وقت بدل جاتا ہے مگر اس کے اجزا وہی رہتے ہیں۔ فقط ان اجزا کی شکلیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اسی کو وقت کا بدلنا کہتے ہیں!!
جیسے ہی گرما کی تعطیلات قریب آتی تھیں‘ ہم سامان باندھنا شروع کر دیتے تھے۔ گاؤں جانے کے خیال سے دل میں لڈو پھوٹنے لگتے تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ابا سکول میں پڑھاتے تھے‘ سو یہ اڑھائی تین ماہ کی چھٹیاں انہیں بھی ہوتی تھیں۔ تایا جان بھی بھلوال‘ سکول میں پڑھاتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی ہم گاؤں میں نزول کرتے تھے‘ بھلوال سے ہمارے کزن بھی پہنچ چکے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی‘ سمندری (لائل پور) والے تایا زاد بھائی بھی آ جاتے تھے۔ مگر ان لوگوں کا شغل چونکہ زمینداری تھا اس لیے چھٹیوں کا جو تصور ہمارا تھا‘ ان کے لیے بے معنی تھا۔ یوں بھی وہ گاؤں کا مذاق اڑاتے تھے کہ جو شلغم یہاں کلو کے حساب سے‘ سالن پکانے کے لیے خرید ے جاتے تھے وہ ان کے ہاں منوں کے حساب سے ان کی بھینسیں کھاتی تھیں۔ فرق یہ تھا کہ ہم شلغموں کو ٹھپر کہتے تھے اور وہ گونگلو کہتے تھے۔ ہمارے علاقے میں لائل پور کو ''نہری علاقہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اٹک کا ضلع بارانی تھا۔ چنانچہ سمندری والے کزن آتے تھے تو گاؤں والے کہتے تھے ''نہراں تو آئے نے‘‘۔ تب گاؤں میں بجلی تھی نہ پکی سڑک۔ ہم بس سے اترتے تھے تو گھوڑیاں انتظار کر رہی ہوتیں۔ بس سٹاپ سے گاؤں تک کا پانچ کلومیٹر کا سفر گھوڑیوں پر طے ہوتا۔
گرما کی تعطیلات کے یہ اڑھائی تین ماہ‘ پورے کے پورے‘ پکنک تھے اور مکمل عیاشی۔ بڑوں کو گرمی بے حال کرتی ہو گی مگر ہم اس سے بے نیاز تھے۔ صبح ہمیں دہی ملتا۔ پھر ادھ رِڑکا۔ پھر میٹھی لسی۔ صبح نو بجے‘ جب سورج تمازت خوب خوب بکھیر رہا ہوتا‘ تنوروں سے شعلے اور دھواں نکلنا شروع ہو جاتے۔ ڈھیروں مکھن‘ شکر اور دودھ کے ساتھ روٹی کھائی جاتی۔ ہماری حویلیوں میں سے ایک حویلی جو سب سے بڑی تھی‘ اس کا ایک حصہ مویشیوں کے لیے مخصوص تھا اور دوسرا حصہ مہمان خانہ تھا اور مردانہ بھی! ہم سب کزن اس حویلی میں اکٹھے ہو جاتے۔ کوئی کھیل ایسا نہ تھا جو نہ کھیلا جاتا۔ شور اتنا برپا کرتے کہ ارد گرد کی گلیاں اس شور سے چھلک چھلک پڑتیں۔ درختوں پر چڑھتے۔ آنکھ مچولی سے لے کر سٹاپو تک ہر کھیل کھیلا جاتا۔ چار کانیوں کے کھیل میں جو ہارتا اسے ہاتھ دھلانے پڑتے۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ ہاتھ سامنے رکھ کر دھونے کی ایکٹنگ کرتا۔ جیتنے والے‘ ہاتھوں پر چانٹے مارتے۔ اُس زمانے میں سِٹرس کی ایک قسم ہوتی تھے جسے ''کھٹے‘‘ کہا جاتا۔ یہ بہت زیادہ ترش ہوتے تھے۔ لڑکیاں نمک لگا کر مزے سے کھاتیں۔ لڑکیوں سے ''کھٹے‘‘ چھین لینا ہمارے بڑے کزن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس پر بڑوں سے اسے جھاڑ بھی پڑا کرتی جس کا کچھ اثر نہ ہوتا۔ دوپہر کو بڑے سو جاتے۔ درمیان میں جاگ جاگ کر وہ ہاتھوں میں پکڑی پنکھیاں بھی ہلاتے رہتے۔ دوپہر کی یہ کڑکتی چلچلاتی دھوپ ہمارے کھیل کود میں کبھی حارج نہ ہوتی۔ شام کو ہم کھیتوں میں نکل جاتے۔ گاؤں کے جنوب میں پہاڑیاں تھیں‘ چشمے اور تالاب! جنہیں تیرنا آتا تھا‘ وہ تالابوں میں تیرتے۔ گلی ڈنڈا کھیلتے یا تیر اندازی کرتے۔ کبھی کبھی مویشی ان تیروں کا‘ جو ظاہر ہے مہلک نہ ہوتے‘ نشانہ بن جاتے۔ شام تک شکایت دادا جان تک پہنچ چکی ہوتی۔ ہمیں تنبیہ کی جاتی۔ ننھیال والے گاؤں کا سفر بھی ہمارے لیے سیر ہی ہوتا۔ وہاں کے مزے اور تھے۔ خربوزے منوں کے حساب سے منگوائے جاتے۔ یہ وہ دیسی خربوزے تھے جنہیں مونگ پھلی کی نقد آور فصل (Cash crop) ہڑپ کر چکی!! گھوڑیوں پر سوار ہو کر انہیں پانی پلانے گاؤں سے دور تالاب پر لے کر جاتے۔ اس کام کے لیے زینیں نہیں ڈالی جاتی تھیں۔ بس کمبل ہی کا فی ہوتے۔ بڑوں کے منع کرنے کے باوجود انہیں دوڑاتے۔ کمبل پسینے سے تر ہو جاتے اور ہماری چوری پکڑی جاتی۔
وقت بدل جاتا ہے مگر اس کے اجزا وہی رہتے ہیں۔ فقط ان اجزا کی شکلیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اسی کو وقت کا بدلنا کہتے ہیں!! پچاس ساٹھ برس بعد‘ آج میرے پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں تو اجزا کی شکلیں مکمل طور پر بدل چکی ہیں۔ وہ گاؤں میں نہیں آتے‘ ہمارے پاس شہر میں‘ بہت بڑے شہر میں آتے ہیں۔ گھوڑیاں نہیں‘ ہوائی اڈوں پر گاڑیاں ان کا انتظار کرتی ہیں۔ یا انہیں لانے کے لیے نانا ابو کی گاڑی لاہور جاتی ہے۔ اب وہ سٹاپو کھیلتے ہیں نہ چار کانیاں‘ نہ درختوں کے سائے میں کھیلتے ہیں نہ بڑوں کے قیلولہ کے دوران کڑکتی دھوپ میں باہر نکلتے ہیں۔ ان کے کھیل بھی مختلف ہیں۔ سواریاں بھی‘ خوراک بھی‘ لباس بھی! یہ چھوٹے چھوٹے بچے آئی ٹی کے ماہر ہیں۔ بڑوں کی‘ اس ضمن میں مدد کرتے ہیں۔ جو فلمیں یا کارٹون یہ دیکھتے ہیں‘ ان کے ہمیں نام بھی نہیں معلوم! یہ ریوڑیاں‘ بتاشے‘ نُگدی‘ مکھانے اور بھٹیارن کے بھنے ہوئے دانے نہیں کھاتے۔ یہ وہ چیزیں کھاتے ہیں جنہیں بڑے جنک فوڈ کہتے ہیں اور بڑے منع کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں لا کر بھی دیتے رہتے ہیں۔ کوئی ایک بچہ بھی لسی نہیں پیتا۔ نہ یہ خربوزوں کے شو قین ہیں۔ گنڈیریاں اب بھی گھر میں آتی ہیں مگر صرف بڑے کھاتے ہیں! چاکلیٹ ان کی مرغوب غذا ہے جو کڑوی سی ہوتی ہے اور جسے بڑے نہیں کھا سکتے! یہ بچے انگریزی بولتے ہیں اور اردو اور پنجابی! مگر باہمی مواصلات میں انہیں کوئی دقت نہیں پیش آتی! یہ ہٹی پر نہیں جاتے۔ مال میں جاتے ہیں۔ یہ رات کو کھانے آرڈر کرتے ہیں۔ ان کے پاس Games کے بڑے بڑے پیکٹ ہیں۔ ان سے کبھی کارڈ نکلتے ہیں کبھی پلاسٹک کی چیزیں۔ نہیں معلوم یہ کیا ہیں اور ان سے کون کون سے کھیل کس طرح کھیلے جاتے ہیں!
ہم بسوں میں سوار ہو کر‘ نزدیک کے شہروں سے گاؤں میں واپس آتے تھے۔ ہم کہتے تھے ہم ''گھر‘‘ آئے ہیں! گاؤں والے ''پردیسی بچے‘‘ کہہ کر ہمارا استقبال کرتے۔ یہ بچے امریکہ‘ آسٹریلیا‘ لندن اور امریکہ سے‘ بیس بیس گھنٹوں کے سفر کر کے‘ کئی ملکوں اور شہروں سے ہوتے‘ وطن آتے ہیں مگر یہ وطن کو وطن نہیں سمجھتے۔ اب پورا کرۂ ارض ان کا وطن ہے۔ شہر میں رہتے ہوئے جب گاؤں کی یاد آتی تو ہمارے دل میں جو ہُوک اٹھتی‘ یہ بچے اُس ہُوک سے ناآشنا ہیں! انہوں نے شاید ہی کسی بکری‘ بھیڑ‘ گائے یا گھوڑ ے کو چھوا ہو۔ ہم عام سی پشاوری چپل پہن کر پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے اور کوسوں پیدل چلتے تھے۔ ان کے لیے مہنگے جوگر آتے ہیں جن کے بغیر یہ واک نہیں کرتے نہ کھیل سکتے ہیں! ہمارے بچپن اور لڑکپن میں برتھ ڈے کا کوئی تصور نہ تھا مگر ان کے اور ان کے دوستوں کے برتھ ڈے ان کے لیے لازم ہیں۔ جیسے یہ کوئی مقدس مذہبی فریضہ ہو۔ کسی دوست یا سہیلی کی برتھ ڈے میں شرکت کرنے کے لیے یہ کوئی بھی پروگرام‘ کوئی بھی سفر‘ کوئی بھی مہم چھوڑ سکتے ہیں! قرآن پاک کا سبق پڑھتے ہوئے انہیں مار پڑتی ہے نہ پڑ سکتی ہے اس لیے کہ یہ آن لائن پڑھتے ہیں اور استاد چاہے بھی تو نہیں مار سکتا۔ انہیں نہیں معلوم کہ کان کیسے پکڑے جاتے ہیں اور سردیوں میں پہلے پیریڈ میں اگر ہتھیلی پر ڈنڈا پڑے تو چھٹی تک‘ بلکہ شام تک‘ ہتھیلی کس طرح سرخ رہتی ہے اور انگلیاں کس طرح درد کرتی ہیں! انہیں نہیں معلوم تختی‘ سلیٹ‘ پوچہ‘ سلیٹی‘ رف کاپی‘ یہ سب کیا ہیں۔ ان کے پاس لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ ہیں۔ یہ کزن‘ وَٹس ایپ پر اپنا گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ وقت بدل جاتا ہے مگر اس کے اجزا وہی رہتے ہیں۔ فقط ان اجزا کی شکلیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اسی کو وقت کا بدلنا کہتے ہیں۔