اگر من موہن سنگھ پاکستان میں ہوتے

سوال یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے سُرگ باش ہونے والے ڈاکٹر من موہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو کیا دو بار وزیراعظم بن سکتے تھے؟ اور کیا وہ سب پالیسیاں جو انہوں نے بنائیں‘ بنا سکتے تھے؟؟
1932ء میں چکوال کے گاؤں گاہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ لینڈ لارڈ خاندان سے تھا نہ اس کے ماں باپ صنعتکار تھے۔ یہ ایک عام کھتری کنبہ تھا۔ وہ مقامی سکول میں اردو میڈیم میں پڑھ رہا تھا کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ اس کا دادا قتل کر دیا گیا۔ یہ کنبہ بھارت چلا گیا۔ بعد میں جب وہ وزیراعظم بنا تو اسے کئی بار پاکستانی حکمرانوں نے‘ اور گاؤں والوں نے بھی دعوت دی کہ ایک پھیرا لگا جائے مگر یہ اُسے مشکل لگا۔ دادا کا قتل ہمیشہ اس کی یادوں کا اذیتناک حصہ رہا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ وہاں میرا دادا قتل ہوا تھا اور یہ کہ یادیں تلخ ہیں!
من موہن سنگھ کا تعلیمی کیریئر قابلِ رشک تھا! امتحانوں میں ہمیشہ اوّل پوزیشن حاصل کی۔ بھارتی پنجاب یونیورسٹی سے‘ جو تب ہوشیار پور میں واقع تھی‘ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد من موہن سنگھ کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔ واپس آکر پنجاب یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پڑھایا۔ پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر‘ پھر ریڈر اور پھر فُل پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں! پھر اقوام متحدہ کے ادارے UNCTAD میں کام کرتے رہے۔ بین الاقوامی تجارت کی وزارت کے مشیر رہے۔ پھر دہلی سکول آف اکنامکس میں پروفیسری کی۔ وزاتِ خزانہ کے چیف اکنامک ایڈوائزر رہے۔ پھر اسی وزارت میں سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رہے۔ پلاننگ کمیشن کی سربراہی کی۔ تین سال ''ساؤتھ کمیشن‘‘ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر جنیوا میں کام کیا۔ ''ساؤتھ کمیشن‘‘ ایک آزاد تھنک ٹینک تھا۔ واپسی پر وزیراعظم کے معاشی مشیر رہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے بھی سربراہ رہے۔ 1991ء میں وزیر خزانہ مقرر کیے گئے۔ بھارتی معیشت اس وقت گلے گلے تک دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر مشکل سے صرف دو ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔ توازن ادائیگی (بیلنس آف پیمنٹ) خسارے میں تھا۔ اس وقت بھارتی معیشت‘ سوشلزم کے خطوط پر پابندیوں سے لدی ہوئی تھی۔ اکثر معاشی سرگرمیوں کے لیے لائسنس لینا پڑتا تھا۔ من موہن سنگھ کی وزارت کے دوران اس ''لائسنس راج‘‘ کا خاتمہ کیا گیا۔ درآمدات پر محصولات کم کیے گئے۔ سرکاری کنٹرول میں کام کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے راستے کشادہ کیے گئے۔ بند معیشت کو کھول دیا گیا۔ یہ من موہن سنگھ تھے جنہوں نے سرکاری کنٹرول کم کرکے معیشت کو آزاد کیا۔ 2004ء میں جب وہ وزیراعظم بنے تو ان پالیسیوں کو جاری رکھا اور مزید تقویت فراہم کی۔ انہی کے دور میں بھارت کی شرحِ نمو (گروتھ ریٹ) بلند ترین سطح (نو فیصد) کو چھونے میں کامیاب ہوئی اور بھارت دنیا میں دوسری تیز ترین معیشت بن گیا۔
من موہن سنگھ کے ناقد بھی بہت تھے۔ خاص طور پر اس لیے کہ انہیں سونیا گاندھی نے وزیراعظم نامزد کیا تھا‘ بی جے پی ان کی مخالف رہی۔ مگر ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہ لگایا جا سکا۔ انہیں دنیا کا دیانت دار ترین وزیراعظم کہا گیا۔ خوش ونت سنگھ نے لکھا ہے کہ 1999ء میں جب منموہن سنگھ لوک سبھا کا الیکشن ہار گئے تو خوشونت سنگھ کو فوراً وہ دو لاکھ روپیہ واپس کر دیا جو ٹیکسی وغیرہ کے اخراجات کے لیے ان سے ادھار لیا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران پولیس افسر عاصم ارن ان کا سپیشل باڈی گارڈ تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ وزیراعظم کی سرکاری گاڑیوں کے پیچھے ان کی ذاتی کار‘ ماروتی (سوزوکی) آٹھ سو سی سی‘ بھی کھڑی رہتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عام آدمی ہیں‘ اس لیے ان کی اپنی آٹھ سو سی سی کی کار ان کے لیے بہترین ہے۔ پھر انہیں سمجھایا جاتا تھا کہ سکیورٹی کے لیے بڑی سرکاری گاڑی ضروری ہے۔ بیٹھ تو جاتے تھے مگر اپنی گاڑی کو یاد ضرور کرتے تھے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم بننے سے پہلے بھی وہ بہت سی بڑی بڑی پوسٹوں پر رہے تھے مگر بڑی گاڑی کبھی نہ خریدی۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہی ان کی بیٹی کی ایک سہیلی نے ان کی بیٹی سے کہا کہ اسے کلاس کے نوٹس فیکس کر دے۔ جب اسے بتایا گیا کہ ان کے گھر میں فیکس مشین نہیں ہے تو وہ حیران ہوئی کہ وزیراعظم کے گھر میں فیکس مشین نہیں۔
وزیراعظم شاستری کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا بینک میں عام ملازمت کر رہا تھا۔ گلزاری لال نندا کی وفات ہوئی تو ذاتی مکان تک نہ تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران جب گلزاری لال نندا کو معلوم ہوا کہ ان کے نواسے نے ڈرائنگ کرنے کے لیے ایک سرکاری کاغذ استعمال کیا ہے تو سٹاف پر ناراض ہوئے۔ فوراً بازار سے ذاتی کاغذ منگوا کر نواسے کو دیا۔ یہ سب وزیراعظم رہے۔ صدر عبد الکلام جن دو سوٹ کیسوں کے ساتھ ایوانِ صدر گئے‘ انہی کے ساتھ نکلے۔ وزیراعظم واجپائی ایک سکول ٹیچر کا بیٹا تھا۔ مودی نے کیریئر چائے بیچنے سے شروع کیا! کسی بھارتی حکمران پر کسی سرے محل کا یا کسی ایون فیلڈ کا الزام نہ لگا۔ دبئی یا لندن یا نیو یارک میں کسی کی رہائش نہ تھی۔
وہی سوال کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر منموہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو کیا دو بار وزیراعظم بن سکتے تھے؟ نہیں! ہر گز نہیں! اتنا پڑھا لکھا وزیر اعظم پاکستان کے سیاستدانوں کو‘ نام نہاد سیاسی جماعتوں کے مالکان کو اور خود مقتدرہ کو کبھی راس نہ آتا۔ دو بار توقع تھی کہ سرتاج عزیز صاحب کو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز کیا جائے گا۔ بہت بڑے معیشت دان تھے۔ اقوام متحدہ میں کام کرتے رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے‘ مگر خطرہ یہ تھا کہ فائل پڑھیں گے اور کسی وقت اختلاف کر جائیں گے۔ چنانچہ ایک بار رفیق تارڑ اور دوسری بار ممنون حسین کو صدر بنایا گیا۔ انہیں کیوں بنایا گیا؟ وجہ بتاتے ہوئے قلم شرم سے زمین میں گڑ جائے گا۔ یہاں فائل پڑھنا ایک جرم ہے۔ کیا کوئی ایسی فائل مل جائے گی جس پر نواز شریف صاحب نے یا زرداری صاحب نے یا عمران خان صاحب نے ایک دو صفحے لکھ ڈالے ہوں؟ مشکل ہے! بہت مشکل! بھٹو صاحب اور بینظیر بھٹو کے بعد کسی وزیراعظم نے فائل پڑھی نہ کسی فائل پر کچھ لکھا۔ پلاسٹک کا بنا ہوا وزیراعظم شوکت عزیز فائلیں پڑھتا ہو گا اور ان پر لکھتا بھی ہو گا مگر وہ ایک آمر کا ملازم تھا۔ اس کی اصل حیثیت آمر کے سٹاف افسر سے زیادہ نہ تھی۔
وزیراعظم کی پوسٹ کو چھوڑ دیجیے‘ وزیروں کی بات کر لیتے ہیں! گزشتہ پچاس سال کے دوران ہمارے کتنے وزیر اپنے شعبے میں پی ایچ ڈی رہے ہوں گے؟ یہ بھی یاد رہے کہ بینکار معیشت دان نہیں ہوتے! تعلیم‘ تجارت‘ اکنامکس اور دیگر شعبوں میں ہمارے ہاں کتنے وزیر پی ایچ ڈی رہے؟ منموہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو اپنی تمام اہلیت کے باوجود زیادہ سے زیادہ وزیر خزانہ بنائے جاتے مگر انہیں صرف چھ ماہ برداشت کیا جاتا۔ جہاں وزیراعظم کو معلوم نہ ہو کہ کب تک وزیراعظم رہے گا‘ وہاں وزیر خزانہ کس کھیت کی مولی ہے! نام نہاد برادر ملکوں میں بھارتی وزیراعظم کو بلند ترین ایوارڈ دیے جا رہے ہیں۔ ہر جگہ اسے سر پر بٹھایا جاتا ہے۔ کیوں؟ ان ملکوں کے حکمران جانتے ہیں کہ کون دیانت دار ہے اور کون مال سمیٹنے والا! کون مانگنے آتا ہے اور کون سرمایہ کاری کرنے! اور ہاں! اگر منموہن سنگھ سندھ یا رائیونڈ کے کسی شاہی خاندان کے فرد ہوتے تو تعلیم یافتہ ہوتے یا نہ ہوتے‘ وزیر اعظم ضرور بنتے!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں