سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ‘ جن کا حال ہی میں 92سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے‘ کو بھارت میں معاشی ترقی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے معاشیات کی تعلیم برطانیہ کی دو مشہور یونیورسٹیوں کیمبرج اور آکسفورڈ سے حاصل کی۔ زمانۂ تعلیم میں وہ سوشلسٹ خیالات کے حامی تھے لیکن بیرونی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی اور بھارت کی معاشی صورتحال کو دیکھ کر انہیں پکا یقین ہو گیا کہ بھارت کے معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر اس میں جان نہیں ڈالی جا سکتی۔ اُس زمانے میں بھارت کی معیشت جس نظام کے تحت چلائی جا رہی تھی اسے ''لائسنس راج‘‘ کہا جاتا تھا‘ یعنی سرمایہ کاری‘ پیداواری عمل‘ درآمدات‘ برآمدات اور کاروبار پر سخت سرکاری پابندیاں تھیں‘ جنہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا نوکر شاہی کو پورا اختیار تھا۔ اس نظام سے بھارت میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری اور پیداواری عمل مکمل جمود کا شکار تھا اور برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ منموہن سنگھ کو 1991ء میں جب وزیراعظم نرسیما راؤ کی کابینہ میں وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا گیا تو بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ایک بلین ڈالر رہ گئے تھے مگر صرف آٹھ سال کی مدت میں منموہن سنگھ کے اقدامات کے نتیجے میں بھارتی معیشت اتنی تیزی سے بہتر ہوئی کہ نو فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ بھارت ایشیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک بن گیا۔ بھارتی معیشت کو کرشماتی ترقی منموہن سنگھ کے انقلابی اقدامات کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ ان اقدامات میں بھارتی معیشت پر کئی دہائیوں سے عائد پابندیوں کا خاتمہ کیا گیا۔ منموہن سنگھ نے نہ صرف اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی بلکہ درآمدات اور برآمدات پر عائد پابندیوں کو بھی ختم کر دیا۔ عام فہم الفاظ میں انہوں نے سوشلسٹ نظام کی کنٹرولڈ معیشت کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کی آزاد معیشت کے اصول پر عمل کیا اور اس کے دروازے بیرونی سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے کھول دیے‘ اسی لیے انہیں بھارت کا ڈنگ ژیاؤ پنگ کہا جاتا ہے۔
ان کے دور کا ایک اور پہلو‘ جس کا کم ہی ذکر کیا جاتا ہے‘ یہ ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ پاکستان اور بھارت کے مابین قریبی تعلقات اور تعاون کے خواہاں تھے۔ بھارت کے جن وزرائے اعظم کے ادوار میں پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ تنازعات کے حل‘ پائیدار امن اور دوستی کے حقیقی امکانات پیدا ہوئے‘ ان میں منموہن سنگھ بھی شامل ہیں۔ دیگر بھارتی وزرائے اعظم میں اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی شامل ہیں جن کے ادوار میں پاک بھارت تعلقات میں جمود ٹوٹا اور بہتری کے واضح امکانات پیدا ہوئے۔ اندر کمار گجرال تقسیمِ ہند سے قبل پنجاب کے پوٹھوہاری علاقے جہلم میں پیدا ہوئے تھے جبکہ منموہن سنگھ نے چکوال کے نزدیک 'گاہ‘نامی ایک گاؤں میں جنم لیا۔ اندر کمار گجرال کی وزارتِ عظمیٰ کا دورانیہ اگرچہ مختصر تھا مگر انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کے ساتھ 1997ء میں مالدیپ کے دارالحکومت ''مالے‘‘ میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کر کے کئی برسوں سے پاک بھارت دوطرفہ مذاکرات میں چلے آ رہے تعطل کو ختم کر کے متنازع مسائل پر کمپوزٹ ڈائیلاگ کا عمل شروع کیا۔ کمپوزٹ ڈائیلاگ میں مسئلہ کشمیر‘ سیاچن اور سرکریک تنازع‘ تجارت‘ اعتماد سازی کے اقدامات‘ ممنوعہ ادویات کی سمگلنگ کی روک تھام اور دہشت گردی پر سیکرٹریز کی سطح پر ہونے والے مذاکرات پر اتفاقِ رائے نے فروری 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اور بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ پاکستان کی راہ ہموار کی۔ اس دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نے لاہور میں مینارِ پاکستان پر بھارت کی طرف سے خیر سگالی کے جذبے کا اظہار کیا اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مل کر ''اعلانِ لاہور‘‘ جاری کیا جس کے تحت دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور بھارت کے تصفیہ طلب مسائل‘ بشمول مسئلہ کشمیر کو حل کرکے مستقل امن اور تعاون کی راہ ہموار کرنے کا اعلان کیا مگر مئی 1999ء میں کارگل جنگ کی وجہ سے اس روڈمیپ پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ البتہ جنوری 2004ء میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ''سارک‘‘ کی 12ویں سالانہ سربراہی کانفرنس میں واجپائی کی شرکت اور صدر مشرف کے ساتھ ملاقات کے نتیجے میں پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت مارچ 2004ء میں دونوں ملکوں کی ٹیکنیکل ایکسپرٹس کمیٹیوں کا اجلاس ہوا جس میں سب سے پہلے دونوں ملکوں کے مابین زمینی اور فضائی رابطے بحال کرنے پر اتفاق ہوا۔ توقعات کے برعکس مئی 2004ء کے انتخابات میں وزیراعظم واجپائی کی پارٹی ہار گئی اور کانگریس کی قیادت میں بننے والا اتحاد یو پی آئی (United Progressive Alliance) جیت گیا۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کو‘ جن کے پاس اُس وقت وزیر خزانہ کا عہدہ تھا‘ وزیراعظم نامزد کر دیا۔ اس طرح بھارت کی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیکنو کریٹ بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔
بھارت کی معیشت کو سدھارنے کا بہت سا کام ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر خزانہ کی حیثیت سے کر چکے تھے اور اس کا مثبت نتیجہ بھی سامنے آ رہا تھا۔ اس لیے منموہن سنگھ نے 2004ء میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی بھارت کی معیشت کے علاوہ خارجہ پالیسی میں بھی نئی سوچ کے مطابق اقدامات کا آغاز کیا۔ 'دی پرنٹ‘ کے ایڈیٹر اور بھارت کے مشہور صحافی شیکھر گپتا نے منموہن سنگھ کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ منموہن سنگھ کو یقین تھا کہ جب تک بھارت کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوتے‘ بھارت معاشی میدان میں علاقائی اور عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت بن کر نہیں ابھر سکتا اور اس مقصد کیلئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو سب سے اہم قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ واجپائی کے دور میں شروع ہونے والے کمپوزٹ ڈائیلاگ کے باقی راؤنڈز منموہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ہوئے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین نہ صرف دوطرفہ تجارت‘ جس میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بارٹر ٹریڈ بھی شامل ہے‘ میں نمایاں اضافہ ہوا‘ نئے زمینی رابطے قائم ہوئے بلکہ سرکریک اور سیاچن کے متنازع مسائل کے حل کی جانب بھی اہم پیش قدمی ہوئی۔ نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے پاک بھارت تعلقات متاثر ہوئے۔ اگر یہ تعلقات تعطل کا شکار نہ ہوتے تو اب تک مقبوضہ اور آزاد کشمیرکے درمیان مسافروں کیلئے لمبی سروس میں توسیع ہو جاتی اور پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان تجارت میں بھی اضافہ ہوجاتا۔ علاوہ ازیں دونوں ملکوں کی بین الاقوامی سرحد پر بھی آمد و رفت اور تجارتی سامان کی نقل و حرکت کیلئے ریل اور روڈ کے نئے روٹس کھلنے اور پرانے روٹس بحال ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 2005ء میں زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد کیلئے لائن آف کنٹرول پر کم از کم پانچ مقامات سے مقبوضہ کشمیر سے سامان کی ترسیل اور لوگوں کی آمد و رفت سے ''سافٹ بارڈرز‘‘ کی تجویز نے جنم لیا۔ منموہن سنگھ اس تجویز کے بہت بڑے داعی تھے۔ وہ تجویز یہ تھی کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار لوگوں کو آنے جانے اور تجارتی اشیا کے تبادلے میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ بچھڑے ہوئے خاندانوں کے لوگ آپس میں مل سکیں اور کشمیر کے دونوں حصوں میں معیشت مضبوط ہو سکے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے تاجروں اور کاروباری لوگوں نے اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ شیکھر گپتا کے مطابق منموہن سنگھ پاک بھارت مصالحت کی بڑی خواہش رکھتے تھے جس کا انہوں نے جنرل مشرف سے ایک ملاقات میں اظہار بھی کیا تھا۔