قائداعظمؒ اور مولانا ابوالکلام آزاد

آج ہی کے دن 25دسمبر 1876ء کو قائداعظم محمد علی جناح اس دنیا میں آئے تھے۔ آگے چل کر قدرت نے اس لالے کی خود حنا بندی کی اور اسے مسلمانانِ ہند کی قسمت بدلنے کا مشن سونپا۔ آہنی عزم و ارادے کے مالک اس عظیم شخص کا کہنا یہ تھا کہ ''ناکامی‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو اُس کی دنیا میں موجود نہیں۔ واقعی ایسا ہی تھا۔
اس عظیم لیڈر کو قوم نے قائداعظم کا لقب دیا‘ جو بعد میں ان کی شان اور پہچان بن گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح آل انڈیا کانگریس میں شامل تھے۔ 1916ء میں انہیں کانگریس کی ایک سرکردہ لیڈر مسز سروجنی نائیڈو نے '' سفیر اتحاد ‘‘ کا لقب دیا۔ اُس زمانے کے مسٹر محمد علی جناح نے 1913ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1916ء میں انہیں مسلمانوں کی اس بڑی سیاسی پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ کانگریس کی طرف سے ساری تعریف و تصنیف کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح نے ہندوؤں کے قریب رہ کر اُن کی اندرونی تنگ نظری اور مہاتما گاندھی کی عاجزی کے پردے میں چھپی ہوئی ہندو نوازی اچھی طرح پہچان لی تھی۔ اسی لیے انہوں نے 1920ء میں کانگریس کو مکمل طور پر خیر بادکہہ کے اپنی ساری توانائیاں مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کیلئے وقف کر دیں۔
زندگی میں قائداعظم نے دو ہی محبتیں کی تھیں۔ ان کی پہلی محبت رتی ڈنشا تھی اور دوسری محبت پاکستان۔ قائداعظم کو دونوں محبتوں میں کامیابی ملی۔ دوسری محبت ان کی منزل بن گئی۔ اس منزل تک پہنچنے کیلئے انہیں راستے میں کئی رکاوٹوں‘ کئی طوفانوں اور کئی طرح کے نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور 14اگست کو اس منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس روز پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔
آج سے نہیں گزشتہ پانچ چھ دہائیوں سے پاکستان کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ''پیش گوئیوں‘‘ کے بارے ہر دو چار برس کے بعد ایک شور اٹھتا ہے۔ اس شور سے نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیوں کا اصل منبع و مصدر ان کی سرگزشت India Wins Freedomہے۔ مولانا کی کتاب 1958ء میں پردۂ اخفاء سے باہر آئی تھی۔ اس اشاعت کے موقع پر مولانا نے یہ قدغن بھی لگائی تھی کہ اس کے کچھ صفحات 30 برس کے بعد شائع کیے جائیں۔ مولانا نے یہ خفیہ صفحات کلکتہ اور دہلی کی لائبریریوں میں سیل کروا دیے تھے۔ اُن کا انتقال 1958ء میں ہوا تھا۔ لہٰذا وفات کے تیس برس بعد یہ صفحات منظر عام پر آ گئے اور 1988ء میں جب یہ خفیہ راز آ شکار ہوئے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ کوئی بہت بڑا دھماکہ ہو گا مگر ان کاغذات میں قیام و استحکام پاکستان کے بارے میں حساس نوعیت کی کوئی نئی بات نہ تھی۔
مولانا نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے کچھ عمومی نوعیت کے خدشات کا اظہار 1958ء میں کیا تھا۔ یہ خدشات دونوں صوبوں میں جغرافیائی دوری اور زبان و ثقافت کے اختلافات کے حوالے سے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم کی تحقیق کے مطابق تقریباً اسی دور میں تحریک پاکستان کے ممتاز لیڈر سردار عبدالرب نشتر نے بھی واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ پاکستان میں تعصب کا مرض نمایاں ہو رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام میں احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ مغربی پاکستان ان کا استحصال کر رہا ہے۔ سردار صاحب نے جنرل ایوب خان کی فوجی مداخلت کے بارے میں بھی متنبہ کیا تھا کہ ایسی مداخلت کے تباہ کن نتائج نکلیں گے اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی علمیت و ذہانت کے اعتبار سے اس دور کے مسلمانوں میں ایک منفرد شخصیت تھے۔ ان کی ولادت 11نومبر 1888ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے تمام مراحل مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں 12سال کی عمر میں مکمل کر لیے تھے۔ وہاں سے انہیں جامعہ ازہر مصر میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیج دیا گیا تھا۔ مولانا نے صرف 14 برس کی عمر میں جامعہ ازہر سے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی تھی۔ ان کی والدہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا جبکہ ان کے والد ہندوستان کے باسی تھے۔ مولانا کو عربی‘ فارسی اور اُردو تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ہندوستان آ کر صرف پندرہ برس کی عمر میں وہ الہلال رسالے کے ایڈیٹر بن گئے۔ مولانا کی انشاء پردازی‘ شاعری اور مکتوب نگاری نہایت اثر انگیز تھی۔ انہوں نے بہت سی دیگر کتابیں بھی تصنیف کی تھیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے خطیب بھی تھے۔ جیل سے انہوں نے اپنے دوستوں کے نام جو مکاتیب ارسال کیے تھے وہ ''غبارِ خاطر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے اور کئی دہائیوں سے اہلِ ذوق سے داد وصول کر رہے ہیں۔ تاہم مولانا مسلمانانِ ہند کیلئے اپنی سیاسی زندگی کے کسی موڑ پر انگریزوں کی غلامی کے بعد ہندوؤں کی غلامی اور مکاری سے محفوظ رہنے کیلئے کوئی حل پیش نہ کر سکے۔ ان کی اپنی کوئی سیاست نہ تھی‘ وہ کانگریس کی لیڈر شپ کی ہندو سیاست کے تابع تھے۔ افسوس یہ ہے کہ مولانا آزاد اپنے تمام تر دینی و علمی اور ادبی مقام و مرتبے کے باوجود آخر وقت تک وہ حقیقت نہ سمجھ سکے جو سر سیّد احمد خان‘ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح بہت پہلے سمجھ گئے تھے۔
اپنے اپنے طور پر تمام مذکورہ بالا مسلمان زعماء اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانانِ ہند کے دینی و سیاسی مستقبل کو محفوظ کرنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ہندوستان میں ان کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی آزاد‘ خود مختار ریاست قائم ہونی چاہیے جہاں وہ اپنے مذہب‘ اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلام کے دیے ہوئے عدلِ اجتماعی کے نظام کو نافذ کر سکیں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بنا کر ہمارے حوالے کر دی‘ اب چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس ریاست کو چار چاند لگاتے۔ مشرقی و مغربی پاکستان کو یک جان دو قالب بناتے۔ اس ریاست کے قدرتی اور بشری وسائل کام میں لا کر اسے امن و امان‘ عدل و انصاف اور خوش حالی کا گہوارہ بناتے۔ دنیا میں ایک مثالی ملک کہلاتے۔ اب اگر سیاستدانوں کی نادانیوں‘ آمر حکومتوں کی من مانیوں‘ عدالتوں کی مصلحتوں اور حکمرانوں کی بدعنوانیوں نے ملک کو دولخت کر دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح غلط اور مولانا ابوالکلام آزاد درست تھے۔ ہمیں حیرت اپنے بعض دانشوروں پر ہے جو مولانا آزاد کی ''پیش گوئیوں‘‘ کا اپنے تجزیوں اور نجی محفلوں میں ذکر کرکے نادانستہ مایوسی کو ہوا دیتے ہیں۔ ذرا ہندوستان میں جا کر دیکھیں کہ وہاں مسلمانوں کی زندگی ایک عذابِ مسلسل ہے۔ ان کی بستیوں کی بستیاں جلا دی جاتی ہیں۔ تعصب کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے انڈین مسلمان اداکاروں کو دہلی اور بمبئی جیسے شہروں کے کسی اچھے علاقے میں کرائے پر کوئی مکان تک نہیں ملتا۔
لگتا یوں ہے کہ ایک بار پھر قدرت ہم پر مہربان ہو رہی ہے اور ہم 77 برس بعد اپنی پہاڑ جتنی بڑی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں قاہرہ میں بنگلہ دیش کے منتظم اعلیٰ اور پاکستانی وزیراعظم کے مابین ہونے والی نہایت خوشگوار ملاقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دونوں خطوں کے مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
اہلِ پاکستان مولانا آزاد کے سیاسی موقف کو غلط سمجھتے ہیں مگر وہ ان کے دینی و علمی مقام و مرتبے کے قدر دان ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں