"RBC" (space) message & send to 7575

کچھ روشن دریچے

دنیا میں کئی تاریک دور آئے ہیں‘ مگر ان کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی کہیں نہ کہیں علم و حکمت اور فکر و فلسفہ اور تخلیق کی شمع جلتی رہتی ہے۔ منگولوں نے جب وسطی ایشیا سے لے کر بغداد تک اسلامی تہذیب کو تہ و بالا کیا‘ اور قتل و غارت کی ایسی داستاں رقم کی کہ پڑھیں تو روح فنا ہو جاتی ہے‘ تو جہاں اہلِ ثروت اور حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ظلم و ستم کا شکار ہوئے‘ وہاں عالم و فاضل‘ علمی ادارے اور کتب خانے بھی ان کی شقاوت اور درندگی سے نہ بچ سکے۔ ان میں سے جو بچ گئے وہ ہمارے خطے کی سرزمین میں آباد ہوئے اور یہاں انہوں نے اپنا علمی کام جاری رکھا۔ سامراجی دور کچھ مختلف قسم کا تھا کہ طاقت کے ساتھ صنعت‘ تجارت اور نئے علم کی روشنی زیادہ مؤثر ثابت ہوئی۔ یورپی طاقتیں جن ممالک پر قابض ہوئیں اور اپنی سلطنت قائم کی‘ اس کا پورا نظام ہی ایک نئی سلطنت اور ریاست کے ڈھانچے کی صورت میں بدل ڈالا۔ جدیدیت کا سفر اور اس کے ساتھ ریاستی طاقت میں تعلیم کے ذریعے نئے طبقات کی تشکیل اور حصہ داری کی کشش نے سامراجی نظام کو قائم رکھنے کی طاقت مقامی طور پر پیدا کر دی۔ یہ بعد کی بات ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت اور پھر آزادی کی تحریکیں اُبھریں۔ اسی دور میں جدیدیت سے متاثر ہو کر ہر نوع کی ادبی‘ سیاسی اور سماجی تحریکوں کے ساتھ مذہبی خود آگاہی اور شاخوں کے عمل کو نئے زاویوں سے سوچنے کی روایت بھی پڑی۔ دورِ جدید کی سوغاتوں میں سب سے بڑی آزاد فکری‘ تخلیقی صلاحیتوں کا نکھار اور معاشرے میں بے شمار علمی اور فکری اداروں کا قیام شامل ہے‘ جن میں کالج‘ سکول اور جامعات کے علاوہ جدید میڈیا اور کسی حد تک نظر انداز کردہ لکھاری‘ شاعر اور ادیب شامل ہیں۔
سامراج کی سب سے بڑی ناکامی کے اسباب اس کی کامیابیوں میں مضمر تھے۔ ہر خطے میں اس نظام نے لکھنے‘ سوچنے اور عوام کو سیاسی نظریات میں ڈھالنے اور ان کو منظم کرنے کے لیے ہزاروں متحرک رہنما پیدا کر دیے۔ قومی ریاستوں کے قیام کے بعد یہ عمل سست یا تیز‘ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا ہے۔ ان ریاستوں کا سب سے بڑا چیلنج لوگوں کو متحد و یکجا رکھنے اور ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے لیے آزادی‘ ترقی اور خوشحالی کو اپنا دستور بنانا تھا۔ اکثر ممالک میں آزادی کے خواب‘ جو قومی تحریکوں کے زمانے میں ہم نے دیکھے تھے‘ دیسی گوروں کے ریاست اور حکومت پر غالب ہوتے ہی دھندلانے لگے۔ اپنی ہی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں اور اس کا تسلسل آج کل اپنے حالات کے تناظر میں‘ اگر آپ اپنی آنکھیں اور دل کھلے رکھتے ہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔آزادی صرف نعرہ نہیں‘ بنیادی انسانی حقوق اور قومی ریاستوں کے قیام کی جدوجہد کی روح ہے۔ ہماری اکثر ریاستوں کے نئے اور پرانے حکمرانوں نے اداروں کی طاقت کے زور پر پہلا وار ہی اس کی روح پامال کرنے کے لیے کیا ہے۔ سب نے یہی کہا کہ یہ روح ہمارے حالات اور ہماری تاریخ کو سامنے رکھیں تو اجنبی لگتی ہے۔ سامراجیوں کے پاس تو پورا نظام اور تہذیب تھی۔ ہمیں غلام رکھنے کے لیے دیسی حکمرانوں کے پاس صرف خالی خولی نعرے تھے کہ ہمیں ترقی اور خوشحالی چاہیے‘ جمہوریت نہیں۔ وہ بھی جنہیں ہم نے چنا اور قومی ہیرو بنایا‘ آزادی کی روح سے اتنا خوفزدہ تھے کہ کسی کی تلخ بات اور تنقید برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ نہ جانے کتنے ایسے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے کہ مخالفین کو قتل تک کر دیا گیا اور یہاں تک کہ شاعروں‘ ادیبوں اور صحافیوں کو قید و بند اور تشدد کی صعوبتوں سے گزارا گیا۔
جب کوئی دور اپنی تاریکی میں اضافہ کرتا ہے تو پوٹھو ہار کے علاقے سے کسی شاعر کا کلام ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اونچی اونچی دیواریں کبھی پھولوں کی خوشبو کو روک نہیں سکتیں۔ دورِ حاضر کے ذرائع ابلاغ کی سہولتوں کو دیکھیں تو جابر و ظالم حکمران ہر خطے میں بوکھلائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ عرب کے نوجوانوں کی بہارِ انقلاب سے لے کر بنگلہ دیش کے طلبہ کی کامیاب تحریک ہو یا بے شمار ملکوں میں بدعنوان اور غیرجبری رویوں اور حکمران کے خلاف مزاحمت کا عمل ہو‘ ان سہولتوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اب ان کا زور اس بات پر ہے کہ ان سہولتوں کو ختم تو نہیں کر سکتے مگر دو چیزیں تو ممکن ہیں۔ ایک ان کی ترسیل پر پہرہ بٹھا دیں کہ پتا لگتا رہے کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور کہاں پر ہے۔ دوسرے جو ناقابلِ برداشت باتیں کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں‘ ان کا خاطر خواہ بندوبست کرنا چاہیے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ ایسی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی خرید اور اس کو چلانے میں ماہرین کی خدمات پر کیا کچھ اخراجات آ رہے ہیں مگر یہ تخمینے تو عام ہیں کہ سہولتوں کی سست روی سے نوجوانوں کی بیرونی کمپنیوں میں کام اور مزدوری اور اس شعبے میں زرِمبادلہ پرکیا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس بات پر تو ہمارا بھی اتفاق ہے کہ یہ سہولتیں اور میڈیا دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں‘ مگر اس کو دلیل بنا کر معاشرے کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش ہمارے ملک میں کبھی نہ تو بار آور ہوئی ہے اور نہ وہ جو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے پوری قوم کی قسمت سے کھیلتے رہے ہیں‘ وہ اپنے ایوانوں میں قائم دائم رہے۔ کسی نہ کسی وقت ایسے کھیل اچانک ختم ہوتے دیکھے ہیں اور حکمرانوں کو خس و خشاک کی طرح ریگستانی آندھی میں کہیں ڈھیر ہونے میں دیر نہیں لگی۔
آج کا نظام جو بھی اسے نام دیں‘ چلیں حقیقی جمہوریت ہی کہہ ڈالتے ہیں‘ دیگر ادوار کی نسبت انتہائی کمزور اور عوام کی نظروں میں بندوبستی ہے۔ ایک فرق ضرور ہے جس سے دو بڑے سیاسی گھرانوں کے وارثوں اور ان کے ہر کاروں میں کچھ خود اعتمادی نظر آتی ہے کہ عوام میں تو انتخاب جیتنے کی بھی طاقت نہیں کہ نتائج کہیں اور مرتب ہو سکتے ہیں‘ وہ انقلاب کہاں سے لائیں گے۔ دوسرے‘ جہاں سے کبھی ان کو خطرات تھے یا ہو سکتے تھے‘ ان کی پالیسی اتحاد میں برکت ڈالنے کی ہے۔ ایسے نظام کی کمزوری‘ یہ دیکھنے میں جتنا بھی طاقتور معلوم ہو‘ دو طرح کی ہے۔ ایک یہ کہ تمام تر دعووں کے باوجود انتخابی جائزیت کا چاند چمک نہیں سکا۔ دوسرے جن کے پاس یہ جائزیت ہو سکتی تھی‘ ان پر مقدمات کی بھرمار اور پھر عدلیہ کی طرف سے کوئی رہائی کا پروانہ آتے ہی ایک اور مقدمہ‘ اور پھر کچھ ایسی باتیں جن کا ذکر ان سطور میں نہیں ہو سکتا‘ آخر کب تک اس بوجھ کو سہار سکتے ہیں۔ آج کے دور میں لوگوں کی باتوں کو آپ روک نہیں سکتے۔ سچ کے ساتھ جھوٹ کی آمیزش گھٹن کے ماحول میں بعید از قیاس نہیں۔ اگر یہ دونوں جانب سے ہو تو پھر کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ہم تو اکثر شور و غل ہی دیکھ رہے ہیں۔
آخر میں دو باتیں عرض کرتا چلوں۔ کوئی بھی آج تک آزادی کی روح کو کچل نہیں سکا۔ یہ ایسا چراغ ہے جو طوفان کے مدھم ہوتے ہی خود بخود روشن ہو جاتا ہے اور طوفان برپا کرنے والوں کے خلاف جنگل کی آگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بندوبستی نظام سے ریاست اور اس کے ادارے کمزور ہوئے ہیں‘ اور کئی نوع کے خلفشاروں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ جہاں کہیں یہ روشنی کے چراغ مثبت تنقید اور آزادیٔ فکر کی صورت جل رہے ہیں‘ انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیں۔ دوسرا‘ وقت کا کیا ہے‘ یہ گزر ہی جائے گا لیکن اگر لوگوں کی قسمتوں اور معاشرے کے بہائو کو ذاتی خواہشات کے تابع رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ نہ ہو کہ کہیں جنگل میں آگ بھڑک اٹھے اور سب کچھ راکھ میں تبدیل ہو جائے۔ ہماری بات میں تو وزن نہیں مگر تاریخ کی گواہی دیکھ لیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں