گزرے سال کا حساب کتاب ہمارے ملک میں تو کبھی نہیں ہوا مگر اب جیسے ایک زمانے میں کچھ لوگ مغرب کو مہذب کہلانے کا سچا دعویدار خیال کرتے تھے وہاں بھی مفقود نظر آتا ہے۔خیر مہذب ہونا اور طاقت کے زور پر کہلوانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ تہذیبوں میں کوئی طبقاتی تفریق نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی معروضی طریقہ موجود ہے جس کی بنیاد پر کوئی حتمی طور پر کہہ سکے کہ اس تہذیب کو اس تہذیب پر فوقیت حاصل ہے۔ فلسفوں اور نظریات کی حد تک سب میں انسانی جان کی قدر‘ مساوی حقوق کی فراہمی‘ عدل و انصاف‘ علم و ہنر اور اخلاقی قدروں کی پاسداری کے ساتھ امن و استحکام اور بھائی چارے کی باتیں مشترک ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ کسی تہذیب کے مخصوص دائرے میں زندگی گزارتے معاشرے‘ ان کی حکومتیں اور سیاسی اکابرین کس حد تک اپنی تہذیب کی بنیادی قدروں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارا دل تو غزہ میں دو سال سے جاری نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کے دکھ سے لبریز ہے۔ ہم اپنی روایتی تہذیب اور سماج کی بات تو کسی اور وقت کے لیے چھوڑتے ہیں کہ ہم بھی اس کے مقرر کردہ راستوں سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ بات تو ہونی چاہیے دنیا کی‘ اُس تہذیب کی جو اس وقت غالب ہے اور ہمارے جیسے ممالک کے لوگ خصوصاً دانشوروں کا ایک طبقہ اس سے بے حد متاثر نظر آتا ہے۔ انہی دنوں نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون پر نظر پڑی کہ صدر جوبائیڈن اپنی صدارتی مدت کا اختتام قریب آنے پر اپنے عہدے کے دوران ہونے والے واقعات پر غور وخوض میں مستغرق ہیں۔ کچھ ایسے کام ہیں جو نہ کرنے پر پشیمان‘ رنجیدہ‘ شرمندہ اور پچھتا رہے ہیں۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ عزب مآب پوپ فرانسس سے ملاقات طے ہوچکی ہے‘ جن کے حضور وہ صدارت چھوڑنے کے بعد حاضری دیں گے۔ مسیحیت کے پیروکارپادریوں اور اگر پہنچ سکتے ہوں تو پوپ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرنے اور پچھتانے کی روایت رکھتے ہیں۔ اس سے دل کا بوجھ ہلکا اور احساسِ گناہ ختم ہوجاتا ہے۔ غور سے پڑھنا شروع کیا کہ شاید امریکہ نے جس دھڑلے اور کھلے دل سے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کی حمایت کی ہے اس پر اُن کے اندر کوئی احساس جاگ اُٹھا ہو کہ پچیس لاکھ کی آبادی کی زندگیاں‘ معیشت‘ رہن سہن‘ تعلیم‘ صحت کا نظام‘ سب کچھ تباہ کروا رہا ہے‘ اور اب بھی روزانہ کی بنیاد پر ہر صنف اور عمر کے لوگ اس وحشیانہ پالیسی کا شکار ہور ہے ہیں‘ لیکن کہیں اس کا دور دور تک ذکر نہ تھا۔ انہیں افسوس اس بات کا ہے کہ کووڈ سے متاثر خاندانوں کے لیے وہ کوئی معقول رقوم کانگریس سے نہ لے سکے۔ اور کچھ اس طرح کی اور باتیں جن کے نہ کرنے پر فکر مند ہیں۔ اس بارے میں ہرگز نہیں کہ غزہ میں کیا ہوااور کیا ہو رہا ہے۔ دیگر مغربی ممالک کی کیا بات کریں کہ مسلمان ممالک میں سے کون ہے جس نے کوئی حق کی بات کسی مؤثر طریقے سے کی ہو‘ یا کوئی عملی اقدامات کیے ہوں۔ طفیلی حکومتیں ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور نظریں واشنگٹن ڈی سی پر مرکوز رہتی ہیں کہ وہاں کیا فیصلہ ہوتا ہے اور کیاقدم اٹھایا جاتا ہے۔
ان دوسالوں میں فلسطین‘ شام‘ یمن اور ہمارے اپنے علاقے میں جس قدر خون بہا ہے‘ اس کا حساب کوئی کس سے طلب کر سکتا ہے۔ ہم اپنی اور اپنے جیسے دیگر انسانوں کی اس طاقت کی بنیاد پر استوار نظام کے مقابلے میں بے بسی کا رونا ہی رو سکتے ہیں۔ ہمارا اور مغرب کا فرق بہت زیادہ ہے۔ وہاں حکومتیں عوام کو جواب دہ ہیں اور یہاں عوام حکومتوں کو جواب دہ بنائے گئے ہیں۔ ریاست اور عوام کے تعلقات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں اگر کوئی بحران کی کیفیت پیدا ہو جائے تو حکومت تحلیل کر کے عوام کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اور گزشتہ نہ جانے کتنے سالوں سے ہو رہا ہے اب تو اس بارے میں سوال کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ایک پورا سال گزر چکا اور آپ نے اپنے ملک میں انقلابی تبدیلیاں تو دیکھ لی ہوں گی۔ہم چونکہ کونوں کھدروں میں رہتے ہیں‘ ہمیں تو یہ نظر آیا کہ پیشہ ور گداگر اور ان کے بچے ہر شہر کے چوراہوں پر ہر رکنے والی کار کا دروازہ کھٹکھٹا کر مسافروں کو ایک دم اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن قوم اور ملک پر یہ بدنما داغ کسی کو نظر نہیں آتا اور نہ ہی کوئی قانون حکومت کو حرکت میں لاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ حکومت نے آخر اور کام بھی تو کرنے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کو بھی اڑھائی کروڑ بچے جو کسی وجہ سے سکولوں میں نہیں جا رہے اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے۔ گویا اڑھائی کروڑ بچوں کی زندگی تاریک ہو رہی ہے اور حکومت اور اس کے متعلقہ شعبہ جات کو کوئی پروا نہیں۔ سب کی ترقی ہو رہی ہے جو کبھی نہیں رکتی۔تنخواہیں اور مراعات بھی ہر سال بڑھتی ہیں مگر یہ کام نہ جانے کون اس ملک میں کر سکے گا کہ ملک کے سب بچوں کو سکولوں میں ہونا چاہیے۔ یہ آج ہی کہیں پڑھا ہے کہ ریاست کی تحویل میں کام کرنے والی 15 کمپنیوں کی کارکردگی یہ ہے کہ انہوں نے مجموعی طور پر 400 ارب کا نقصان کیا ہے۔ اب سوچیں یہ اتحادی حکومت جو تین سال سے اقتدار میں ہے ابھی تک ایک بھی ایسی کمپنی یا ادارے سے ہماری جان نہیں چھڑا سکی۔ ہمیں تو پتا ہے کہ سٹیل ملز سے لے کر قومی ایئرلائنز کی بربادی کا آغاز کون سی جمہوری حکومت میں ہوا تھا اور کس طرح جیالوں کو قومی اداروں‘قومیائی گئی صنعتوں‘ سرکاری بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں میں بھرتی کیا گیا تھا اور سب اقتدار میں آکر باری باری ایساکرتے رہے۔ آخر وہ ادارے ملاز مین اور بدعنوانی کا کتنا بوجھ اٹھا سکتے تھے ؟ آج بھی کل کی طرح ہمارے اوپر بار بار ٹیکسوں کی بھرمار سے ان کو خسارے میں چلایا جارہا ہے۔ ویسے تمام ریاستی بینکوں کا خسارہ‘ بشمول انرجی سیکٹر تیرہ سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ہم ایسی باتیں نہ زیر بحث لاسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔
گزشتہ سال بھی سیاسی بحران‘ کشمکش‘ دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی رہی ا ور ہمارے سلامتی کے اداروں کے جوانوں اور افسروں کا خون بہا۔ سرکاری لوگوں کی باتیں اس پر مرکوز رہیں کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوا۔ ہم تو نہیں کہہ سکتے مگر اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ دیوالیہ پن کسی ملک اور معاشرے کا ہوتا ہے جب ایسی اتحادی حکومتیں بار بار اقتدار میں آئیں اور وہی کریں جو کررہی ہیں اور کرتی آئی ہیں۔ ہماری بات الگ ہے کہ ہمارا اعتبار ہر گزرتے مہینے کے ساتھ بڑھتا رہا ہے کہ نہ یہ مسلط ہوئے اور نہ اس فار م کا کردار ہے جوقیام پاکستان کے سال سے مطابقت رکھتا ہے۔ چونکہ تنقید اور سوال کرنا پہلے سے مشکل ہوتا جارہا ہے اس لیے ہم اپنی جان کی امان پاتے ہوئے اتحادی حکومتوں کی تمام سیاسی جماعتوں اور ہر صوبائی حکومت کو عوام کا حقیقی نمائندہ تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے دل اورضمیر کی بات ذرا مختلف ہے۔ زبان و کلام اور قلم پر تو پہرے لگائے جاسکتے ہیں مگر ذہن‘ سوچ اور روحیں آزاد رہتی ہیں۔ کاش ہم غزہ کی پٹی سے لے کر کرم میں قبائلی جنگوں کو امن کی صورت بدلتا دیکھ سکتے۔ ملک میں دھرنے‘ سیاسی کشیدگی اور خون خرابہ ختم ہوتا نظر آتا۔ چلو آنے والے سال کے لیے اچھی امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ شاید اس شب تاریک سے کوئی اجالا برآمد ہو۔