"IYC" (space) message & send to 7575

اُڑان

ڈکشنری میں اُڑان کے جو معنی لکھے ہیں‘ یہ ہیں: ہٹانا یا اتارنا‘ اُڑنا یا پرواز کرنا‘ جیسے ادویات کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے انہیں مارکیٹ سے ہٹا دیا گیا‘ جیسے جوتے اتارنا‘ کپڑے اتارنا‘ جیسے طیارے کا اُڑنا یا پرواز کرنا۔ اب حال ہی میں حکومت نے جس اُڑان پاکستان پروگرام کا اعلان کیا ہے اس کے معنی ہٹانا یا اتارنا تو نہیں ہو سکتے‘ اُڑنا یا پرواز کرنا ہی ہو سکتے ہیں‘ اس لیے اسے ایک اچھا پروگرام قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا ملک ترقی نہ کرے‘ کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے نہ کرے‘ بلکہ وہ چاہے گا کہ اس کا ملک خوشحال ہو‘ اور اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھے اور فروغ پائے۔ اس لیے پاکستان سے محبت کرنے والا ہر شہری ایسے پروگرام کو یقینا سراہے گا۔ میں بھی سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت اور حکمران اس پروگرام پر عملدرآمد کے سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور یوں پاکستان نہ صرف برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گا‘ بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف بھی پورا کر لے گا اور اس کے لیے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجوایٹس بھی ہر حال میں تیار ہو جائیں گے۔ یہی نہیں‘ ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں گرین ہاؤس گیسوں میں 50فیصد تک کمی کا ہدف پورا کیا جا سکے گا‘ قابلِ کاشت زمین میں 20فیصد سے زائد اضافہ بھی ہو جائے گا اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکڑ فٹ تک کا اضافہ بھی ممکن بنا لیا جائے گا۔ اسی طرح توانائی کے شعبے میں قابلِ تجدید توانائی کا حصہ دس فیصد تک بڑھانا بھی مشکل ثابت نہیں ہو گا اور غربت کی شرح میں 13فیصد تک کمی لانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں ہو گا۔ اگرچہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 40فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق 2026ء تک یہ شرح 40فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ لیکن جب آگے بڑھنے کا عزمِ مصمم کر رکھا ہو تو ایسی رپورٹوں کو نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔
میں نے ہر حکمران کے دور میں سنا‘ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ اس کی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے ملکی معیشت ٹیک آف کی پوزیشن پر آ گئی ہے اور اب ملک کے معاشی معاملات بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ دعویٰ تقریباً ہر حکمران نے کیا ہو گا‘ لیکن پھر پتا نہیں کیا ہوتا ہے کہ ٹیک آف کی پوزیشن پر آئی ہوئی معیشت ٹیک آف کرنے کے بجائے ٹھُس ہو جاتی ہے اور پھر سے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیتی ہے۔ ٹیک آف کے دعوے کرنے والی حکومت یا حکمران رخصت ہوتا ہے تو اگلی حکومت اور حکمران برسر اقتدار آتے ہی یہ واویلا شروع کر دیتی یا کر دیتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا‘ خزانے میں کچھ بھی نہیں ہے‘ ملکی معاملات چلانے کے لیے مقامی اور بیرونی قرضوں کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘ اور یہ کہ ان قرضوں کے حصول کے لیے ہمیں قرض دہندہ کی کڑی شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی‘ اور اس کے لیے عوام کو قربانی دینا پڑے گی۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ملکی و غیرملکی قرضے حاصل کیے جاتے ہیں۔ قرض دہندگان کی شرائط تسلیم کی جاتی ہیں‘ جو اکثر عوام کے گلے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد نئی حکومت یا حکمران کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ معیشت ٹھیک ہو رہی ہے‘ اب لوگوں کو ریلیف دیا جائے گا اور آخر میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ معیشت ٹیک آف کی پوزیشن پر آ گئی ہے۔ یہ ٹیک آف ہوتا کبھی کسی نے دیکھا نہیں کیونکہ اس کی نوبت کبھی آئی ہی نہیں۔ معاشی ٹیک آف کے لیے ٹھوس اقتصادی پالیسیاں اور ان پالیسیوں پر پائیدار عملدرآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔ گردن تک قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک و قوم کبھی ٹیک آف کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے۔ پتا نہیں کیوں پھر بھی حکمران بار بار عوام کو یہ یقینی دہانی کراتے ہیں کہ ہماری معیشت ٹیک آف کرنے والی ہے۔ ویسے تو ایسی نوبت کبھی نہیں آئی‘ لیکن ہماری قسمت ایسی ہے کہ جب کبھی معاملات کچھ ٹھیک ہونے لگتے ہیں‘ حکومت کا کسی نہ کسی طرح خاتمہ ہو جاتا ہے‘ وزیراعظم کو ہٹا دیا جاتا ہے یا حکومت کی میعاد ختم ہو جاتی ہے یا پھر تحریک عدم اعتماد پیش کر کے حکومت کو چلتا کیا جاتا ہے۔ یہ سارے معاملات اور معاشی ٹیک آف کے دعوے ہم سب ایک عرصے سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔
ماضی کی لیڈرشپ کی ان تمام کج ادائیوں کے باوجود میرا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے دعا کی جائے تو وہ ضرور ایسا کوئی ذریعہ پیدا کر دے گا جس سے ہمیں قرضوں سے نجات مل جائے گی‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش حد تک بڑھ جائیں گے اور عوام کی قوتِ خرید میں کچھ اضافہ ہو جائے گا۔ اللہ کرے کہ اس بار معیشت کے ٹیک آف کرنے کی پوزیشن پر آنے کا دعویٰ آخری ثابت ہو‘ اور اب معیشت حقیقتاً ٹیک آف کر جائے‘ کچھ اُڑنا‘ کچھ آگے بڑھنا‘ مستحکم ہونا سیکھ جائے‘ لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب حکومت اور حکمران اپنے ہی بنائے ہوئے پروگراموں اور اپنے ہی مرتب کردہ منصوبوں پر عملدرآمد کرنا بھی سیکھ جائیں۔ منصوبے تو یہاں بہت بنتے رہے ہیں‘ اب بھی بن رہے ہیں‘ لیکن مسئلہ ان پر عمل درآمد کا ہے۔ جب عمل نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ بھی سامنے نہیں آتا اور معاملات وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں‘ جہاں کوئی منصوبہ شروع کرتے وقت یا کسی پروگرام کا اعلان کرتے وقت ہوتے ہیں۔ اب بھی معیشت کے ٹھیک ہونے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں وہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لاد کر اور یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر کے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ اس میں حکمرانوں کی جانب سے شاید ہی کوئی حصہ ڈالا گیا ہو گا۔ ادھر سے بار بار سادگی اپنانے کے وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں‘ لیکن درحقیقت سادگی اپنائی نہیں جاتی۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں کئی کئی گناہ اضافہ کر دیا گیا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10سے 15فیصد سالانہ اضافہ کرتے ہوئے تو 100بار سوچتے ہیں‘ لیکن اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ چلیں ان کی تنخواہوں میں اضافہ بھی خوش آئند ہے‘ لیکن کچھ ریلیف عوام کو بھی تو ملنا چاہیے اور یہ جلد ملنا چاہیے‘ اس کے لیے 2035ء کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
نئے سال کا آغاز ہے تو میری پروردگارِ عالم سے یہی دعا ہے کہ عوام اور حکمران دونوں اس ملک کے ساتھ مخلص ہو جائیں۔ حکمران جو وعدے کریں انہیں پورا کرنے کی توفیق بھی انہیں ملے اور عوام تو دہائیوں سے قربانی دیتے ہی آ رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اس بار میرے ملک کی معیشت حقیقتاً ٹیک آف کر جائے‘ حکومت کا اُڑان پاکستان پروگرام کامیاب ہو جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں