"AIZ" (space) message & send to 7575

رزقِ حلال

اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان فراخ رزق کا متمنی ہوتا ہے تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حلال اور حرام کی پروا کیے بغیر زیادہ سے زیادہ رزق جمع کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔ البتہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو رزق کی تلاش کرتے ہوئے حلال وحرام کا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت اور فضل کے طلبگار ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ زمین پر پائی جانے والی ہر مخلوق کا رزق اللہ ہی کے ذمے ہے۔ سورۂ ہودکی آیت: 6 میں ارشاد ہوا ''زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ ہی کے ذمے ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین کی جملہ مخلوقات کا رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذمے ہے۔ سورۃ العنکبوت میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ وہ معبودانِ باطل جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے‘ وہ انسانوں کے رزق کے مالک نہیں۔ سورۃ العنکبوت کی آیت: 17 میں ارشاد ہوا ''سنو! جن جن کی تم اللہ کے سوا پوجا پاٹ کرتے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں‘ پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جائو گے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت: 3 میں حرام کھانوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن یہ کہ اسے تم ذبح کر ڈالو تو وہ حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ جوئے کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو‘ یہ سب بدترین گناہ ہیں‘‘۔ اس آیت میں جن حرام اشیاء کا ذکر ہوا ہے وہ ذاتی حیثیت میں حرام ہیں لیکن اگر کوئی شخص حرام ذرائع سے کماتا ہے تو جو اشیا ظاہراً حلال ہے وہ بھی کھانے والے کے لیے حرام ہی ہوں گی۔مثلاً اگر ایک شخص کم تولنے‘کم ماپنے یا لوگوں کو دھوکا دے کر پیسے کمانے کے بعد مرغی‘ بکرا یا کوئی حلال جانور یا سبزی اور پھل خرید کر اپنے گھر لے جائے تو وہ چیزیں حلال ہونے کے باوجود اس کے لیے حرام ہی رہیں گی کیونکہ ان کی کمائی کا ذریعہ ناجائز تھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کو حرام ذرائع سے کمائے جانے والا رزق انتہائی ناپسند ہے۔ قرآن مجید میں ایک ایسی قوم کا ذکر ہوا جس پر اللہ کا غضب محض اس لیے نازل ہوا کہ انہوں نے حلال وحرام کے مسائل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو نظر انداز کر دیا تھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام قومِ مدین کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے جہاں ان کو توحید کی دعوت دی وہیں ان کو کاروباری معاملات کی اصلاح کی بھی دعوت دیتے رہے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات پر قوم شعیب اور ان پر آنے والے عذاب کا ذکر ہوا۔ سورۂ ہود کی آیات: 84 تا 95 میں اُن کا ذکر کچھ یوں ہوا:
''اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا‘ انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں کمی نہ کرو‘ میں تو تمہیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو‘ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچائو۔ اللہ کا حلال کردہ رزق جو بچ رہے تمہارے لیے وہ بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو‘ اور میں تم پر کچھ نگہبان نہیں ہوں۔ ان کی قوم نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں‘ اس کا تصرف بھی چھوڑ دیں تُو تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے۔ (شعیب نے) کہا: اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لیے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے‘ میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہیں اس کے خلاف کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جائوں جس سے تمہیں روک رہا ہوں‘ میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے‘ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ اور اے میری قوم (کے لوگو!) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قومِ نوح اور قومِ ہود اور قومِ صالح پر اترے ہیں۔ اور قومِ لوط تو تم سے کچھ دور نہیں۔ تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو‘ یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم تو تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں‘ اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تو تجھے سنگسار کر دیتے‘ اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں شمار کرتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! کیا تمہارے نزدیک میرے قبیلے کے لوگ اللہ سے بھی زیادہ ذی عزت ہیں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یقینا جو کچھ تم کر رہے ہو میرا رب اس سب کو گھیرے ہوئے ہے۔ اے میری قوم کے لوگو! اب تم اپنی جگہ عمل کیے جائو‘ میں بھی عمل کر رہا ہوں‘ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کے پاس وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے اور کون ہے جو جھوٹا ہے۔ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ اور جب ہمارا حکم (عذاب) آ پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا‘ جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے‘ آگاہ رہو مدین کے لیے بھی ویسی ہی پھٹکار ہو جیسی پھٹکار ثمود پر تھی‘‘۔
ہمیں قومِ شعیب کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ جو رزق ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں مل کر رہے گا۔ اس حوالے سے سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت جابرؓ سے مرفوعاً مروی ہے: ''اگر ابن آدم اپنے رزق سے اس طرح بھاگے جس طرح موت سے بھاگتا ہے تب بھی اس کا رزق اس کو اس طرح پا لے گا جیسے اسے موت پا لیتی ہے‘‘۔ اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے مقدر کا رزق اس کو بہرصورت مل کے رہے گا۔ چنانچہ انسان کو رزق کمانے کے لیے حرام ذرائع کو استعمال نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ سورۃ الطلاق آیت: 3 میں ارشادہوا ''اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے ہی رہے گا‘‘۔ احادیث طیبہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان اللہ کی ذات پر توکل کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو اُسی طرح رزق دیں گے جس طرح پرندوں کو دیتے ہیں۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسے پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو ہر حالت میں رزقِ حلال کمانے کی جستجو اور ہر صورت حرام سے اجتناب کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر محتاج کی محتاجی اور تنگ دست کی تنگ دستی کو دور فرمائے اور ہم سب کو رزقِ حلال وافر عطا فرمائے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں