بلوچستان جغرافیائی سیاست کا شکار یا محرومیوں سے دو چار؟

آج میں اپنے کالم میں یہ جائزہ پیش کرنا چاہتاہوں کہ بلوچستان جغرافیائی سیاست کا شکار ہے یا سماجی و اقتصادی محرومیوں کا؟ بلو چستان میں محرومیوں کے نام پر مختلف دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں‘ جن کی قیادت بیرونِ ملک دشمن قوتوں کے وسائل پر پل رہی ہے جبکہ محرومی و پسماندگی کا شکوہ کرنے والا ہر بلوچ ہتھیار بند نہیں ہے۔ یہ دہشت گرد (جو خود کو بلوچ قوم پرست کہلواتے ہیں )انفراسٹرکچر‘ مسلح افواج اور شہری آبادی ان کاہدف ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس پورے تناظر میں قدرتی وسائل کے غیر منصفانہ استعمال‘ لاپتہ افراد‘ اور کم انسانی ترقی سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ ان قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے قدرتی وسائل سیندک‘ ریکوڈک اور سوئی کا بے دریغ استحصال کر رہی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح عسکریت پسندی کو جواز فراہم کرنے کے لیے سماجی اور اقتصادی چیلنجز سے فائدہ اٹھایا جا رہاہے۔
سیندک کو چین کی میٹرولوجیکل کنسٹرکشن کمپنی (MCC) اور پاکستان کی سیندک میٹلز لمیٹڈ (SML) کے درمیان لیز کے معاہدے کے تحت چلایا جاتا ہے۔ لیز معاہدہ 2022-37 ء کے مطابق‘ خالص منافع MCC کے لیے 47 فیصد‘ SML کے لیے 37 فیصداور بلوچستان کے لیے 16فیصد کے حساب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ مزید برآں ‘ بلوچستان کو سیلز ویلیو پر رائلٹی کے طور پر 6.5 فیصد اور خالص منافع پر کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے طور پر 6.5 فیصد ملتا ہے۔ دوسری طرف ریکوڈک سونے اور تانبے کی کان میں فی الحال 50 فیصدبیرک گولڈ کارپوریشن‘ 25 فیصدوفاقی اداروں اور 25 فیصدبلوچستان کے پاس ہے۔ صوبے کو ریکوڈک سے 25 فیصدمنافع حاصل ہو رہا ہے جس میں مقامی روزگار کے علاوہ صرف 15 فیصدصوبائی سرمایہ کاری ہے۔پاکستان کی گیس کی فراہمی سندھ (50فیصد)‘ بلوچستان (15فیصد)‘ خیبر پختونخوا (10فیصد)‘ پنجاب (دوفیصد)‘ اور درآمد شدہ ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس (RLNG) (23فیصد) سے آتی ہے۔ بلوچستان کی قدرتی گیس ملک کے قومی گیس میں 15 فیصد حصہ ڈالتی ہے جبکہ صوبائی استعمال پانچ فیصد ہے۔ باقی 10فیصد قدرتی گیس دوسرے صوبوں کو فروخت کی جاتی ہے۔ یعنی بلوچستان کو صوبائی قدرتی وسائل سے اس کا جائز معاشی منافع مل رہا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان تیل اور گیس کے علاوہ تمام قدرتی وسائل پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے‘ لہٰذا وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تک لاپتہ افراد کے خودساختہ بیانیے کا تعلق ہے تو نام نہاد بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں پانچ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ 2011 ء میں تشکیل دیے گئے جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ سے متصادم ہے۔ بلوچستان میں‘ 2752 میں سے 2284 افراد اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں اور جنوری 2024 ء تک صرف 468 لاپتہ افراد کے مقام کا پتہ نہیں چل سکا۔ تاہم اب دہشت گردوں کو بھی کو لاپتہ افراد کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے اور ایسے لاپتہ افراد دہشت گرد حملوں میں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر طیب بلوچ جو اپریل 2024 ء میں لاپتہ ہو گیا تھا‘ 26 اگست 2024ء کو بیلہ میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملے میں ملوث تھا۔ کریم جان نے 20 مارچ 2024 ء کو گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملہ کیا۔ ایک اور لاپتہ شخص عبدالودود ستاکزئی 30 جنوری 2024 ء کو مچھ شہر پر حملے میں ملوث پایا گیا تھا۔ سلیم بلوچ جولائی 2022 ء میں زیارت آپریشن کے دوران مارا گیاتھا۔ عموماً لاپتہ افراد کی آڑ میں‘ قومی سلامتی کے اداروں کو بدنام کیاجاتا ہے۔
بلوچستان کو صحت‘ تعلیم اور اقتصادی چیلنجز کا بھی سامنا ہے‘ اس کے لیے وفاقی حکومت نے گزشتہ دو دہائیوں میں متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے ۔ این ایف سی ایوارڈ 2010 ء میں بلوچستان کا حصہ 5.11 فیصد سے بڑھ کر 9.09 فیصد ہو گیا ۔اس فنڈنگ کی بدولت بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات اورشاہرائوں کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ تاہم بلوچستان کی انسانی ترقی کا انڈکس (HDI) اب بھی چاروں صوبوں میں سب سے کم ہے۔ پچھلی ڈھائی دہائیوں میں بلوچستان کا انسانی ترقی کا سکور بتدریج بڑھ کر 0.473 ہو گیا ہے۔اگرچہ بلوچستان کی ترقی کے اشاریے مثبت طور پر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن عدم استحکام اور شورش کی جڑیں ابھی تک موجود ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے میں‘خاص طور پر گوادر پورٹ اور سی پیک کی ترقی کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی و اقتصادی مسائل کو دہشت گردی کی وجہ نہیں سمجھا جا سکتا۔دہشت گردوں کا اصل ہدف سی پیک ہے۔ سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کا براہِ راست تعلق بلوچستان میں امن و استحکام سے ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سی پیک کے بعد دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ہلاکتوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ اس کا واحد مقصد عام بلوچ آبادی کو سی پیک کے معاشی فوائد سے محروم کرنا اور حکومت کوسکیورٹی کے مسائل میں الجھا کر رکھنا ہے۔تاریخی طور پربلوچستان میں بدامنی صوبے کے شمالی حصے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے آس پاس مرکوز تھی۔ تاہم سی پیک کے بعد ڈیرہ بگٹی اور اس کے گردونواح میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں کمی آئی ہے مگر گوادر اور خضدار میں ایسے واقعات بڑھے ہیں ۔
دہشت گردی کی صوبے کے شمال سے جنوب کی طرف سی پیک کے راستے کے ساتھ ساتھ منتقلی ‘ تنازع کی بدلتے ہوئے محرکات کی جانب واضح اشارہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کا قدرتی وسائل کے غیر منصفانہ استعمال‘ لاپتہ افراد اور کم انسانی ترقی کا بیانیہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے کارفرما عوامل کی عکاسی نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ترقیاتی پیکیجز اور HDIمیں بہتری کے ساتھ دہشت گردی میں کمی آنی چاہیے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ سی پیک کو ختم کرنا ان دہشت گرد گروہوں کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔یہ عدم استحکام بلوچستان کو اپنے وسائل کے مکمل استعمال سے روکتا ہے اور امریکہ اور بھارت جیسے بیرونی عناصر کو سٹریٹجک فائدہ پہنچاتا ہے۔ امریکہ کے نزدیک غیر مستحکم بلوچستان سی پیک کی کامیاب تکمیل اور پاک چین مشترکہ جغرافیائی مفادات میں رکاوٹ ہے اور دہشت گرد گروپوں کی حمایت کے ذریعے پاکستان اور چین کا مقابلہ کرنا بھارت کے جغرافیائی سیاسی مفاد میں ہے۔ را کے ایجنٹ بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ بلوچستان جغرافیائی سیاسی معرکہ آرائی کا میدان بن چکا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی بیرونی طاقتوں کے تزویراتی مفادات کو پورا کرتی ہے جس کا مقصد چین اورسی پیک کو نقصان پہنچانا ہے۔مجموعی طور پرشکایات کی داستان بلوچستان میں جغرافیائی سیاسی مسابقت کا احاطہ کرنے کے لیے ایک پہلو کا کام کرتی ہے۔ دشمن قوتوں کے حمایت یافتہ قوم پرست جھوٹے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف عوامی جذبات بڑھکانے کے لیے پھیلائے جا تے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ نسبتاً کم انسانی ترقی ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ لہٰذا‘ جغرافیائی سیاسی مسائل کو تزویراتی سطح پر حل کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی ‘آپریشنل سطح پر سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ پس یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بلوچوں کی محرومی کا نعرہ غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بلوچستان کے معاملے میں ہماری قو می و سیاسی قیادت اور ریاست سے کچھ کمیاں‘کوتاہیاں ضرور ہوئیں مگر متعلقہ ادارے ان کا ازالہ کرنے میں کوشاں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں