"RKC" (space) message & send to 7575

چند سر پھرے پولیس افسران

بل کلنٹن کی نئی کتاب Citizen: My Life After the White House پڑھنے کے لائق ہے۔ امریکہ سے واپسی پر جہاز میں وہی پڑھتا رہا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہیلری کلنٹن کی بھی نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے‘ وہ بھی خریدی‘ لیکن جو مزہ بل کلنٹن کی کتاب پڑھنے میں آرہا ہے وہ ہیلری کی کتاب میں نہ تھا۔ شاید اس کی وجہ دونوں میاں بیوی کے زندگی کے الگ الگ تجربات یا یوں کہہ لیں کہ سوچنے کے الگ الگ زاویے ہیں۔ بل کلنٹن نے‘ وائٹ ہاوس سے نکلنے کے بعد زندگی کیسے گزری‘ پر کھل کر لکھا ہے اور لگتا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں چھپایا۔
باقی سب باتیں ایک طرف‘ بل کلنٹن نے اس کتاب میں ایک ایسا واقعہ بھی لکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب آپ سابق صدر ہو جاتے ہیں تو پھر کتنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ آپ اُس عہدے پر نہ رہیں تو پھر آپ کو دوسروں سے کوئی درخواست کرتے وقت کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب یہ درخواست نہ مانی جائے تو تکلیف کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ کلنٹن نے اپنی کتاب میں اس تکلیف کا ذکر نہیں کیا لیکن ایک انسان ہونے کے ناتے آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ کلنٹن کو کیسا لگا ہوگا۔ کلنٹن لکھتے ہیں کہ انہیں صدارت سے ہٹے ایک عرصہ ہو گیا تھا کہ مشکلات کے شکار ایک ملک کے سربراہ نے انہیں درخواست کی کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت فائنل کرانے میں ان کی مدد کریں۔ کلنٹن کا ان کے ساتھ اچھا تعلق تھا۔ اُس ملک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف جن شرائط پر قرض دے رہا ہے وہ اتنی سخت ہیں کہ ان کیلئے بہت مشکلات پیدا ہوں گی۔ عوام پہلے ہی مہنگائی اور دیگر معاشی اور سماجی مسائل کی وجہ سے مشتعل ہیں‘ اگر یہ شرائط مان لی گئیں تو پھر حالات مزید خراب ہوں گے۔ ان کی حکومت تو خطرے میں پڑے گی ہی لیکن عوام کے بپھرنے سے ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آپ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں کہ آئی ایم ایف نرم شرائط پر ہمیں قرضہ دے دے تاکہ ہم اپنے معاشی مسائل سے نپٹ سکیں‘ یا پھر آپ امریکی حکومت سے کہیں کہ وہ ہمیں قرضہ دے۔
کلنٹن نے ان سے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں۔ اس وقت جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر تھے۔ کلنٹن نے صدر بش کوکال کرنے کے بجائے سیکرٹری خزانہ کو فون کیا اور انہیں کہا کہ وہ اُس ملک کی مدد کرنے کا کوئی آپشن دیکھیں۔ کلنٹن نے تفصیل سے اسے پورا مسئلہ بتایا کہ اس ملک اور عوام کیلئے کیا مسائل ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ مدد کر سکے تو بہتر ہو گا۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ وہ اس ایشو کو تفصیل سے دیکھ کر اور بات چیت کرکے انہیں جواب دیں گے۔ سیکرٹری خزانہ نے یقینا صدر جارج ڈبلیو بش سے بھی بات کرنا ہو گی کہ سابق صدر بل کلنٹن کی طرف سے یہ درخواست آئی ہے۔ خیر‘ دو تین دن بعد سیکرٹری خزانہ نے کلنٹن کو فون کرکے کہا کہ سوری سر! یہ کام نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اس معاملے میں اُس ملک کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ پھر وہی ہوا جس کا اُس ملک کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا‘ کچھ عرصہ بعد اُس ملک میں معاشی حالات مزید بگڑ گئے اور وہاں ہنگامے شروع ہو گئے‘ ملک کے سربراہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔
بل کلنٹن کی ایک اچھی خوبی یہ ہے کہ وہ تعلقات کا لحاظ رکھتے ہیں۔ وہ جب صدر تھے تو اُس وقت امریکہ نے پاکستان کی ایف سولہ طیاروں کی رقم روک رکھی تھی‘ جب نواز شریف نے ان سے 1998ء میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے وقت یہ ایشو اٹھایا تو کلنٹن نے وہ ساری تو نہیں مگر آدھی رقم واپس کرانے میں مدد کی تھی۔ باقی پیسوں کا بعد میں شوکت عزیز نے چپکے سے گندم کا سودا کر لیا تھا۔ خیر وہ ایک الگ سکینڈل ہے جو میں نے مشرف دور میں‘ 2000ء میں بریک کیا تھا۔ بل کلنٹن نے ہی نواز شریف کی جنرل پرویز مشرف سے جان بخشی کرائی تھی‘ جب کلنٹن چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد میں رکے اور پرویز مشرف سے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہونا چاہیے جو جنرل ضیا نے بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ اس ایک جملے میں پرویز مشرف کے لیے ایک چھپا ہوا پیغام تھا۔ بعد ازاں نواز شریف جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔
خیر وہ واقعہ پڑھ کر میں کچھ دیر کتاب بند کر کے بیٹھ گیا۔ کلنٹن نے اگرچہ اس پر ذاتی کمنٹری نہیں کی لیکن یقینی طور پر بندہ یہ تو سوچتا ہے کہ یار میں آٹھ برس اس ملک کا صدر رہا ہوں‘ بہت سارے کام میں خود کرتا رہا ہوں مگر آج مجھے کسی دوسرے صدر سے درخواست کرنا پڑی ہے لیکن کام پھر بھی نہیں ہوا۔ اگرچہ یہ بات ہے کہ امریکہ میں سسٹم کسی کی خواہش پر کام نہیں کرتا۔ وہاں اداروں میں بیٹھے لوگ تمام معاملات کو دیکھتے ہیں اور امریکی مفاد سب سے اوپر رکھا جاتا ہے۔ اس لیے سیکرٹری خزانہ نے بھی کلنٹن کی خواہش کو نہیں بلکہ امریکی مفادات کو سامنے رکھا اور یقینا صدر بش نے بھی یہی سوچا ہو گا۔ امریکہ میں کسی بھی افسر کا امریکی صدر تک کو انکار کر دینا ان کے سسٹم کا ایک حصہ ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹرم میں ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو اپنے خلاف جاری تحقیقات پر پوچھا تھا کہ تم میرے وفادار رہو گے؟ اس پر جیمز کومی نے جواب دیا تھا کہ مجھ سے وفاداری نہیں بلکہ ایمانداری کی توقع رکھیں۔ اگلے دن ٹرمپ نے اسے برطرف کر کے گھر بھیج دیا اور وہ بھی چپ چاپ چلا گیا‘ حالانکہ ابھی اس کے سروس کے چھ سال باقی تھے۔ اس سے ٹرمپ نے ایک بات توثابت کر دی تھی کہ اسے بھی پاکستانی حکمرانوں کی طرح ایماندار نہیں بلکہ وفادار افسران کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی ایماندار افسر ٹکر جائے تو اگلے دن گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
اس طرح کی بہت سی مثالیں آپ کو پاکستان میں بھی مل جاتی ہیں۔ جب طارق کھوسہ ڈی جی ایف آئی اے تھے تو وہ پاکستان سٹیل ملز میں ہونے والی کرپشن پر انکوائری کررہے تھے۔ یہ پیپلز پارٹی کا دور تھا۔ صدر آصف زرداری کے چند قریبی دوست بھی ایف آئی اے کے ریڈار پر تھے۔ ایک دن صدر آصف زرداری نے خود کھوسہ صاحب کو فون کیا اور وہی ٹرمپ والے انداز میں کھوسہ صاحب سے وفاداری کا تقاضا کیا اور کھوسہ صاحب نے بھی وہی جواب دیا جو برسوں بعد امریکہ میں جیمز کومی نے صدر ٹرمپ کو دیا تھا۔ کھوسہ صاحب کو بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ انہیں ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے سے ہٹا کر نارکوٹکس کا سیکرٹری لگا دیا گیا۔
ایک اور قابلِ احترام پولیس افسر میر زبیر محمود کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ وہ پولیس افسران کی اُس کلاس سے تعلق رکھتے تھے جو عہدوں یا بڑے لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے‘ چاہے کتنی ہی مشکلات کیوں نہ پڑیں۔ چند برس قبل امریکہ میں مشتاق بھائی کے میامی والے گھر میں میر زبیر محمود سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کتنے دن ادھر ہیں۔ میں نے بتایا: دو‘ چار دن۔ کہنے لگے: آپ ادھر ہی رُکیں‘ میں ذرا پاکستان سے ہو کر واپس آتا ہوں‘ پھر ملتے ہیں۔ میں نے پوچھا: خیریت؟ کہنے لگے: مجھے شاید آئی جی سندھ لگانے کی کوئی مہم چل رہی ہے۔ مجھے کہا گیا ہے کہ ذرا زرداری صاحب سے مل لیں۔ کہنے لگے: بس گیا اور آیا۔ اُن دنوں وہ امریکہ کسی کام سے رُکے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: مجھے زرداری صاحب کہاں سندھ کا آئی جی لگائیں گے۔ اور پھر وہی ہوا۔ زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ بات کھلی کہ میر زبیر محمود وہی ہیں جنہوں نے ان کے دوست کو سٹیل مل سکینڈل میں گرفتار کیا تھا۔ میر زبیر اُس وقت طارق کھوسہ کے ساتھ ایف آئی اے میں اعلیٰ عہدے پرتھے‘ جب زرداری صاحب کے دوست گرفتار کیے گئے تھے۔ میر زبیر ہنس کر کہنے لگے: پھر کہاں لگنا تھا میں نے آئی جی۔ میں نے بھی قہقہہ مار کر کہا: میر صاحب آپ نے آئی جی لگنے والا کام ہی نہیں کیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں