قائداعظم محمد علی جناح ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنی جہدِ مسلسل اور اپنے مثالی کردار سے تاریخ کے اوراق پر غیر معمولی نقوش ثبت کیے ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں نے لگ بھگ ہزار برس حکومت کی اور بعد ازاں جب برصغیر پر انگریز کا تسلط ہو گیا تو برصغیر کے مسلمان انگریز سرکار کے عتاب کا نشانہ بننے کے ساتھ ساتھ ہندو اکثریت کی چیرہ دستیوں کا بھی نشانہ بنتے رہے۔ عددی اکثریت کی بنیاد پر تشکیل دی جانے والی حکومت اور سیاست میں مسلمانوں کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آ رہا تھا۔ ہندو مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو غصب کرنے پہ تلے ہوئے تھے۔ اس دور میں جس شخصیت نے اپنی بے مثال جدوجہد کے ذریعے مسلمانوں کو نیا ولولہ‘ نیا حوصلہ اور نئی توانائی دی‘ وہ قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت ہے۔
25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہونے والی اس عظیم شخصیت نے جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو ابتدا میں آپ ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے لیکن بتدریج آپ کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ ہندو مسلم اتحاد سے مسلمانوں کے سیاسی مسائل حل نہیں ہو سکتے؛ چنانچہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے 1913ء سے یکسو ہو کر مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا شروع کر دی۔ برصغیر کے معروضی حالات کو سمجھتے ہوئے حضرتِ قائد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی پاسداری تبھی ممکن ہے جب ان کیلئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کو یقینی بنایا جائے گا۔ قائداعظم نے 1913ء سے لے کر 1947ء تک مسلسل جدوجہد کی اور برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کو جگانے کے لیے اپنی جملہ صلاحیتوں کو صرف کیا۔ قائداعظم کو علامہ اقبال‘ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر جیسے اکابرین کی تائید میسر آئی‘ جنہوں نے قائدکی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کیا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری‘ مولانا ظفر علی خان نے صحافت اور مولانا محمد علی جوہر نے اپنی خطابت کے ذریعے قوم کو بیدار کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے علماء کرام نے بھی قائد کے وژن سے اتفاق کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کو جگایا اور برصغیر کے طول عرض میں ایک ہی نعرے کو لگایا گیا‘ پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ۔
قائداعظم جہدِ مسلسل پر یقین رکھتے تھے اور آپ نے دن دیکھا نہ رات‘ گرمی یا سردی کے موسم کی پروا کیے بغیر اپنے ہدف اور نصب العین کے ساتھ غیر معمولی وابستگی رکھتے ہوئے مسلسل میدانِ عمل میں سرگرم رہے۔ قائد کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ تھا کہ انگریزی استبداد اور برہمن کی مکاری کے باوجود برصغیر کے مسلمان آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قائداعظم نے فکر وعمل کی راہوں کو متعین کرنے کیلئے جدوجہد کا جو ماٹو چھوڑا‘ وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ قائداعظم کے اس ماٹو پر غور کیا جائے تو حضرت قائد کی فکر کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ قائداعظم نے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کا درس دے کر مسلمانانِ ہند کے لیے جن راہوں کو متعین کیا ان پر عمل پیرا ہو کر یقینا پاکستان کے مسلمان ترقی اور استحکام کی تمام منازل کو بطریق احسن طے کرنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں۔ جب ہم ''ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم‘‘ کے پیغام پر غور کرتے ہیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ قائد کا یہ صرف اپنے تجربے اور بصیرت کا حاصل نہیں ہے بلکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے بھی اس حوالے سے رہنمائی حاصل کی گئی ہے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان تین نکات کے بارے میں ہمیں غیر معمولی رہنمائی ملتی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1۔ ایمان: دین اسلام کی بنیاد ایمان بالغیب پر ہے اور ہر مسلمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت‘ اس کی نازل کردہ کتابوں‘ اس کے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل‘ اس کے ملائکہ اور یومِ جزا پر یقین رکھتا ہے۔ تقدیر کے فیصلوں کو بھی ہر مسلمان بسر وچشم قبول کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیات 2 تا 5 میں ایمان بالغیب‘ سابقہ کتب پر ایمان اور آخرت پر ایمان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العصر میں جب کامیاب لوگوں کے اوصاف بیان کیے تو ایمان کا سب سے پہلے ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ العصر میں ارشاد فرماتے ہیں: ''قسم ہے زمانے کی! بیشک انسان خسارے میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو وصیت (تلقین) کی حق (بات) کی اور ایک دوسرے کو وصیت (تلقین) کی صبر کی‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ یونس کی آیات 62 تا 63 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''خبردار! بیشک اولیا اللہ‘ نہ کوئی خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ ڈرتے تھے (اللہ سے)‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت: 96 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے (تو) ضرور ہم کھول دیتے اُن پر برکتیں آسمان سے اور زمین سے لیکن اُنہوں نے جھٹلایا تو ہم نے پکڑ لیا اُنہیں اس وجہ سے جو تھے وہ کمایا کرتے تھے‘‘۔ سورۃ الانعام کی آیت: 82 میں ارشاد ہوا: ''جو لوگ ایمان لائے اور نہیں مخلوط کیا اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے‘ وہی ہیں (کہ) ان کے لیے ہی امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔
2۔ اتحاد: ایمان کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت میں اتحاد کے حوالے سے بھی بیش قیمت رہنمائی ملتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی مقصد کے لیے متحد ہو جاتی ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیر معمولی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے بڑی بڑی اقوام کے غرور اور عروج کو پاش پاش کر دیا اور پوری دنیا پر اسلام کے پرچم کو لہرا دیا۔ قرآن مجید سے بھی اتحاد کے حوالے سے بڑی خوبصورت رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آل عمران کی آیت: 103 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب (مل کر) اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔ اس کے برعکس جب کوئی قوم انتشار کا شکار ہو جاتی ہے تو ان کے رعب اور دبدبے میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور ان کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت: 46 میں ارشاد ہوا: ''اور تم اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مت آپس میں جھگڑو‘ ورنہ تم کم ہمت ہو جائو گے اور جاتی رہے گی تمہاری ہوا (رعب)‘‘۔
3۔ تنظیم: اسلام جہاں ہمیں ایمان اور اتحاد کا سبق دیتا ہے وہیں ہمیں تنظیم کا بھی درس دیتا ہے۔ جب ہم عبادات پر غور کرتے ہیں تو ان میں تنظیم کا درس نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ باجماعت نماز اور وقتِ مقررہ پر نماز کی ادائیگی ہمیں دن میں پانچ وقت تنظیم کا سبق دیتی ہے۔ عمرے اور حج کے موقع پر ایک ہی طرح کے الفاظ‘ ایک ہی طرح کا احرام‘ ایک ہی جہت میں چکر لگاتے ہوئے اور ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے اپنے مناسکِ حج کو انجام دینے میں بھی تنظیم کا ایک بڑا سبق ہے۔ میدانِ جہاد میں بھی کامیابی کیلئے ایمان اور اتحاد کے ساتھ ساتھ تنظیم انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ صف کی آیات 4 تا 5 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ بلاشبہ اللہ محبت کرتا ہے (اُن لوگوں سے) جو لڑتے ہیں اُس کے راستے میں صف باندھ کر‘‘۔
اگر ہم قائداعظم کے اس عظیم الشان پیغام پر عمل کریں تو نہ صرف یہ کہ پاکستان بحرانوں پر قابو پانے کے قابل ہو سکتا ہے بلکہ آنے والے وقت میں ایک مستحکم ریاست کی حیثیت سے دنیا کی قیادت کے فریضے کو بھی انجام دے سکتا ہے۔ آج قائد ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن جدوجہد کی جن راہوں کو آپ نے متعین کیا‘ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم یقینا انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک باوقار زندگی گزارنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