''اگر میں آج یہاں کھڑی ہوں تو ایک سرکاری سکول کے ریاضی اولمپیاڈ کی وجہ سے کھڑی ہوں‘‘۔ یہ تباتا امرال کے الفاظ ہیں۔ ایک گھریلو ملازمہ اور بس ٹکٹ ایجنٹ کی بیٹی امرال برازیل کے سب سے بڑے‘ امیر ترین اور انتہائی غیرمساوی شہر ساؤ پاؤلو کے مضافات میں ایک غریب محلے میں پیدا ہوئی۔ وہ ابتدائی عمر سے ہی ایک ذہین طالبہ تھی۔ 11 سال کی عمر میں اس نے برازیل کے ایک سرکاری سکول میں ریاضی اولمپیاڈ میں اپنا پہلا تمغہ جیتا تھا۔ امرال کا کہنا ہے کہ یہ انعام ایک سپلیمنٹری ویک اینڈ کورس میں تھا اور میرے لیے ایک چھوٹی سی سکالرشپ لے کر آیا تھا۔ جس کی وجہ سے میں 11سال کی عمر میں یہ دیکھ سکی کہ دنیا بہت بڑی ہے‘ جس کا مطلب اس وقت پہلی بار شہر کے متمول محلوں میں جانے کے قابل ہونا تھا۔ اس انعام نے مجھے ایک مختلف مستقبل کے بارے میں خواب دیکھنے کا حق دیا۔ اس کے بعد امرال نے برازیل اور بیرونِ ملک ریاضی‘ کیمسٹری‘ روبوٹکس اور فلکیات کے اولمپیاڈز میں 40سے زیادہ تمغے جیتے (ہمیشہ قومی ٹیم کی واحد لڑکی کے طور پر) اور ایک ایلیٹ ہائی سکول کے لیے مکمل سکالر شپ بھی جیتا۔ وہ اپنے خاندان میں سیکنڈری سکول مکمل کرنے والی پہلی لڑکی تھی۔ فزکس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے برازیل کی سب سے باوقار یونیورسٹی میں داخل ہونے کے فوراً بعد اس نے کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور کولمبیا‘ ہارورڈ‘ پرنسٹن‘ پنسلوینیا اور ییل یونیورسٹیوں میں بھی مکمل سکالر شپس حاصل کر لیں۔ اس نے ہارورڈ میں فلکی طبیعیات کا انتخاب کیا۔ یہ جاننے کے چار دن بعد کہ اسے وہاں داخلہ مل گیا تھا‘ اس کے والد‘ جو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار اور منشیات کا عادی تھا‘ نے خودکشی کر لی۔ اس صورتحال میں اپنے غمزدہ خاندان کو چھوڑنے کا بھاری بوجھ اٹھاتے ہوئے اس نے اعلیٰ تعلیم کیلئے خاندان کو چھوڑنے پر غور کیا۔ امرال کا کہنا ہے کہ تب مجھے ایسا لگا جیسے زندگی مجھ سے کہہ رہی ہے کہ میں احمق بننا چھوڑ دوں اور وہاں واپس چلی جاؤں جہاں سے میرا تعلق ہے۔ وہ اس کشمکش سے واپس ٹریک پر لانے کا کریڈٹ اپنے سابق اساتذہ کو دیتی ہے۔ امرال کا کہنا ہے کہ میرے اساتذہ نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر میں سب کچھ چھوڑ دیتی ہوں تو برازیل کی ایک غریب لڑکی کو یہ موقع دوبارہ کبھی نہیں ملے گا۔ برازیل کے ایک سرکاری سکول سے نکل کر ہارورڈ اور اس جیسے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پہنچنے کی ایک قیمت ہے۔ اس نے لاطینی امریکہ میں تقابلی سیاست کے کورس کے لیے بھی سائن اَپ کر لیا۔ یہ اس کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس حوالے سے امرال کا کہنا ہے کہ مجھے لگا کہ یہ کورس جیسے میری زندگی کے بارے میں تھا۔ لاطینی امریکہ میں عدم مساوات کیوں ہے اور اس کا حل دوسروں کے بس میں کیوں نہیں ہے؟ اس کلاس کے پروفیسر نے امرال کے سوالات پر مذاق میں کہا کہ امرال‘ جس نے ہارورڈ میں جانے سے پہلے تقریباً ڈیڑھ سال انگریزی پڑھی تھی‘ کے پاس سب سے خراب انگریزی اور سب سے بہترین سوالات تھے۔ سائنس کے تمغوں کے ڈھیر کے باوجود اس نے فلکی طبیعیات سے پولیٹکل سائنس میں میجرز کو تبدیل کیا اور برازیل میں تعلیمی اصلاحات پر ایک مقالے کے ساتھ گریجویشن کی۔ اور اس نے یہ سب کچھ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مختلف ملازمتیں کرتے ہوئے کیا۔
