مستقل بالذات احکام وہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔
2۔ مستقل بالذات احکام وہدایات کی شرح ووضاحت‘ خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔ 3۔ ان احکام وہدایات پر عمل کا نمونہ۔
یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان انہیں ماننے اور ان پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبیﷺ سے ان کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہو جانے کے بعد کوئی صاحبِ ایمان ان سے انحراف کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اُس کیلئے زیبا یہی ہے کہ وہ اگر مسلمان کی حیثیت سے جینا اور مرنا چاہتا ہے تو بغیر کسی تردد کے ان کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ ہمارے علما ان تینوں کیلئے ایک ہی لفظ ''سنت‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں اسے موزوں نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک پہلی چیز کیلئے ''سنت‘‘ دوسری کیلئے ''تفہیم و تبیین‘‘ اور تیسری کیلئے ''اسوۂ حسنہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ اصل اور فرع کو ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی درجے میں رکھ دینے سے جو خلط مبحث پیدا ہوتا ہے اُسے دور کر دیا جائے۔ یہ محض اصطلاحات کا اختلاف ہے‘ ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میرے اور ائمہ سلف کے مؤقف میں سرمو کوئی فرق نہیں ہے‘‘ (مقامات)۔
کیا سرسید دین کو اسی طرح سمجھتے تھے؟ اہلِ علم اس کا جواب نفی میں دیں گے۔ اس بنیادی مقدمے کے حوالے سے ایک اہم سوال باقی ہے‘ کیا حدیث وسنت میں یہ فرق پہلی بار کیا گیا ہے؟ جاوید صاحب نے یہ دعویٰ کیوں کیا کہ ان کے اور ائمہ سلف کے مؤقف میں ذرا برابر فرق نہیں ہے؟ اس سوال کو میں ان شاء اللہ اگلے کالم میں زیرِ بحث لاؤں گا اور اس اصولی مؤقف کے اطلاقات پر بھی بات ہو گی۔