"KNC" (space) message & send to 7575

صدیق الفاروق کی کہانی

صدیق الفاروق نے بھی آج مٹی کی چادر اوڑھ لی۔ ایک منفرد مگر اداس کر دینے والی داستان کا آخری باب مکمل ہوا۔
صدیق الفاروق کی کہانی ایک ایسے عام آدمی کی سرگزشت ہے جو سیاست کی وادی میں‘ یہ سوچ کر آ نکلا کہ یہاں کہی گئی بات قولِ صادق ہوتی ہے اور اس نگری میں خوابوں کو تعبیر ملتی ہے۔ اسے تعبیر کیا ملتی کہ اس شہر میں اس کے خواب ہی کھو گئے۔ وہ اس دنیا کا بن سکا اور نہ اپنی دنیا ہی میں لوٹ سکا۔ وہ یہ نہیں جان پایا کہ یہ اہلِ سرمایہ کی بستی ہے جہاں عام آدمی ہمیشہ اجنبی رہتا ہے۔ شطرنج کے کھیل کا ایک پیادہ‘ جو بادشاہ کی حفاظت کرتے ہوئے خود کو قربان کر دے۔ یہ ایک ایسے دیہاتی کی کہانی ہے جو شہر کی چکا چوند میں آ نکلا اور اور پھر اس روشنی نے اسے نگل لیا۔
صدیق الفاروق کے ساتھ میرا تعلق کم و بیش چار دہائیوں پر محیط تھا۔ اس کی اساس نظریاتی تھی۔ پھر یہ تعلق ہمہ جہتی ہو گیا۔ مجھے خامہ فرسائی کا شوق تو تھا مگر مروجہ معنوں میں صحافی بننے کا خیال کبھی دل میں نہیں آیا۔ جن کو پڑھ کر لکھنے کی خواہش جاگی‘ ان میں سے بعض کو صحافی کہا جا سکتا ہے مگر ان کا اصل تعارف علم و ادب ہے۔ تب صحافت ادیبوں اور عالموں کا پیشہ تھا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جب پاسپورٹ بنوایا تو پیشے کے خانے میں 'صحافی‘ لکھا۔ میں بھی یہی خیال کرتا تھا کہ صحافی ابوالکلام و ابو الاعلیٰ اور 'دبستانِ شبلی‘ کے اکابر کا نام ہے۔ اس لیے اس پیشے کے فنی پہلوؤں کی طرف رغبت نہ ہو سکی۔ اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا اور اس عہد میں دبستانِ شبلی کی نمائندہ شخصیت جاوید احمد غامدی صاحب کے علم و فضل سے براہِ راست استفادے کا موقع مل گیا۔ میں نے 'اشراق‘ جیسے علمی جریدے کے لیے لکھنا شروع کیا۔ یہی دور تھا جب مجیب الرحمن شامی صاحب کے دستِ شفقت نے ہاتھ تھاما تو ہفت روزہ 'زندگی‘ میں بھی کالم لکھنے لگا۔ ان دنوں میرا قیام لاہور میں تھا۔ اپنے شہر راولپنڈی لوٹا تو صدیق الفاروق نے ایک روزنامے میں کالم نگاری کے لیے اصرا ر کیا جس کے مالک و مدیر سے ان کی دوستی تھی۔ کالم نگاری کا آغاز کیا تو اسی اخبار کا ادارتی مدیر بنا دیا گیا۔ یوں میں نے پہلی بار اخبار کے اندر جھانکا اور اس کے خدو خال کو قریب سے دیکھا۔ یہ صدیق الفاروق ہی تھا جس نے پھر مجھے وزیراعظم کا تقریر نگار بنوا دیا۔اس تمام عرصہ میں نے اس کو قریب سے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک عام آدمی جب اقتدار کی سیاست میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہتا ہے تو اسے کتنی مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ برس ہا برس‘ شب و روز کی محنت کے بعد اسے جو کچھ ملتا ہے‘ اس کو پانے کے بعد‘ وہ زبانِ حال سے یہی کہتا سنائی دیتا ہے:
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
جمہوریت کا یہ نظام سر مایہ داری کی عطا ہے۔ اس میں سرمائے کا ایک خاص کردار ہے۔ سرمایہ داری نے جو سیاسی کلچر دیا ہے‘ اس کے اجزائے ترکیبی میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ یہ جماعتیں اپنی تنظیم اور عوام میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے سرمایے کی محتاج ہوتی ہیں۔ اس طرح ان جماعتوں میں وہی لوگ قیادت کے منصب پر فائز ہو سکتے اور نتیجتاً اقتدار تک پہنچتے ہیں جو صاحبِ سرمایہ ہوں۔ جمہوریت جب جاگیر دارانہ پس منظر میں آگے بڑھتی ہے‘ جیسے ہمارے ہاں ہے تو اس سے ایک سیاسی اشرافیہ پیدا ہوتی ہے‘ اقتدار جس کے دائرے سے کبھی نکل نہیں سکتا۔
جمہوریت کو سرمایے کی گھٹن سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ کہیں کامیاب‘ کہیں ناکام۔ بھارت جیسے معاشرے میں جہاں جاگیردارانہ نظام نہیں ہے‘ وہاں جمہوریت کا ثمر کبھی کبھی عام آدمی کے دامن میں بھی آ گرتا ہے مگر بالعموم اس کو سرمایہ دارانہ فضا ہی سازگار ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جمہوریت میں عام آدمی کی رائے سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کسے اقتدار کے مسند پر بیٹھنا ہے۔ یہ عام آدمی‘ اس کے لیے ایک سیاسی اشرافیہ ہی میں سے انتخاب کا پابند ہوتا ہے۔ عام آدمی خود اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا۔ صدیق الفاروق اس بات کو سمجھ نہیں سکا۔ اس نے گمان کیا کہ اس منڈی میں دیانت‘ محنت اور وفاداری جیسے اوصاف کی بھی قیمت لگتی ہے۔ اس نے اپنی جماعت اور اس کی قیادت کے ساتھ وفاداری کی حد کر دی۔ اپنی جان پر کھیل گیا۔ مشرف دور میں حکومت اسے جیل میں بند کر کے اس کے وجود ہی سے منکر ہو گئی۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم کے تاریخی الفاظ سب نے سنے کہ 'ہم اسے ڈمپ(dump) کر کے بھول گئے‘۔ پھر ایک رات اچانک اسے ہزارہ کے جنگلات میں چھوڑ دیا گیا۔ انسانوں کے بعد درندوں سے بچتا بچاتا وہ آبادی تک اور پھر گھر پہنچا۔ سمندر سے اسے جو شبنم ملی‘ اس کا آخری مظہر متروکہ املاک بورڈ کی چیئرمینی تھا۔ یہ بھی اسی اشرافیہ کے ایک عدالتی نمائندے کے ہاتھوں چھین لی گئی۔
پارٹی کے ساتھ وفاداری بشرطِ استواری بس اسی کام آ سکی۔ صدیق الفاروق کی خواہش رہی کہ پارٹی اسے انتخابات میں اپنے ٹکٹ سے نوازے۔ اس خواہش کو پورا ہونا تھا‘ نہ ہوئی۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ انتخابات سرمایے کا کھیل ہیں۔ اس کھیل میں اس کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ وہ اپنی سادہ لوحی میں مگر توقعات وابستہ کر بیٹھا۔ مایوس ہوا مگر شجر سے کسی بہار کی امید میں پیوستہ رہا جو اس کے مقدر میں نہ تھی۔ ایک بار پھر پارٹی کی حکومت بنی مگر کسی کی نگاہ اس پر نہیں پڑی۔ حال یہ ہوا کہ ایک وفاقی وزیر سے اس نے بارہا ملنے کی کوشش کی مگر ملاقات تو درکنار‘ اس کا فون بھی نہیں سنا گیا۔ اس نے مگر سرِ عام شکوہ نہیں کیا۔ قدرت بھی اس پر مہربان نہیں رہی۔ 26 برس کا جوان بیٹا ایک دن اچانک چل بسا۔ دوسرے کو بیماری نے آ لیا۔ اس کی معیشت ڈگمگاتی رہی اور آخری وار ایک جان لیوا بیماری نے کیا۔ پارٹی قیادت نے اس سارے عرصے میں کسی رابطے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ احسن اقبال صاحب اور عرفان صدیقی صاحب ملنے گئے۔ شاید اس لیے کہ ان کا تعلق طبقۂ اشرافیہ سے نہیں ہے۔ مولانا آزاد نے عربوں کی بات اہلِ ہند کو پہلی بار سنائی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ خاکسار نے کبھی گرہ لگائی تھی کہ اس کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاست ایسی ہی ہوتی ہے۔ بے حس اور مفاد پر مرتکز۔ اس میں اگر کوئی سرمایے کے بغیر داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام صدیق الفاروق جیسا ہوگا۔ فرزندِ راولپنڈی جیسے کسی عام آدمی نے سیاست میں جگہ بنائی تو اس لیے کہ اس نے پہلے دن سے اس راز کو پا لیا تھا۔ اس کی مسلسل توجہ معاشی استحکام پر رہی۔ سعد رفیق نے مجھے بتایا کہ جیل جاکر اس نے اس راز کو سمجھا اور پھر ساری توجہ اس پر صرف کر دی۔ یہاں تک کہ سرمایہ داروں کے لطف و کرم سے بے نیاز ہو گیا۔ اب وہ پارٹی میں بیٹھ کر بے خوف تنقید کر سکتا ہے۔ سرمایہ کی سیاست کو انسانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ قدرت سرمایہ اور صلاحیت ایک ساتھ کم ہی ارزاں کرتی ہے۔ وہ صلاحیت سے استفادہ کرتی ہے اور محنت کا معاوضہ بھی دیتی ہے مگر بقدرِ اشکِ بلبل۔ صدیق الفاروق کی سرگزشت ہر اس عام آدمی کے لیے باعثِ عبرت ہے جو اقتدار کی سیاست میں آنے کا خواب دیکھتا ہے۔ عام آدمی کو کامیابی کے لیے پہلے خاص آدمی بننا پڑتا ہے۔
یہ اس عارضی زندگی کی کہانی ہے۔ اصل زندگی مگر وہ ہے جو صدیق الفاروق کے لیے آج سے شروع ہوئی ہے۔ وہ اس بات سے باخبر تھا۔ آخری وقت تک اپنے رب سے وابستہ رہا۔ نئی زندگی میں صرف ایک سرمایہ کام آنے والا ہے اور وہ ہے نیکی۔ اللہ تعالیٰ صدیق الفاروق کی نیکیوں کو قبول کرے۔ اس کی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور اسے اپنی مغفرت سے نوازا۔ بلاشبہ کامیاب وہی ہے جو اس کی بخشش کا مستحق ٹھہرا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں