انسان اس زمین پر اپنی زندگی میں ایک وقتِ مقررہ کے لیے آیا ہے۔ ہر انسان اپنا وقت پورا کرنے کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کر جاتا ہے اور نئے لوگ اور نئی نسلیں اس کی جگہ لے لیتی ہیں۔ یہ سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود صحت مند اور متمول لوگ نجانے اپنے آپ کو کیوں لافانی سمجھ لیتے ہیں اور اس بات کا گمان کرنے لگتے ہیں کہ انہوں نے اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ فنا اور موت کا یقین انسان کے اعمال پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کا یقین ہوتا ہے‘ ان لوگوں کا زندگی گزارنے کا طریقہ ان لوگوں سے مختلف ہوتا ہے جو موت سے غافل ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر انسان کی غفلت کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ تکاثر میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو بڑی وضاحت سے بیان فرماتے ہیں۔ سورۃ التکاثر میں ارشاد ہوا: ''کثرت (کی ہوس) نے غفلت میں ڈالے رکھا تم کو۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ ایسا نہیں چاہیے‘ آئندہ تم جان لو گے۔ پھر (سن لو) ایسا نہیں چاہیے‘ جلد تم جان لو گے۔ پھر ایسا نہیں چاہیے‘ کاش تم یقینی طور پر جانتے۔ البتہ تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔ پھر تم اسے ضرور‘ یقینی طور پر دیکھو گے۔ پھر اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کامیاب اور ناکام انسانوں کا ذکر کیا ہے۔ سورۃ النازعات کی آیات: 37 تا 39 میں ناکام انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''چنانچہ جس نے سرکشی کی۔ اور ترجیح دی دنیاوی زندگی کو۔ تو بیشک جہنم ہی ہے اس کا ٹھکانہ‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جو دنیا کی زندگانی کو حرفِ آخر سمجھ کر سرکشی وطغیانی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے‘ وہ ناکام اور نامراد رہتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی سورۂ مبارکہ میں کامیاب لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النازعات کی آیات: 40 تا 41 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو کوئی ڈرا پیشی سے اپنے رب کے حضور اور روکا اس نے اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے۔ تو بیشک جنت ہی ہے اس کا ٹھکانہ‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر کر اپنی خواہش کو دبانے والے لوگ ہی کامیاب ہوں گے اور جنت میں جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی قسم کے حقائق کو سورۃ الکہف میں بھی بیان کیا ہے۔ سورۃ الکہف کی آیات: 103 تا 106 میں ناکام لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا: ''کہہ دو کیا میں تمہیں بتائوں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں۔ وہ (لوگ) جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھو گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بیشک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا‘ پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے‘ سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ سزا ان کی جہنم ہے‘ اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا‘‘۔ ان کے برعکس اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیاب لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الکہف کی آیات: 107 تا 108 میں فرمایا: ''بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے‘ ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے۔ ان میں ہمیشہ وہ رہیں گے اور وہاں سے جگہ بدلنی نہ چاہیں گے‘‘۔
سورۃ العصر قرآن مجید کی ایسی سورۃ ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع انسانیت کو گھاٹے میں قرار دیا‘ سوائے ان لوگوں کے جن میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو مطلوب ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ العصر میں ارشاد فرماتے ہیں: ''زمانے کی قسم ہے بیشک انسان گھاٹے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے۔ اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے‘‘۔
ان مختصر اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بھی ان اوصاف کا ذکر کیا جو انسان کی کامیابی کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو فردوسِ بریں کے وارث بن جائیں گے۔ چنانچہ سورۃ المومنون کی آیات: 1 تا 11 میں ارشاد ہوا: ''بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور جو بے ہودہ باتو ں سے منہ موڑنے والے ہیں۔ اور جو زکوٰۃ دینے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں پر‘ اس لیے کہ ان میں کوئی الزام نہیں۔ پس جو شخص اس کے علاوہ طلبگار ہو تو وہی حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی وارث ہیں۔ جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے‘ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الذاریات کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا جو جنت کے حقدار بن جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الذاریات کی آیات: 15تا 19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بیشک پرہیزگار باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ لے رہے ہوں گے جو کچھ انہیں ان کا رب عطا کرے گا‘ بیشک وہ اس سے پہلے نیکوکار تھے۔ وہ رات کے وقت تھوڑا عرصہ سویا کرتے تھے۔ اور آخر رات میں مغفرت مانگا کرتے تھے۔ اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محتاج کا حق ہوتا تھا‘‘۔ اسی طرح سورۃ المعارج میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا کہ کامیابی جن لوگوں کا مقدر بننے والی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المعارج کی آیات: 26 تا 35 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ جو قیامت کے دن کا یقین رکھتے ہیں۔ اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔ بیشک ان کے رب کے عذاب کا خطرہ لگا ہوا ہے۔ اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں سے‘ سو بیشک (اس میں) انہیں کوئی ملامت نہیں۔ پس جو کوئی اس کے سوا چاہے سو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں۔ اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی لوگ (جنت کے) باغوں میں عزت سے رہیں گے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اپنے وقت کی قدر کرنے والے اور اس کو درست سمت میں لگانے والے لوگ اللہ کے فضل ورحمت سے کامیاب وکامران ہو جائیں گے جبکہ غفلت‘ لاپروائی اور سرکشی کی زندگی گزارنے والے اور اپنے وقت کا ضیاع کرنے والے لوگ ناکام اور نامراد ہو جائیں گے۔
یقینا دنیا آخرت کی کھیتی اور حقیقی اور دائمی کامیابی کی بنیاد ہے۔ اس لیے ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے اپنے وقت کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی پہ غور کریں تو اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ گردشِ ایام اور ماہ وسال کے گزرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ کیلنڈر کی بدلتی ہوئی تاریخیں درحقیقت ہمیں گزرتے ہوئے وقت کا پتا دے رہی ہیں لیکن اس وقت کی قدر کرنے والے لوگ معاشرے میں کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس وقت کو ضائع کرنے والے لوگ یا اس کا غلط استعمال کرنے والے لوگ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ گزرتا ہوا وقت یقینا ہمیں متنبہ کر رہا ہے کہ ہمیں جلد یا بدیر اپنے خالق حقیقی کے پاس جانا ہے‘ جس کے پاس جا کر ہمیں اس کی نعمتوں کا حساب دینا ہو گا۔ اس دن وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنہوں نے اپنے وقت کو صحیح طور پر استعمال کیا ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق دے‘ اور اسی دنیا میں رہتے ہوئے اپنا احتساب کرکے درست راہوں پہ گامزن کر دے‘ آمین۔