"SBA" (space) message & send to 7575

2025ء کا پہلا فضول کالم

نیا سال عوام کے لیے فیضِ عام کا سال ہو گا یا پچھلے سال کی طرح فضول‘ اسے ہم نہیں طے کرتے بلکہ آپ پر چھوڑ کر مثبت نوٹ کے ساتھ فیضِ عام سے بات شروع کرتے ہیں۔ جو فیض پائے وہ اپنے مقامی حالات کے مطابق شکریہ اور مبارکباد نہیں بھولتا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو 2025ء کی اُڑان کی ابتدا میں وزارتِ پٹرولیم کے بعض نجومیوں کی بھی مبارک باد بنتی ہے‘ جو گزرے سال کے آخری ہفتے اور نئے سال کے پہلے ہفتے اکثر مین سٹریم نشریاتی سکرینوں پر چھائے رہے۔ ان کی غیبی خبروں‘ عمران خان کے مستقبل‘ مغرب کی بربادی اور پاکستان کے مقتدر حلقوں کی مسلسل ترقی جیسے نادر الخیال موضوعات نے نئی نسل کو سینکڑوں گھنٹے مستفید کیا۔ نئے حالات میں پرانا لطیفہ یاد آیا۔ جب شوہر ڈیوٹی سے واپس آ کر گلی کی نکڑ پر پہنچا تو اُسے 440 والٹ کا جھٹکا لگا۔ اُس کے گھر کے دروازے پر ایک مشٹنڈے نے خاتونِ خانہ کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔ غصے میں شوہر کو اور کچھ نہیں سوجھ سکا‘ اُس نے اپنا چپل اُتارا‘ دائیں ہاتھ میں لیا اورمشٹنڈے کے سر پہ پہنچ گیا اور جاتے ہی پاپوش باری شروع کر دی۔ خاتون اندر چلی گئی اور محلے والے اکٹھے ہو گئے۔ مار کھانے والا خبرکارچیخ رہا تھا‘ میں بے گناہ‘ بے قصور ہوں‘ میری کوئی غلطی نہیں۔ میں بس خاتونِ خانہ کو ستاروں کی چال اور آنے والے حالات بتا رہا تھا۔ اردگرد لوگ خاموش کھڑے تھے مگر ایک ننھا بچہ آگے بڑھا اور کہنے لگا: انکل آپ کو آنٹی کے خاوند کی چال کی سمجھ نہیں آئی اور نہ ہی آپ اپنی طرف آنے والے جوتے کا حال جان سکے‘ ایسے میں آپ آنٹی کوآنے والے حال چال کے بارے میں کیا بتا رہے تھے؟ انہی نجومیوں سے متاثر ہو کر گزشتہ دو روز سے سرکار کے خرچے پر ترقی یافتہ دانشور موج میلہ کرنے کے ساتھ ساتھ چیخ چیخ کر مقتدر حلقوں کے دل کی باتیں نشر کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے‘ عمران خان کو ڈیل نہیں مل سکتی۔ کوئی کہتا ہے‘ قیدی نمبر 804 سے کوئی گفتگو نہیں ہو رہی۔ کچھ دوسرے بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں‘ یہی کہ عمران خان جیل سے باہر نکل ہی نہیں سکے گا۔ لوگ حیران ہیں کہ اگر کچھ ہو ہی نہیں رہا تو پھر پریشانی کیسی اور ہذیان کیونکر؟
چلئے خبریاتی اور نشریاتی دونوں نجومیوں کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں۔ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بلوچستان کے پولیس ملازمین کی وائرل وڈیو سامنے ہے۔ رات گئے چوک میں آگ تاپتے ہوئے باوردی اہلکار باری باری کہتے ہیں: اُووووں‘ اُووووں پھر اُووووں۔ ترقی یافتہ حکمرانو! آٹا مہنگا ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم شہباز شریف کے ترقی کرنے والے فارمولے کے تحت احتجاج کی آواز بلند کر رہے ہیں‘ اُووووں‘ ہماری تنخواہیں کم ہیں۔ واقعی سیانے عربوں نے صحیح کہا تھا: النّاسُ عَلیٰ دِینِ مُلوکِھِم۔ لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے پر چلتے ہیں۔ لیکن انڈسٹریل جاپان کی ترقی کے فارمولے کی تصدیق جاپان کے شہنشاہ ہز ہائی نیس جنابِ Emperor Naruhito ہی کر سکتے ہیں‘ کہ جاپانیوں نے ایٹم بم بنانے کے بجائے ایٹم بم کھانے کے بعد سابق شہنشاہ Hirohito کے جاپان کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے شب وروز میں روزانہ کتنے گھنٹے اُووووں کر کے گزارے؟
