نئے سال کا آغاز ہے۔ یہ پیش گوئیوں کا موسم ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں دست شناسی‘ علمِ جفر اور اس طرز کے دیگر 'علوم‘ کے ماہرین‘ آنے والے دنوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ ایسے حضرات بھی پیش گوئیاں فرما رہے ہیں جن کی عمومی شہرت ایک صوفی کی ہے۔ کیا تصوف کا پیش گوئیوں سے کوئی خاص تعلق ہے؟
تصوف جب زیرِ بحث آتا ہے یا یوں کہیے کہ زیرِ تنقید آتا ہے تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ اخلاص فی العمل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ظاہری اعمال اور باطنی کیفیت کو ہم آہنگ بنانے کا نام ہے۔ یہ اطاعت کو احسان کے درجے تک پہنچانا ہے۔ اس کا پیش گوئیوں سے کوئی تعلق نہیں کہ یہ غیب کی خبر دینے کا علم نہیں ہے۔ اس سے قطع نظر کہ تصوف کیا ہے اور اس کی تعریف کا حق کسے ہے‘ سوال یہ ہے کہ صوفی دست شناسوں کی طرح پیش گوئی کے لیے کیوں بلائے جاتے ہیں؟ وہ ان پروگراموں میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟ وہ میزبان سے معذرت کیوں نہیں کرتے کہ یہ کسی صوفی کا میدان نہیں۔ آپ کسی علمِ جفر وغیرہ کے ماہر کو بلائیے۔ وہ ان پروگراموں میں نہ صرف شریک ہوتے بلکہ پیش گوئیاں بھی فرماتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
یہ تضاد نہیں ہے۔ تصوف کی دنیا یہی ہے۔ اہلِ تصوف جب فلسفے کی وادی سے نکل کر مذہب کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ایک ایسا بیانیہ ان کی ضرورت ہوتا ہے جو مذہب کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اہلِ مذہب انہیں مسترد کر دیں۔ اب وہ بتاتے ہیں کہ ایک مذہب وہ ہے جو عامۃ الناس کا ہے۔ ایک وہ ہے جو خواص کا ہے۔ شیخ الاسلام ابو اسماعیل الہروی تصوف کی بنیادی کتاب 'منازل السائرین‘ میں توحید کے تین درجے بیان کرتے ہیں۔ ایک عوام کی توحید۔ ایک خواص کی اور پھر ایک اخص الخواص کی۔ عوام کی توحید وہ ہے جو سورۃ اخلاص میں بیان ہو گئی۔ جب وہ عوام کے لیے دین کو بیان کریں گے تو یہی کچھ بتائیں گے۔ خواص کے لیے وہ الگ کتابیں لکھیں گے اور ان میں پھر وہ خواص کی باتیں کریں گے۔ اس کی بہت عمدہ مثال شاہ ولی اللہ ہیں۔ 'حجۃ اللہ البالغہ‘ میں انہوں نے دین بیان کیا ہے۔ 'فیوض الحرمین ‘، 'انفاس العارفین‘ اور دوسری کتابوں میں تصوف۔ جو آدمی اس فرق کو سمجھتا ہے‘ اسے یہ تضاد محسوس نہیں ہوتا۔
ٹی وی میزبان کو اپنا شو دلچسپ بنانا ہے۔ یہ کام قیافہ شناس کرے یا صوفی‘ اسے تو پروگرام کی کامیابی سے مطلب ہے۔ ان میں سے بعض البتہ ایسے بھی ہیں جن کے انداز سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صوفی کو اللہ والا سمجھتے ہیں اور اللہ والا ان کے خیال میں وہی ہے جو ہمیں ایسی خبریں دے سکتا ہے جن کا تعلق مستقبل سے ہے۔ وہ اس کو روحانیت سے جوڑتا ہے جو اس کے خیال میں‘ مذہب میں کوئی اعلیٰ درجہ ہوتا ہے۔ ایسا میزبان مودب ہو کر ان سے سوال کرے گا: کیا 2025ء میں عمران خان رہا ہو جائیں گے؟ کیا بلاول وزیراعظم بن جائیں گے؟ صوفی جواباً یہ نہیں کہتا کہ وہ آنے والے واقعات سے اتنا ہی بے خبر ہے جتنا سائل۔ وہ زیرِ لب مسکراتا ہے اور ایک ذومعنی سا جواب دیتا ہے۔ وہ یہ تاثر دیتا ہے کہ جانتا وہ سب کچھ ہے‘ کسی حکمت کے سبب وہ کھل کر بات نہیں کر رہا۔ بعض کھل کر بھی بات کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں یہ ہو گا‘ یہ نہیں ہو گا۔