2014ء میں وطن واپس آکر اس نے سب سے پہلے فروغِ تعلیم کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی‘ جس نے جلد ہی کئی ایوارڈز اور بین الاقوامی فنڈنگ حاصل کی۔ 2018ء میں‘ 25سال کی عمر میں اس نے کانگریس کا الیکشن لڑا اور ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ساؤ پاؤلو میں منتخب ہونے والے 70 قانون سازوں میں چھٹے نمبر پر رہی۔ 2022ء میں وہ پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ووٹوں کے ساتھ دوبارہ منتخب ہوئی۔ پچھلے سال اس نے ساؤ پاؤلو کی میئر کا الیکشن لڑا۔ اگرچہ اس الیکشن میں ایک سخت مقابلے میں وہ چوتھے نمبر پر رہی لیکن اس نے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اپنے ووٹ تقریباً دو گنا کر لیے۔ امرال کی اولین ترجیحات میں سے ایک ریاضی کے اولمپیاڈز کے لیے کانگریس سے مالی اعانت حاصل کرنا ہے‘ جس نے اسے ایک بڑی دنیا کی پہلی جھلک دکھائی تھی۔ یہ پروگرام 2004ء میں ملک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کی طرف سے تخلیق کیا گیا تھا‘ اُسی سال اس نے اپنا پہلا تمغہ جیتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس پروگرام کے بجٹ میں کافی کٹوتیاں کی جا چکی ہیں۔ امرال کہتی ہے کہ یہ پروگرام فروغِ تعلیم کیلئے ایک سستی اور مؤثر پالیسی ہے۔ ریاضی کے ان مقابلوں کو جاری رکھنا‘ امرال کے لیے ذاتی دلچسپی کا باعث ہے۔ وہ وزیر جس نے ان مقابلوں کا اجرا کیا تھا‘ وہ اس کے ایک دوست جواؤ کیمپوس کا باپ تھا‘ جواؤ اب خود ایک ابھرتا ہوا نوجوان سیاستدان ہے‘ جس سے وہ پہلی بار ایک ساتھی قانون ساز کے طور پر ملی تھی اور جس نے گزشتہ سال برازیل کی شمال مشرقی ریاست پرنمبوکو کے دارالحکومت ریسیف کے میئر کا دوسری بار الیکشن جیتا تھا۔ امرال تسلیم کرتی ہے کہ ''تعلیمی میدان میں میری رفتار ایک شماریاتی کرشمہ ہے۔ بہت کچھ غلط ہو سکتا تھا لیکن میں بہت خوش قسمت تھی‘‘۔ اس لیے وہ ایسے میکانزم بنانے پر توجہ مرکوز کرتی ہے جس سے دوسرے ہونہار طلبہ کو تقدیر کے بجائے پالیسیوں پر انحصار کرنے کا موقع ملے۔ ان پالیسیوں کے پہلے حصے میں طلبہ کی سوچ کے افق کو وسیع کرنا اور ان میں خواب دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں ان کی مدد کرنا شامل ہے۔ جب تم غریب ہو تو تم پر غرور اور فخر کے بجائے افسوس کیا جا تا ہے۔ یا پھر یہ کہ آپ عام دھارے کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
برازیل ایک قدیم تہذیب ہے۔ یہاں شہروں کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ ایک شہر ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسی قدیم تہذیب میں شہروں کا جال بچھ جانا کوئی انوکھی بات نہیں‘ لیکن شہروں میں تہذیبی عدم مساوات بہت ہے۔ حیران کن عدم مساوات‘ جس کے عجب مظاہر موجود ہیں۔ ذرا ایک خوبصورت شہر کے کنارے پر سماجی عدم مساوات کے ایک مظاہرے کا تصور کیجئے۔ شہر کے ایک کتبے کے نیچے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی بچھی ہوئی ہے‘ اس کے مختلف کونوں پر مختلف لوگ آرام فرما ہیں۔ ان میں سے کوئی غیر قانونی خرید و فروخت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کوئی سستے ترین کپڑے بیچ کر اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کا خواہش مند ہے تو کوئی کپڑے فروخت کر کے لینڈ لارڈ کا کرایہ ادا کرنے کا خواہش مند ہے‘ بس زندگی کی ایک ڈگر ہے جس پر ہر کوئی رواں دواں ہے۔ اس ڈگر پر چلتے چلتے زندگی کہاں جا کر ختم ہوتی ہے‘ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ زندگی کا ایک عجب پہلو اور بھی ہے۔ جب کوئی بااثر‘ طاقتور اور امیر شخص اس پر ہاتھ صاف کر لیتا ہے جس کے خواہش مند آپ ہوتے ہیں۔ ایسا زیادہ تر بااثر لوگوں میں ہی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہی تو شہر کی رونق ہے۔ یہ رونق نہ ہو تو پھر شہر کیسا؟ لیکن یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ شہر کی یہ رونقیں‘ شہر کی یہ گندے چوبارے‘ یہ بے ترتیبیاں اور مسائل اپنی جگہ مگر یہ تو عام باتیں ہیں۔ شہروں میں ہونے والا استحصال ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ شہری زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور کچھ جدوجہد میں مصروف ہیں‘ مصائب برداشت کر رہے ہیں اور اپنی ہمت اور حوصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ جدوجہد کرکے آگے بڑھ چکے ہیں اور کچھ اب بھی جدوجہد کا یہ سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی زندگی ہے۔