فارم 47 رجیم کے وزیراعظم نے قوم کو معاشی ترقی کا جو 'اُوووں فارمولا‘ بتایا اُس کے غیر حتمی ابتدائی نتائج دبئی سے لیک ہونے والی خبر میں سامنے آئے۔ اس تازہ انکشاف کی تفصیل کے مطابق دسمبر 2024ء کے آخری 25 دنوں میں پاکستانیوں نے صرف دبئی میں ایک ارب ڈالرز کی جائیدادیں خریدی ہیں۔ وجہ صرف ترقی کا اُووووں فارمولا ہے۔ جس ملک میں رُول آف لاء کے بجائے رُول آف پرسنل لاء یا مارشل لاء وجہ حکمرانی بن جائے اور نظام انصاف عام لوگوں کو ریلیف دینے کے قابل نہ رہے۔ پھر چاہے کسی نام پہ حکومت چلائی جائے‘ وہاں پکڑ دھکڑ‘ مارا ماری اور ٹیکسیشن بمباری‘ کاروباری ماحول کو لبنان بنا کر رکھ دیتی ہے۔ وہ طرزِ حکمرانی جس میں ایک سال کے اندر 1.60ارب ڈالر آئی ٹی اور انٹرنیٹ کی بربادی والا غصہ نکالنے سے ہاتھ سے نکل جائیں‘ وہاں خوشامد اور چاپلوسی کے علاوہ دوسرا کوئی مشورہ بھی دینا فضول ہے۔
اب آئیے 2025ء کے پہلے فضول کالم میں ایک انتہائی فضول کہانی کی طرف‘ جو دنیا کے سب سے طاقتور ملک اور سب سے مضبوط اکانومی کی تاریخ کے غریب ترین صدر کے بارے میں ہے‘ جو ایک رن ڈاؤن گھر میں رہتا تھا اور اکثر ٹائون کی سپر مارکیٹ سے رعایتی اشیا خریدتادکھائی دیتا رہا۔یہ اُس واحد امریکی صدر کی داستانِ حیات ہے جس کے گھر کی حویلی تھی نہ دیوار۔ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد صدر اور اُن کی اہلیہ صرف ایک لاکھ 67 ہزار ڈالر کی مالیت کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ اس جوڑے کا سارا فرنیچر دراصل پرانا سامان تھا جو صدر کے والدین سے اُسے ورثہ میں منتقل ہوا۔ اس لیے صدارتی جوڑے کو تقریباً ہر مہینے گھر کی چیزیں خود ٹھیک کرنا پڑتی تھیں۔ اس صدر کا معیارِ زندگی شاید زیادہ تر ہم وطن لوگوں سے بدتر اور گیا گزرا تھا۔
صدر کی آمدنی کا واحد ذریعہ صرف دو لاکھ 17 ہزار ڈالر سالانہ صدارتی پنشن تھی۔ اس صدر نے نجی جیٹ طیاروں کا کبھی استعمال نہیں کیا بلکہ ہوائی سفر کے لیے ہمیشہ اکانومی کلاس میں فلائی کرتا رہا۔ اپنے بڑھاپے میں بھی وہ طیارے پر سوار ہونے کے لیے قطار میں جا کھڑا ہوتا۔صدارتی عہدے کی وجہ سے کبھی ہسپتال میں خاص علاج نہیں کروایا۔ یہ صدر عشروںتک سیکنڈ ہینڈ فورڈ ٹورس چلاتا رہا‘ ایک ایسی کار جو 25 سال سے زیادہ پرانی تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے امریکہ کی صدارت اور ایسی فضول عادتیں رکھنے والے ''غریب الدماغ‘‘ صدر کا سارا پیسہ کہاں گیا؟ اس سوال کاجواب یہ ہے کہ جمی کارٹر نے آبائی علاقے میں ''کارٹر سنٹر‘‘ کی بنیاد رکھی اور دو خطرناک بیماریوں River blindness اور Guinea ورم سے لڑنے کے لیے ہر سال 30 ملین ڈالر خرچ کیا۔ اس نے رندا‘ کرنڈی‘ بیلچہ اور ہتھوڑا پکڑ کر کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے درجنوں گھر بنانے میں اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کی۔ اپنی تقریروں کے ذریعے جو بھاری کمائی آتی وہ بھی جمی کارٹر ذاتی طور پر کم آمدنی والے لوگوں کے لیے گھروں کی تعمیر میں لگا دیتے۔ 100 سال کی طویل عمر کے آخری سانس تک صدر جمی کارٹر نے یہ طرزِ زندگی نہیں بدلا۔ اُنہیں دیگر کئی اداروں سے بھی خدمات کے عوض لاکھوں ڈالر ملتے رہے‘ جو جمی کارٹر گھر لانے کے بجائے خیراتی اداروں میں عطیہ دیتے چلے گئے۔ 29 دسمبر 2024ء کو یہ سابق صدر Georgia میں اپنے گھر میں انتقال کر گئے۔
سالِ نو کی سب سے بڑی خبر سنیے: چیئرمین PTA ریٹائرڈ جنرل حفیظ الرحمن نے پارلیمانی کمیٹی کو یہ راز بتایا کہ آج پتا چلا کہ انٹرنیٹ کی بندش غلط ہوتی ہے۔ امید ہے اس سال یہ بھی پتا چل جائے گا پبلک سرونٹس کی سیاست میں مداخلت بھی غلط ہوتی ہے۔
قوم کے پاس اب رہا کیا ہے؟
شاعرانہ تعلّیوں کے سوا
ہیں معالج! مگر دوا کیا دیں
جانکنی میں تسلیوں کے سوا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں