اکثر لوگوں کو پہاڑ‘ جنگل اور صحرا اچھے لگتے ہیں۔ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں۔ اس لیے جب بھی سفر کا موقع ملے اور جنگلوں کا رُخ کریں یا پہاڑوں سے گزریں تو عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ مجھے جو بھی سفر یاد ہیں وہ جنگلوں‘ صحرائوں یا پہاڑوں ہی کے ہیں۔اس دفعہ امریکہ میں بھی ایسے جنگل ڈھونڈ لیے جہاں کئی دن رہا جاسکتا ہے۔ فیصل آباد کے فراز گجر نے ڈیلاویئر ریاست میں ایک ایسا جنگل ڈھونڈ رکھا ہے۔ ڈھونڈنا کیا اپنی ملکیت میں لیا ہوا ہے۔ چاروں طرف خوبصورت جنگل اور درمیان میں لکڑی کا بنا ایک پیارا گھر جو کسی انگریز نے بڑی محبت اور چاہت سے اپنے رہنے کیلئے تعمیر کرایا تھا۔ اس موسم میں وہاں سردی اور برفباری عروج پر ہوتی ہے۔ ہر طرف رنگ برنگے پتے پورے جنگل میں پھیلے ہوتے ہیں۔ ان رنگوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے کسی ماہر پینٹر نے کائنات کے رنگ بکھیر دیے ہیں۔ آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ ان رنگیلے پتوں پر بس چلتے جائیں۔ ان خشک‘ رنگیلے پتوں کی اپنی ہی آواز ہوتی ہے جو آپ کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ پتے آپ کے قدموں کو اپنے اوپر محسوس کر کے خوش ہورہے ہیں یا اپنا سکون تباہ ہونے پراحتجاج کررہے ہیں۔ ان پتوں کی آواز کا اپنا ایک رومانس ہے جو آپ کو اس وقت محسوس ہوتا ہے جب چاروں طرف طویل قامت درخت آسمان سے باتیں کررہے ہوں‘ خاموشی کا راج ہو‘ پرندوں تک کی آواز کہیں سے سنائی نہ دے اور آپ برفانی سردی کو اپنے اندر تک محسوس کرتے ہوئے جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کچھ تجسس ‘ کچھ خوف اورکچھ احتیاط کیساتھ چل رہے ہوں۔تجسس اس بات کا کہ اس جنگل میں آگے کیا دیکھنے کو ملے گا‘ کہیں جانوروں کی کھوپڑیاں پڑی ہوں گی جنہیں کسی دوسرے جانور نے شکار کیا ہوگا‘ خوف اس بات کا کہیں اس جنگل میں سے اچانک کچھ نکل نہ آئے۔ کوئی جنگلی جانور‘ کوئی خوفناک چیز جو آپ پر حملہ کر دے۔ خشک پتوں میں چھپے کسی سانپ پر آپ کا پائوں نہ پڑ جائے۔ پرانے جنگل میں صدیوں سے گہری نیند سویا اژدھا نہ جاگ اٹھے‘ یا پھر کہیں سے خونخوار بندہ نمودار نہ ہوجائے جو کبھی ان جنگلوں میں گم ہو گیا تھا اور آپ سے پوچھ بیٹھے کہ آپ کون اور کہاں؟ ایک اجنبی سرزمین پر اکیلے پتوں کی سرسراہٹ میں چل رہے ہوں اور پھر کوئی آپ کو روک لے۔