یہ گفتگو اگر مذہبی حوالے کے بغیر ہو تو دلچسپ ہو سکتی ہے۔ ستاروں کی چال یا دست شناسی کے ماہرین ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے اور فنون بھی ہوں گے۔ جب یہ لوگ کوئی پیش گوئی کرتے ہیں تو ان کی معلومات کا ماخذ مذہب نہیں ہوتا۔ اس لیے الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا۔ مسئلہ تب پیچیدہ ہوتا ہے جب اسے قربِ الٰہی کے ایک مظہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گویا انسان عبادت اور ریاضت کے سبب اس درجے پر فائز ہو جاتا ہے کہ غیب کی خبریں لا سکتا ہے۔ معاشرے میں عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ اہلِ تصوف اللہ والے ہوتے ہیں جو مستقبل کے پردے میں جھانک سکتے ہیں۔
یہ اہلِ تصوف اگر فی الواقع یہی سمجھتے ہیں کہ تصوف صرف اخلاص فی العمل ہے تو پھر انہیں چاہیے کہ ایسے پروگراموں میں شریک نہ ہوں جہاں ان سے غیب کی خبریں معلوم کی جاتی ہیں۔ وہ زبانِ حال سے لوگوں کو بتائیں کہ یہ تصوف کا میدان نہیں ہے۔ مجھ سے آپ یہ پوچھیں کہ اخلاص فی العمل کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟ اس کی اعلیٰ ترین مثال صحابہ کرام ہیں۔ ان کے عمل میں اخلاص کیسے آیا کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ صوفی ایسا نہیں کرتے۔ اس کی وجہ میں نے بیان کر دی ہے۔ اگر ایسا کریں تو رجال الغیب جیسے تصورات بے معنی ہو جائیں۔ پھر صوفی‘ داعی اور عالم ہم معنی ہو جائیں اور ان کا امتیاز ختم ہو جائے۔
پروگرام کے میزبانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ستاروں اور دین کے علم کو خلط ملط نہ ہونے دیں۔ دین نے اپنے موضوع کے حوالے سے آنے والے دنوں کی جو خبریں دینا تھیں‘ وہ دے دیں۔ یہ قرآن مجید میں بیان ہو گئیں اور نبیﷺ نے بھی بتا دیں۔ مثال کے طور پر یہ خبر دے دی گئی کہ سیدنا محمدﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اب قیامت تک انسانیت کسی پیغمبر کا انتظار نہ کرے۔ یا یہ کہ قیامت برپا ہو گی اور سب انسانوں کو ایک دن خدا کے حضور میں جوابدہی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اس قیامت کی بعض نشانیاں بھی بتا دی گئیں۔ اب بلاول بھٹو صاحب وزیراعظم بنیں گے یا نہیں‘ یہ دین کا موضوع نہیں۔
اسی طرح اس دنیا اور آخرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنن قرآن مجید میں بیان کر دی ہیں یا عقلِ عام کے ذریعے سمجھا دی ہیں۔ اس نے بتا دیا ہے کہ جو محنت کرے گا‘ لازماً اس کا پھل پائے گا۔ معیشت اور دنیا کے لیے محنت کرے گا تو صلہ پائے گا‘ آخرت کے لیے کرے گا تو اس کا اجر پائے گا۔ دونوں کے باب میں اٹل قوانین ہیں اور یہی سننِ الٰہی ہیں۔ اگر یہ بات پیشِ نظر ہو تو ہمیں قوموں کے عروج و زوال کا راز معلوم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے جفر کے ماہر یا دست شناس سے رجوع کی ضرورت نہیں رہتی۔
ٹی وی‘ سوشل میڈیا‘ ابلاغ کے جدید ذرائع ہیں۔ سوشل میڈیا تو بے مہار ہے مگر الیکٹرانک میڈیا ایک ضابطے کا پابند ہے۔ اس میڈیا پر مذہب‘ تفریح اور سیاست کا فرق واضح رہنا چاہیے۔ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کوئی بات بغیر تحقیق کے لوگوں تک نہ جائے۔ دست شناسی کی بات ہو رہی ہے تو عوام کو معلوم ہو کہ اس کی حدود کیا ہیں۔ کوئی مذہبی موضوع زیرِ بحث ہو تو بھی مصدقہ بات کی جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ رویہ سیاست میں بھی روا رکھا جائے۔ لوگوں تک وہی بات پہنچے جو تحقیق کی چھلنی سے گزر کر آئے۔ عوام کے شعوری سطح میں اضافہ ہو اور وہ مذہب و سیاست میں غلط اور صحیح کی تمیز کر سکیں۔
عوام کا معاملہ بھی مگر بڑا عجیب ہے۔ جو خبریں مخبرِ صادق نے دی ہیں‘ ان پر توجہ نہیں۔ وہ ان سے مستقبل کی خبریں جاننا چاہتے ہیں جنہیں اپنے کل کی بھی خبر نہیں۔ موت یقینی ہے۔ قیامت شدنی ہے۔ ہمیں ان خبروں پر مگر شک ہے۔ اسی لیے ان کے لیے کوئی تیاری نہیں۔ ہاں کوئی یہ کہہ دے کہ اگلے سال قحط پڑنے والا ہے تو ہم آج ہی سے غلہ جمع کرنا شروع کر دیں گے۔ انسا ن کتنا بے توفیق ہے۔