نیا سال اچھی خبریں لاتا چلا جا رہا ہے۔تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں‘9مئی کے مجرموں میں سے 19 افراد کی رحم کی اپیلیں منظور کر لی گئی ہیں‘ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں دو متحارب گروہوں کے درمیان جو تصادم کئی سال سے جاری تھا‘اُس کے خاتمے کی صورت نکل آئی ہے۔فریقین نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ اس معاہدے کو پوری شدت اور قوت سے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ فرقہ وارانہ جھگڑا کہیں یا زمین کی ملکیت کا تنازعہ‘سبب جو بھی ہو‘واقعہ یہ ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے کے خون سے جس طرح ہاتھ رنگے ہیں اور ایک دوسرے کی املاک کو جس طرح نقصان پہنچایا ہے‘ وہ:کسی بُت کدے میں بیان کریں تو کہے صنم بھی ہری ہری۔ کئی برس پہلے بھی فریقین کے درمیان معاہدہ ہوا تھالیکن اُس کا یہ نتیجہ نکلا کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔تنازعہ جاری رہا‘ خون بہتا رہا‘ سڑکیں‘ سکول اور ہسپتال بند رہے اور یہاں کے رہنے والے بلک بلک کر جیتے اور مرتے رہے لیکن صوبائی(اور وفاقی) حکومت کو جس سرگرمی سے کارروائی کرنا چاہیے تھی‘ وہ نہیں ہو سکی۔ مذہبی جماعتیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کر سکیں۔اگر پوری شدت سے کارروائی کی جاتی‘ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر لیتیں تو معاملے کو بہت پہلے نبٹایا جا سکتا تھا لیکن خیبرپختونخوا کی حکومت اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریوں میں مصروف رہی‘سیاسی جماعتیں اپنے آپ میں مگن رہیں‘ مذہبی تنظیموں نے بھی زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور وہ کچھ ہوتا رہا جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔ جرگے نے کارروائی کا آغاز کیا‘ مذاکرات شروع ہو گئے تو مجلس وحدت المسلمین نے کراچی میں احتجاجی دھرنوں کا اعلان کر دیا‘ جگہ جگہ ٹریفک میں خلل پڑا اور شہریوں کی زندگی دوبھر ہو گئی۔یہ سلسلہ دوسرے شہروں میں بھی پھیلایا جا رہا تھا کہ مجلس کے مقابل ایک دوسری مذہبی تنظیم متحرک ہوئی‘ اُس نے ان دھرنوں کے خلاف دھرنے دینے کا اعلان کر دیا۔سندھ حکومت کو حرکت میں آنا پڑا‘ چند ناخوشگوار واقعات پیش آئے لیکن اسی دوران ضلع کرم میں معاہدے کا اعلان ہو گیا۔اس پر دھرنوں کو ختم ہوتے ہی بنی اور یوں پورے ملک میں سکون کا سانس لیا گیا کہ نفرت کی وباء ملک بھر میں نہیں پھیلی۔
پاکستان میں ''پُرامن احتجاج‘‘ کے نام پر امن کو جس طرح تار تار کیا جاتا ہے‘اُس سے ہر شخص آگاہ ہے۔احتجاجی تحریکیں چلانے والے اور دھرنے دینے والے بار بار اپنے آئینی حقوق کا ذکر کرتے ہیں‘اُن کا اصرار ہوتا ہے کہ احتجاج ہمارا دستوری حق ہے‘اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا انسانی حقوق کو مجروح کرنا ہے لیکن اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ اپنے انسانی حقوق کی رَٹ لگانے والوں کو دوسرے شہریوں کے انسانی حقوق پامال کرنے کا کوئی بھی حق حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں احتجاج کے نام پر عام شہریوں کا ناطقہ بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘ ہر جگہ جلسہ یا مظاہرہ کرنے یا دھرنا دینے کے لیے انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے۔وقت اور مقام کا تعین کرنا پڑتا ہے۔کہیں یہ نہیں ہوتا کہ کوئی بھی گروہ جب اور جہاں چاہے احتجاج کے نام پر جلوس نکال لے‘ یا دھرنا دے کربیٹھ جائے یا دارالحکومت کی طرف مارچ کا اعلان کر دے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں اور دھرنوں کے لیے قانون سازی کی جائے اور شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے والوں کو حدود و قیود کا پابند کیا جائے۔