ویسٹرن اتنی دیکھ رکھی ہیں کہ ہر قدم پر یوں لگتا جیسے ابھی سامنے سے کائو بوائے ٹائپ گھڑ سوار سر پر ہیٹ پہنے‘ ہاتھ میں بندوق تھامے آپ کو ہینڈز اَپ کرا دے گا۔ وہ ہیپی ٹریگر کائو بوائے گولی پہلے چلائے گا اور تعارف بعد میں مانگے گا۔ لیکن انسانی تجسس ایک ایسی چیز ہے جو آپکے خوف پر حاوی آجاتا ہے۔ شاید انسان کو جنت سے نکلوانے والی جبلت بھی یہی تجسس تھا اور انسان آج جس ترقی کی خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے وہ بھی اس تجسس کے مرہونِ منت ہے۔ اگر انسان کے اندر تجسس نہ ہوتا تو وہ ہزاروں سال قبل کبھی غار سے باہر نکل کر نہ دیکھتا کہ باہر کی دنیا کیسے دکھائی دیتی ہے۔ ان کے علاوہ اس جنگل میں کون رہتا ہے؟ کوئی اور مخلوق بھی اردگرد بستی ہے اور اگر بستی ہے تو وہ کیسی لگتی ہے؟ انسانی تجسس ہی انسان کو اپنی دھرتی اور اپنے وطن سے دور لے گیا۔ انسان نے ہزاروں میل کے سفر طے کیے اور نئی دنیا تلاش کی‘ خطرات کا سامنا کیا‘ سمندروں سے لڑے‘ صحرائوں میں بھوکے پیاسے دن گزارے‘ جانیں دیں‘ میدانوں میں سے گزرے‘ جان جوکھوں میں ڈالی لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور یہ انسان کبھی ایک جگہ نہ رکا۔ یہ چلتا ہی رہا۔ تجسس اسے چلاتا رہا۔ نامعلوم کا خوف اس پر حاوی نہ ہوسکا۔
یہی کیفیت میری اس وقت تھی جب میں اس جنگل میں اکیلا چل رہا تھا کہ انسان کہاں سے چلا اور کہاں جا نکلا۔ میں جب بھی کسی جنگل کو دیکھتا تو مجھے کروڑ کے قریب واقع جنگل یاد آجاتا۔ کروڑ سے لیہ کی طرف جائیں تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر وہ سرکاری جنگل تھا۔ اس کے اندر سے ایک نہر گزرتی اور ایک سڑک۔ اس جیسی خوبصورت سڑک کبھی زندگی میں نہ دیکھی۔ گرمیاں ہوں یا سردیاں یا موسم بہار یا خزاں اس جنگل سے گزرنے والی سڑک کے اپنے ہی رنگ تھے۔ میں روز سکول جانے کے لیے اس سڑک سے دو بار ویگن پر سوار گزرتا۔ ایک صبح اور ایک لیٹ دوپہر‘لہٰذا میں نے وہ سب منظر دیکھ رکھے ہیں کہ اس جنگل کی صبح کیسے ہوتی تھی اور سردیوں میں ڈھلتی شام کے سائے اس جنگل کی اداسی میں مزید کتنا اضافہ کر دیتے تھے۔ یوں لگتا کہ انسانوں کی طرح درخت اور جنگل بھی موڈ بدلتے ہیں۔ سردیوں میں وہ اکیلے‘ تنہا اور اداس لگتے۔ ان کے قد بڑھ جاتے لیکن وہ بے لباس ہوجاتے۔ سب پتے جھڑ جاتے اور نیچے زمین پر ٹنوں کے حساب سے وہ پتے اپنے شجر سے بچھڑ کر زندگی کا وجود کھو بیٹھتے۔ وہ سرسبز پتے جن میں کبھی جان تھی‘ جنہیں اپنی جوانی پر فخر تھا‘ اپنی خوبصورتی پر ناز تھا‘ جو اونچے قد کے درختوں پر تیز ہوا میں لہلہاتے‘ اٹکھیلیاں کرتے‘ طوفانی ہوائوں سے ٹکر لے لیتے تھے اور درخت کی ٹہنیوں پر اپنے قدم جمائے رکھتے وہ اب سردی کی پہلی آمد پر کانپ کر رہ جاتے۔
شجر سے بچھڑنے کا موسم قریب آن پہنچا تھا۔ اب وقتِ زوال تھا۔ جوانی‘ عروج اور خوبصورتی سب ختم ہونے والی تھی۔ اب پرانی نسل کا چل چلائو تھا۔ اب نیا موسم آئے گا جس میں نئے پھول درختوں پرکھلیں گے‘ وہ جوان ہوں گے۔ اب وہ خود کو خوبصورت کہلوائیں گے۔ انہیں اب اپنے حسن پر ناز ہوگا۔ درختوں پر اُگنے والی اس نئی نسل کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ ان سے پہلے بھی حسین پتے تھے‘ جو اسی طرح اپنی جوانی پر ناز کرتے تھے۔ جنہیں خود پر یقین تھا کہ ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا کیونکہ وہ بہار میں اُگے تھے۔ انہوں نے تو خزاں دیکھی ہی نہیں تھی۔ ان نئی کونپلوں نے تو اس وقت جنم لیا تھا جب ہر طرف ہریالی تھی‘ چار سُو پرندوں کے گیت تھے‘ سریلی آوازوں کا ہجوم تھا۔
مجھے اس امریکی جنگل میں خشک‘ خوبصورت پتوں کی آوازوں کے درمیان یاد آیا کہ جب کروڑ کے قریب والے جنگل میں خزاں کا راج ہوتا تھا تو آپ دور دور تک جنگل کے اندر دیکھ سکتے تھے۔ میں کھڑکی کے قریب بیٹھتا تاکہ وہ چند لمحے اپنے اندر قید کرسکوں۔ کبھی دل کرتا کہ اگلے بس سٹاپ پر اُتر جائوں اور اس جنگل میں دور تک اکیلا چلتا جائوں‘ لیکن پھر میرے تجسس پر خوف طاری ہوجاتا۔ سوچتا کہ چلو کبھی موقع ملا تو ضرور اس جنگل میں اکیلا پھروں گا۔ دیکھوں گا کہ جنگل اندر سے کیسا لگتا ہے‘ اس جنگل میں کون کون رہتا ہوگا‘ کس کا گھونسلا تو کس کا زمین کے اندر گھر ہے؟ خزاں کا اپنا الگ رنگ تھا تو بہار کی آمد اس پورے جنگل کو ایک ایسا رنگ دے دیتی کہ یوں لگتا جیسے اداسی جنگل سے ختم ہو رہی ہے‘ سب رنگ لوٹ رہے ہیں‘ خوشی واپس لوٹ رہی ہے‘ درخت دوبارہ اپنے پسندیدہ لباس پہن رہے ہیں۔ وہی رنگ‘ وہی ہریالی‘ وہی گیت اور وہی موسیقی واپس آ رہی ہے جسے سرد موسم نگل گیا تھا۔ جب بہار کے موسم میں اُس جنگل کے درمیان سے ویگن گزرتی اور بمشکل ایک منٹ سے بھی کم وقت میں جنگل کو عبور کر جاتی تو مجھے یوں لگتا جیسے میں ایک خواب میں تھا اور نیند کھل گئی تھی۔
برسوں بعد اپنے روم میٹ اور دوست کبریا خان سرگانی کو فون کیا اور اسے کہا کہ میں نے کسی دن آنا ہے اس جنگل میں اکٹھے چلیں گے۔ کبریا نے ایک آہ بھری اور بولا: آپ لیٹ ہوگئے ہیں کامریڈ۔ جنگل تو کب کا کٹ چکا۔ کب کی اس کی لکڑی اس کے سرکاری محافظوں نے مافیا کو بیچ دی۔ وہ جنگل جو تمہاری یادوں میں ہے اسے سنبھال کر رکھو۔ وہ جنگل کب کا مر چکا ہے۔ اب تو بس جلی ہوئی‘ ادھر اُدھر بکھری‘ سوکھی‘ اداس اور بوڑھی لکڑیوں کے پرانے آثار ہی ہیں جو گزرے وقتوں کا پتہ دیتے ہیں کہ کبھی یہاں بھی زندگی سے بھرپور ایک ہنستا بستا جنگل تھا۔