دنیا میں جو بھی آیا ہے اس کو ایک دن دنیا کو خیربادکہنا ہوگا لیکن بعض لوگوں کا انتقال عوام کے لیے بہت بڑے نقصان کا سبب ہوتا ہے۔ جید و پختہ علما کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کی وفات نہ صرف یہ کہ ان کے اہلِ خانہ اور شاگردوں کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے بہت بڑے صدمے کی خبر ہوتی ہے۔ اہلِ علم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہ جاننے والوں پر فوقیت عطا فرمائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت: 9 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دو کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المجادلہ کی آیت: 11 میں اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے بلند درجات کا ذکر فرماتے ہیں ''اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو‘ پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء و رسل اور ان کے بعد اپنے چنیدہ بندوں کو بہرہ ور فرمایا۔ رسولوں اور انبیاء کرام نے علم براہِ راست اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے حاصل کیا اور وہ پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کی نشر واشاعت میں مصروف رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ آل عمران کی آیت: 164 میں ارشاد فرمایا ''یقینا بڑا احسان کیا ہے اللہ نے مومنوں پر کہ بھیجا ان میں ایک رسول‘ انہی میں سے‘ جو پڑھ کر سناتا ہے انہیں اللہ کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے اُن کا اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب اللہ کی‘ اور سکھاتا ہے ان کو حکمت۔ اگرچہ تھے وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں‘‘۔ انبیاء اور رسل کے بعد ایک عالم باعمل بھی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اندھیرے اور اجالے‘ ہدایت اور گمراہی‘ شرک اور توحید‘ سعادت اور بدبختی کے مابین فرق کو پہچانتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی امت میں عہدِ صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک‘ ہر عہد میں ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے علم کی نشر واشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ اصحابِ صفہ پوری طرح دینی علم کے حصول کیلئے وقف تھے اور ان کے بعد تابعین‘ تبع تابعین اور ایسی بہت سی شخصیات پیدا ہوئیں جو حصولِ علمِ دین میں مصروف رہیں۔ امام ابوحنیفہؒ،امام مالک ‘اما شافعی اور امام احمد ابن حنبل فقہا میں سے ممتاز ہیں جبکہ امام بخاری‘ امام مسلم ‘امام ترمذی‘ امام ابن ماجہ‘ امام ابودائود اور امام نسائی محدثین میں سے بلند مقام کے حامل ہیں۔ ان کے بعد امام ابن تیمیہ‘ امام ابن کثیر‘ امام ابن قیم‘ امام ذہبی اور امام ابنِ حزم نے علم اور دین کی خدمت کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ نے دین اور علم کے فروغ کے لیے بے مثال کردار ادا کیا۔ ان علما کی اس محنت شاقہ کی وجہ سے ہر دور میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ دینی علوم سے بہرہ ور ہوتے رہے۔
مادہ پرستی کے اس دور میں بہت سے دین دار اور صالح لوگوں کی توجہات بھی دینی علم سے بڑھ کر دنیاوی معاملات کی طرف ہو چکی ہیں لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔جب بھی ایسے لوگوں کا انتقال ہوتا ہے تو طبیعت پر ایک بوجھ کی کیفیت طاری ہو جاتی اور روح اداس ہو جاتی ہے۔ کسی بھی بڑے عالم کے انتقال کی خبر سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علم‘ حکمت اور بصیرت کا ایک دروازہ بند ہو گیا ہے اور انسانوں کی رہنمائی کرنے والی شخصیات میں مزید کمی واقع ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بہت سی علمی شخصیات دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں جن میں فیصل آباد کے عظیم شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی‘ کشمیر کے مایہ ناز عالم دین مولانا عبدالعزیز کشمیری‘ گوجرانوالہ کی مایہ ناز علمی شخصیت مولانا عطا اللہ ساجد اور پاکستان کے نامور عالم دین حافظ عبدالرحمن مکی شامل ہیں۔ یقینا ان تمام علما کی وفات کے بعد طبیعت پر غیر معمولی اداسی طاری ہو گئی‘ روح رنج وغم سے گھائل ہو گئی اور نبی کریمﷺ کا فرمانِ مبارک سامنے آ گیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ (پختہ کار) علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
تمام علما کی وفات یقینا میرے لیے بہت بڑے صدمے کا سبب تھی‘ تاہم مولانا عبدالعزیز علوی اور حافظ عبدالرحمن مکی کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات تھے۔ میں نے ان دونوں کی وفات کی خبر سن کر دکھ اور کرب کو اپنے جسم وجان میں اترتے ہوئے محسوس کیا۔ بالخصوص حافظ عبدالرحمن مکی کے ساتھ میرے تعلقات کئی عشروں پر محیط تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حافظ عبدالرحمن مکی کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ عربی اور اردو پر مکمل عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ کتاب وسنت کے علم پر عبور رکھنے کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ آپ مسلمانوں کی تنزلی اور زبوں حالی پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے اور ہمیشہ مسلمانوں کے عروج کے لیے کوشاں رہے۔ توحید‘ ختم نبوت‘ حرمت رسول اللہﷺ اور شعائر دین کے ساتھ آپ کو غیر معمولی وابستگی تھی۔ جب بھی کسی مسئلے میں لوگوں کو دین سے منحرف پاتے تو فوراً سے پہلے تنبیہ کے لیے میدانِ عمل میں اتر آتے۔
آپ کئی مرتبہ مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر بھی تشریف لائے اور وہاں اپنی بہترین خطابت کی صلاحیتوں سے سامعین کے دل ودماغ پر غیر معمولی اثرات چھوڑے۔ حافظ عبدالرحمن مکی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے استدلال کی غیر معمولی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں۔ آپ اپنی خطابت میں قرآن مجید کی آیات‘ احادیث طیبہ اور تاریخ کے واقعات سے استدلال کرتے اور حالاتِ حاضرہ پر قرآن وسنت کے احکامات کو منطبق کر کے لوگوں کے لیے حل تجویز کرتے۔ آپ پوری زندگی اسلام دشمنوں کی سازشوں سے عوام الناس کو آگاہ کرتے رہے اور علم وعمل کی راہوں کو ان کے لیے استوار کرتے رہے۔ مجھے کئی مرتبہ ان کے ہمراہ خطاب کرنے کا موقع بھی ملا‘ وہ ہمیشہ بہت زیادہ الفت‘ شفقت اور محبت کا مظاہرہ کرتے اور حوصلہ افزائی میں کسی قسم کے بخل کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی خطابت علم‘ حکمت‘ بصیرت‘ فہم وفراست‘ دردمندی‘ سنجیدگی اور متانت کا شاہکار ہوا کرتی تھی۔ لوگ آپ کی حکیمانہ اور پُرجوش گفتگو کا گہرا اثر قبول کرتے تھے۔
جمعہ کے روز جب اس بات کی اطلاع ملی کہ حافظ عبدالرحمن مکی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں تو میں نے گہرے صدمے کو محسوس کیا۔ میں مرکز قرآن و سنہ پر جمعہ پڑھانے کے بعد ان کے جنازے میں شمولیت کیلئے مریدکے پہنچا۔ بارانی موسم اور کیچڑ کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے جنازے میں شریک تھے‘ جو عوام الناس کی ان سے والہانہ وابستگی کی واضح دلیل تھی۔ ان کے داماد حافظ طلحہ سعید نے ان کا جنازہ پڑھایا۔ اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی اور لوگوں نے دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی اور دنیا سے رخصت ہونے والے تمام علما کی خدمات اور حَسنات کو قبول فرمائے اور وہ کتاب و سنت کی جس شاہراہ کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اس راہ پر چلنے کی توفیق دے‘ آمین!