واضح کر دینا چاہیے کہ کسی بھی احتجاج کی حدود و قیود کیا ہیں‘ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا جو فیشن بڑھتا جا رہا ہے‘اُسے بھی شدت سے روکنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کسی بھی حکومت کو سکون سے کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور کاروبارِ زندگی درہم برہم رہے گا۔ جلوسوں اور مظاہروں کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا‘ گاڑیوں کو جلانا‘ دکانوں اور دفتروں پر حملے کرنا بھی مشغلہ بن گیا ہے۔طے ہو جانا چاہیے کہ جلوسوں اور مظاہروں کی دعوت دینے والے نقصانات پورا کرنے کے پابند ہوں گے‘ ان سے پائی پائی کا حساب لیا جائے گا‘اگر لوگ ہلاک یا زخمی ہوں گے تو بھی مقدمات کا سامنا منتظمین کو کرنا پڑے گا۔
2014ء میں جنرل ظہیر الاسلام کی منصوبہ بندی کے مطابق جناب عمران خان اور اُن کے معاونین نے جس دھرنا مہم کا آغاز کیا تھا اور اسلام آباد میں حکومت کو یرغمال بنا لیا تھا‘ اُس کے خلاف باشعور افراد نے اُسی وقت صدائے احتجاج بلند کی تھی اور واضح کیا تھا کہ ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دینے والے پاکستانی سیاست اور معیشت سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔یہ سلسلہ اگر شروع ہو گیا تو پھر کوئی بھی انتظامیہ سکون کا سانس نہیں لے سکے گی۔گزشتہ دس سالوں میں جو کچھ ہوا‘ وہ اس خدشے کی تصدیق کر رہا ہے۔ 26 نومبر کو جو حادثات پیش آئے‘ وہ بھی اسلام آباد پر چڑھائی ہی کا نتیجہ تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام یہ سب کچھ کیا جا رہا تھا۔ قانون سازی کے ذریعے حکومتی عہدیداروں کو احتجاجی تحریکیں چلانے اور دارالحکومت پر چڑھ دوڑنے سے روکنا لازم ہے‘ایسا کرنے والوں کا حقِ حکومت ختم ہو جانا چاہیے۔
تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے درمیان جو مذاکرات ہو رہے ہیں‘اُن میں احتجاجی تحریکوں کے لیے قواعد و ضوابط طے کرنے پر غور کرنا چاہیے‘اگر ایسا نہیں ہو گا تو پاکستانی سیاست ہچکولے کھاتی رہے گی۔سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنمائوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی آزادی ٔ نقل و حرکت کا مطلب کیا ہے اور اسے کس طرح بروئے کار لانا چاہیے۔ اگر سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کریں گے اور انہیں قانون کی پابندی کا احساس نہیں دلائیں گے تو وہ خود اپنے راستے میں گڑھے کھود رہے ہوں گے۔9مئی کو جو کچھ ہوا‘وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔اس سانحے کے جن19مجرموں کی سزائیں معاف کی گئیں اور انسانی ہمدریوں کی بنیاد پر جنہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘اُن کے اعزاز میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہائوس میں تقریب کا اہتمام کرنا ایک مکروہ اقدام تھا۔ یہاں کی جانے والی تقریروں نے ماحول کو گدلا کیا‘رہا ہونے والوں نے تاسف کے اظہار کے بجائے جو لہجہ اپنایا اور جس طرح اپنے رہنمائوں کی موجودگی بلکہ ہلا شیری میں بڑھکیں ماریں‘اُس نے حریفانِ سیاست کو یہ کہنے کا جواز فراہم کیا کہ ایسے مجرموں کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر قیادت کا دعویٰ رکھنے والے رہنمائی فراہم کرتے تو کھوکھلے الفاظ کی گونج سنائی نہ دیتی۔ رحم کھانا اور معاف کرنا اچھی اقدار ہیں لیکن اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ رحم کی اپیل کرنے والے اپنے ہاتھ سے لکھ کر درخواست دیں۔ مجاز حکام کو انہیں ذاتی طور پر طلب کر کے واضح کرنا چاہیے کہ مستقبل میں انہیں کس رویے کا پابند رہنا ہو گا۔ ناتجربہ کار وکلاء کی غلط سلط انگریزی یا پیچیدہ اُردو میں لکھی ہوئی تحریروں کے درخواست گزاروں پر وہ اثرات مرتب نہیں ہو سکتے جو معذرت خواہی کے بعد دیکھنے میں آنا چاہئیں۔ توقع ہے کہ خیبرپختونخوا کے حکومتی ایوانوں میں بڑھکیں مارنے والے معافی کے سلسلے کو ختم کرنے کا سبب نہیں بنیں گے۔ یہ حُسنِ سلوک جاری رہے گا کہ جذبات میں بہہ جانے والوں یا لیڈروں کی ورغلاہٹ کا شکار ہو جانے والے عادی مجرم قرار نہیں دیے جا سکتے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)