"RS" (space) message & send to 7575

مذاکرات، پی ٹی آئی پرانی روش پر قائم

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آغاز اہم پیشرفت ہے مگر اسے نتیجہ خیز بنانا فریقین کی بصیرت پر منحصر ہے۔ پچھلے دو سال کے سیاسی حالات شاہد ہیں کہ مزاحتمی بیانیے سے کچھ حاصل نہیں ہو ا‘ اگر کوئی راستہ نکلا تو وہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکلے گا‘ سو مذاکرات کو ہر صورت جاری رہنا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دوسرے دور میں اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری طور پر پیش نہیں کیا‘ البتہ دو پیشگی مطالبات سامنے آئے ہیں‘ ایک خان صاحب اور سیاسی کارکنوں کی رہائی اور دوسرانو مئی اور 26نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ۔ خان صاحب کی رہائی کے مطالبے کو چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ بنا کر بھی پیش کیا سکتا تھا مگر پی ٹی آئی نے قبل از وقت ایک سخت شرط رکھ دی ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے ابتدائی طور پر ان مطالبات پر اکتفا کیا جا سکتا ہے جو فریقین کے درمیان متفق ہیں یا موجودہ صورتحال کے تحت پی ٹی آئی کسی معاملے پر تعاون کرکے اپنے اصل مقاصد حاصل کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر حکومت میثاقِ معیشت پر پی ٹی آئی سے تعاون چاہتی ہے‘اورپی ٹی آئی میثاقِ معیشت پر تعاون کا عندیہ دے سکتی ہے۔ یوں 'کچھ دو‘ کچھ لو‘ کی پالیسی اختیار کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا تحریری مطالبات پیش نہ کرنا دانستہ ہے‘ مذاکرات بس ایک بہانہ ہے‘ خان صاحب اب بھی اعلیٰ سطح پر بندوبست کے خواہاں ہیں۔ مذاکرات کے دوسرے دور میں پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنے کیلئے انہیں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات‘ مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پی ٹی آئی کا خان صاحب سے مشاورت پر اصرار بجا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتی اتحاد کی مذاکراتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ پی ٹی آئی کمیٹی عمران خان سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ لے کر آئے تاکہ دونوں کمیٹیاں معاملات کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھا سکیں۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے جس نرمی اور لچک کی ضرورت ہے فی الحال حکومتی کمیٹی کی جانب سے اس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ آگے بھی ایسی ہی لچک کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو خان صاحب کی طرف سے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں تاہم کمیٹی ایک دائرہ کار سے آگے بڑھ کر فیصلے نہیں کر سکے گی۔ کمیٹی ہر موقع پر جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کی محتاج ہو گی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کا مؤقف درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر انہیں فوری کوئی فیصلہ کرنا ہوا اور ان کی ملاقات عمران خان سے نہ ہو سکی تو مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا مشکل ہو جائے گا۔ اس حوالے سے اگر پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی قبل از وقت اپنے خدشات کو دور کرنا چاہتی ہے تو پی ٹی آئی کو بانی سے مشاورت کی یقین دہانی کرانا حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق مذاکرات کیلئے تمام تر سہولیات فراہم کرتی ہے تب بھی خان صاحب کے جیل میں ہونے کی وجہ سے مذاکرات کا دورانیہ طویل ہوتا رہے گا۔ اس لیے اگر خان صاحب کو مذاکرات کا باقاعدہ حصہ بنایا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ‘ یوں مذاکرات کو کم عرصہ میں نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں جب اپوزیشن رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے تھے تو ہم نے اس کی مذمت کی تھی‘ آج قوم کو ہیجان سے نکالنے کیلئے اگر عمران خان صاحب کو پیرول پر رہا کرنا پڑتا ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ خان صاحب کی بنی گالہ میں منتقلی اور نظربندی کی خبروں کے پیچھے بھی دراصل یہی مقاصد تھے کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے‘ تاہم خان صاحب کی بنی گالہ میں نظر بندی کو غلط رنگ دے کر جو پیغام دیا گیا اس نے ایسے امکان کو محدود کر دیا ہے۔ تب پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے کہا کہ حکومت خان صاحب کو بنی گالہ میں نظر بند کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور اسے حکومت کی کمزوری سمجھ کر قبل از وقت مذاکرات کی شرائط رکھ دی گئیں جبکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے اسے کیا سے کیا بنا کر پیش کیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حکومت کو تردید کرنا پڑی کہ اس نے خان صاحب کو بنی گالہ میں نظر بند کرنے کی کوئی پیشکش نہیں کی ۔ یوں خان صاحب کو مذاکرات کا حصہ بنانے کا اگر کسی سطح پر منصوبہ تھا بھی تو پی ٹی آئی نے عجلت میں اس پر پانی پھیر دیا۔ بظاہر یہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہیں مگر دیگر جماعتیں بھی اس مذاکراتی عمل کا حصہ ہیں اور فریقین ان کی مشاورت سے ہی معاملات آگے بڑھا رہے ہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن سے ملاقات اس کی بخوبی عکاسی کرتی ہے کہ مذاکرات کا دائرہ وسیع ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت ختم ہونے کے بعد خان صاحب نے ایوان کی سیاست کے بجائے مزاحمتی رویہ اپناتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ عوام کی حمایت ہر مرض کی دوا ہے‘ مگر ان کے اندازوں سے بہت کم لوگ باہر نکلے۔ خان صاحب نے وقت اور حالات کے تحت اپنی حکمت عملی تبدیل کی مگر مزاحمت مرکزی بیانیہ رہا۔ خان صاحب نے ایک کے بعد ایک سیاسی کارڈ استعمال کیا مگر کوئی بھی کارڈ کارگر ثابت نہ ہوا‘ اُلٹا نو مئی جیسی غلطیاں سرزد ہوئیں اور وہ مقدمات میں پھنس گئے‘ جماعت بکھر گئی اور خان صاحب تقریباً سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اب ان کے پاس کھیلنے کے لیے مزید کارڈ نہیں ہیں اور وہ جس کمزور پوزیشن پر ہیں اس سے حکومت بخوبی واقف ہے۔ ایسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں جوراستہ بھی نکلتا ہے‘ خان صاحب اسے قبول کریں اور اپنی جماعت جو احتجاج میں مصروف ہو گئی ہے‘ اسے ایوان کی راہ دکھائیں۔ اس مقصد کیلئے فوری طور پر دو کام کیے جا سکتے ہیں۔ ایک خیبرپختونخوا حکومت کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانا۔ اس وقت پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ میں کارکردگی کے حوالے سے مسابقت کی فضا ہے‘ مقابلے کی اس دوڑ میں خیبرپختونخوا کہاں ہے‘ یہ پی ٹی آئی کیلئے غور طلب ہونا چاہیے۔ خیبرپختونخوا حکومت دیگر صوبوں کے ساتھ اسی صورت مقابلہ کر سکے گی جب وہ سیاسی مصروفیات سے نکل کر عوامی مسائل پر توجہ دے۔ پی ٹی آئی کا دوسرا مسئلہ سوشل میڈیا پر مہم جوئی ہے جو کسی دور میں پارٹی کا پلس پوائنٹ تھا‘ خان صاحب نے متعدد بار اس کا اظہار بھی کیا اور جب وہ اقتدار میں تھے تو بنی گالہ اور وزیراعظم ہاؤس میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی پذیرائی کی جاتی تھی‘ مگر جنگ اور صلح کے اصول مختلف ہیں اس لیے جب مذاکرات کی بات چل رہی ہے تو سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی منزل سے دور لے جا سکتی ہے۔ فیصلہ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے کہ پرانی روش پر قائم رہتے ہوئے اپنا نقصان کرنا ہے یا سٹریٹجی تبدیل کر کے بہت کچھ پانا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں