"KNC" (space) message & send to 7575

دارالعلوم حقانیہ کا سانحہ

مولانا حامد الحق کا قاتل کون ہے؟ کوئی فرد‘ گروہ یا نظریہ؟
ایک برس سے اکوڑہ خٹک جانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ برادرِ محترم مولانا راشد الحق صاحب سے وعدہ بھی کر لیا۔ خواہش یہ تھی کہ اس علمی ادارے سے براہ راست متعارف ہوا جائے۔ اس کے کام سے استفادے کی راہیں نکالی جائیں۔ مولانا عبدالحق جیسی عظیم الشان شخصیت کی نشانی یہ ادارہ‘ علمی سنجیدگی کے حوالے سے ایک شہرت رکھتا ہے۔ راشد الحق صاحب اس کے جریدے 'الحق‘ کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ وہ اس کے علمی معیار کو بلند سے بلند تر بنانے کے لیے کو شاں رہتے ہیں۔ گویا دلچسپی کے کئی پہلو تھے‘ جن کے باعث وہاں جانے کا اشتیاق تھا۔ یہ بات حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھی کہ دارالعلوم حقانیہ جانا تو ہوگا مگر مولانا حامد الحق کی تعزیت کے لیے۔
مولانا حامد الحق کی شہادت ایک بڑا سانحہ ہے۔ اس کا درد دارالعلوم کے احاطے اور خاندان ہی میں محسوس نہیں کیا گیا‘ اس کی لہریں اطراف واکناف میں بھی پھیلیں۔ دین سے محبت رکھنے والے اور فساد سے پریشان‘ ہر فرد نے اسے اپنا دکھ جانا۔ جو مولانا کو ذاتی طور پر جانتا تھا‘ وہ ان کی شخصی خوبیوں کی وجہ سے دکھی تھا کہ تواضع‘ اعتدال اور سادگی کی جن صفات کے کھو جانے کا ہم ماتم کرتے ہیں‘ ان کا ایک اور مظہر دنیا سے اٹھ گیا۔ اس شہادت کے جلو میں جو خدشات چلے آتے ہیں‘ وہ اس دکھ پر مستزاد ہیں۔ یہ خدشات اب ناگزیر ہے کہ دینی حلقوں میں زیرِ بحث آئیں تاکہ ہم آنے والے دنوں میں اپنے دینی اور علمی اثاثوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ ہم ایسے حادثات کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔
مولانا حامد الحق کا قاتل کون ہے؟ تحقیقاتی ادارے تو یہی بتا سکیں گے کہ فلاں ابن فلاں اس حادثے کا ذمہ دار ہے۔ مجھ جیسا ایک عام شہری‘ جو اس ملک کے حالات پر نظر رکھتا ہے‘ وہ اس حادثے کو ایک سلسلۂ واقعات کے پس منظر میں دیکھ رہا ہے۔ اس خطے میں ایک مقتل ہے جو عشروں سے آباد ہے۔ کوئی مسلک اور نقطۂ نظر ایسا نہیں ہے‘ جس کے نمائندہ لوگ یہاں قتل نہ ہوئے ہوں۔ اب تو انتہاپسند اور معتدل کا فرق بھی باقی نہیں رہا۔ ریاست کے حامی اور مخالف کی تقسیم بھی اب بے معنی ہو چکی۔ اگر کسی نے انتہا پسندانہ سوچ سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے بھی مار ڈالا گیا۔ سب مارے جا رہے ہیں۔ ان واقعات میں ایک پیٹرن ہے جو واضح ہے۔ جس کی نظر تاریخ کے اس عمل پر ہے‘ اس کے لیے یہ بات کچھ اہم نہیں کہ مولانا کا قاتل فلاں ابن فلاں ہے۔ فرد اس میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ محض ایک مہرہ ہے۔ مارنے والا کوئی اور ہے۔ ہم نے اسے تلاش کرنا ہے۔
مولا نا حسن جان اور ڈاکٹر فاروق خان سے لے کر مفتی شامزئی اور مولانا حامد الحق تک‘ سب کا قاتل کوئی ایک فرد نہیں‘ دین کی وہ انتہا پسندانہ تعبیر ہے جس نے مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا۔ اس میں عامی اور عالم میں فرق نہیں کیا جاتا۔ اس تعبیر نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اس کے آنے کے بعد چَین اور امن مسلم معاشروں سے روٹھ گیا۔ امریکہ اور برطانیہ میں کوئی ایک آدھ واقعہ ہوا مگر مسلم ممالک مسلسل حالتِ خوف میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ اس تعبیر نے افغانستان کو کھنڈرات میں بدلا اور اب غزہ کو ویرانہ بنا دیا۔ علم وہنرکا درواز ہ عالمِ اسلام پر بند ہو گیا۔ غیر مسلم اقوام پر ان کا معاشی اور فنی انحصار بڑھ گیا۔ دریوزہ گری ان کی پہچان قرار پائی۔ مسلمان دنیا کو متبادل کیا دیتے کہ اغیار کے خوشہ چیں بن کے رہ گئے۔
عالمی قوتوں نے اس تعبیرِ اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ امریکہ اور یورپی اقوام نے افغانستان میں اس کو سوویت یونین کے خلاف مفید پایا تو اس کی آبیاری کی۔ لوگ اب اس مقتل میں بھارت کے نقوشِ قدم بھی دیکھتے ہیں۔ یہ قابلِ فہم ہے۔ اسلحہ سازی ترقی یافتہ دنیا کی معاشی آسودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اگر مقتل اور میدانِ جنگ آباد رہتے ہیں تو اس میں ان کا فائدہ ہے۔ ساتھ ہی انہیں معلوم ہے کہ یہ انتہا پسندی ان کے داخلی استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے اپنی صفوں کو اس سے پاک رکھنے کے لیے‘ اس کے خلاف بھی مہم چلاتے ہیں۔ اگر یہ انتہا پسندی افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں پھیلتی ہے تو ان کو اس پر زیادہ تشویش نہیں ہوتی۔ پھر وہ طالبان کی حکومت کے خلاف ہوتے ہوئے بھی اس کی معاشی مدد کرتے ہیں اور شام میں انتہا پسندوں کو اقتدار دینے میں معاون بن جاتے ہیں۔
گویا عالمی قوتیں اس سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں مگر اس تعبیرِ دین کی خالق نہیں۔ اس نے ہمارے داخل میں جنم لیا۔ ہم نے خود اس کی آبیاری کی۔ ہمارے علما نے اسے مسلم معاشروں کا غالب فکر بنانے میں معاونت کی۔ ہمارے اہلِ صحافت نے انتہا پسند رجحانات کے علمبرداروں کو مسلم سماج کے لیے ہیرو بنا کر پیش کیا۔ ان کے گیت لکھے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ہمارے سیاسی راہنماؤں نے ان کو گلیمرائز کیا کہ دیکھو انہوں نے کیسے غلامی کی زنجیروں کو توڑا ہے۔ اس لیے یہ کوئی سازش یا کسی دشمن کا منصوبہ نہیں‘ یہ ہماری اپنی پیشکش ہے جس کا فائدہ دوسروں نے بھی حسبِ توفیق اٹھایا ہے۔
اگر یہ مقدمہ مان لیا جائے تو پھر ان علما کا قاتل کون ہے جو انتہا پسندانہ گروہوں کے مقدمے کو دینی استدلال فراہم کرتے رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی اسی مقدمے میں ہے۔ ہر انتہا پسندگروہ میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ایک وقت کے بعد انتہا پسندی سے نجات کے طالب ہوتے ہیں۔ وہ جب بچشمِ سر ایسے نظریات کے تباہ کن نتائج دیکھتے ہیں تو اس سوچ سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی وہ اس کا اظہار کرتے ہیں‘ انتہا پسند حلقے انہیں غدار قرار دے دیتے ہیں۔ غدار کی سزا ہر طبقے میں موت ہے۔ انتہا پسندانہ گروہوں میں واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔ جیسے ہی کوئی اس کا ارادہ کرتا ہے‘ اپنے گروہ کے لیے ناقابلِ قبول ہو جاتا ہے۔ اس کا تعلق صرف مذہبی انتہا پسندی سے نہیں‘ ہر طرح کی انتہا پسندی سے ہے۔ یاسر عرفات نے بھی جب اس سے رجوع کیا تو انقلابیوں کی نظر میں غدار قرار پائے۔
آج لازم ہے کہ سب مل کر اس تعبیرِ دین سے اعلانِ برأت کریں جو مسلمانوں اور عام شہریوں کے قتل کو بھی جائز سمجھتی اور ان کی تکفیر کرتی ہے۔ اگر دارالعلوم حقانیہ اس کی لپیٹ میں آیا ہے تو یہ اشارہ ہے کہ اس تعبیرِ اسلام کے ہاتھوں اب کوئی محفوظ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن پر کئی خودکش حملے ہوئے۔ موت انہیں چھو کر گزر گئی۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ورنہ شہدا کی فہرست میں آج ان کا نام بھی شامل ہوتا۔ آج علما کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلک پسندی ا ور گروہ بندی کے دائروں سے نکل کر اس تعبیرِ دین کے خلاف اجماع پیدا کریں جس کے نزدیک مولاناحسن جان‘ ڈاکٹر فاروق خان اور مولانا حا مد الحق یکساں طور پر مباح الدم تھے۔
مولانا حامد الحق یہ چاہتے تھے کہ دارالعلوم حقانیہ اس پیکرِخیال سے باہر آئے جو لوگوں نے اس کے لیے تراشا ہے۔ اس خواہش کی مگر ایک قیمت ہے جو انہیں دینا پڑی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اس ادارے کو ایک پھر علم وادب کا ایسا مرکز بنائے جہاں لوگ بے خوف وخطر قرآن مجید‘ حدیث اور فقہ پڑھنے کے لیے آئیں اور ہمارے اسلاف کی علمی روایت محفوظ رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں