ترکِ وطن پر ایک اہم تحقیق

''مغرب کی آزاد معاشرت میں سکونت اختیار کرنے والے تارکینِ وطن ایک وقت تک تو اسے باعثِ اطمینان تصور کرتے ہیں لیکن پھر صورتحال پیچیدہ ہونے لگتی ہے۔خصوصاً جب ان کی اولاد اس معاشرت میں پل کر جوان ہو تی ہے اور ان کی عادات و اطوار یا ترجیحات اسی معاشرے سے ہی میل کھاتی ہیں تو والدین کو فکر ستانے لگتی ہے۔یہ عجیب تضاد ہے جو محبت اور نفرت کے رشتے پر استوار ہے کہ ایک طرف تو وہ مغربی چکا چوند سے متاثر ہیں جبکہ دوسری طرف اس سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اپنے مذہبی عقائد سے دور ہونے کا خطرہ انہیں بسا اوقات شدت پسند مسلمان بنا دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں پرورش پانے والی نسل اس دہرے معیارِ زندگی کی وجہ سے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوئی ہے‘‘۔
مندرجہ بالا سطور کو پڑھتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ کمال کی یہ تشخیص ہمارے ذہن کے نہاں خانے میں بھی تھی مگر ہمیں اتنے بلیغ الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ ان سطور کی خالق‘ پروفیسر ڈاکٹر عذرا لیاقت نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! کتابیں ہر ہفتے‘ بلکہ ہر روز موصول ہوتی ہیں۔ کچھ زیادہ اچھی‘ کچھ کم اچھی! مگر ڈاکٹر عذرا لیاقت کی تصنیف ''پاکستانی اُردو افسانے میں ترکِ وطن کا اظہار‘‘ ملی تو گویا دبستاں کھل گیا۔ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ یہ وہی دردناک موضوع ہے جس پر میں مسلسل لکھتا رہا ہوں اور جس کے گونا گوں عملی مظاہر‘ بیرون ملک‘ سالہا سال‘ مسلسل‘ میرے مشاہدے میں آتے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کتاب اس نازک موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا ہے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ ترکِ وطن کا شاید ہی کوئی پہلو ہو گا جو ڈاکٹر عذرا زیر بحث نہیں لائیں! بظاہر تو یہ مطالعہ اُردو افسانے کے حوالے سے ہے مگر ہجرت کی تمام شکلوں کو ہر ممکن زاویے سے یوں دکھایا گیا ہے جیسے یہ ایک طلسمی آئینہ ہو اور ہجرت کرنے والے اور ہجرت کی خواہش رکھنے والے اس میں اپنا اپنا مستقبل دیکھ سکتے ہوں۔
کتاب میں ترکِ وطن پر چارحوالوں سے تحقیق کی گئی ہے۔ اول: تقسیم ِ ہند کے حوالے سے‘ دوم: سقوط ِڈھاکہ کے حوالے سے‘ سوم: جلاوطنی کے حوالے سے اور چہارم : ''ترکِ سکونت‘‘ کے حوالے سے! ان میں ترکِ وطن کا حوالہ اہم ترین ہے کیونکہ یہ حال سے بھی متعلق ہے اور مستقبل سے بھی ! تقسیم ہند اور سقوطِ ڈھاکہ کی ہجرت‘ دونوں المناک تھیں مگر یہ one time ٹریجڈی تھیں۔ رہی جلا وطنی‘ تو اس کا پھیلاؤ بھی محدود ہے۔ اصل مسئلہ ترکِ سکونت ہے جو جاری ہے اور جاری رہے گا۔ یہی وہ زخم ہے جو رِس رہا ہے اور رِستا رہے گا۔ اسی نے ہجرت کرنے والوں کو زمین اور آسمان کے درمیان معلق کر رکھا ہے اور پسماندگان کی آنکھیں دروازے سے باندھ رکھی ہیں کہ چھوڑ کر جانے والے کب واپس آتے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر خمیدہ کمر بوڑھے‘ مشکل سے چلتی بوڑھی مائیں‘ دادیاں اور نانیاں دبلے پتلے‘کمزور‘ضعیف ہاتھ ہلا ہلا کر اُن جوان بیٹوں‘ پوتوں‘نواسوں‘ پوتیوں اور نواسیوں کو خدا حافظ کہتی ہیں جو لوہے کے بے رحم اُڑن کھٹولوں میں بیٹھ کر ہزار ہا میل دور چلے جاتے ہیں! ان میں سے بہت سے تب واپس آتے ہیں جب قبروں پر چڑھائے گئے پھول سوکھ چکے ہوتے ہیں! بیرونِ ملک جا کر انہیں کن گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس کا جواب مصنفہ جامع پیرائے میں دیتی ہیں :
'' مغربی معاشروں میں آباد ہونے والے تارکینِ وطن اس لحاظ سے زیادہ قابلِ رحم ثابت ہوئے کہ انہیں کثیر الثقافتی معاشرے میں اپنی شناخت گنوانے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی بُعدسے پیدا ہونے والے کئی لاینحل مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اولاد کی تعلیم و تربیت‘دوستوں کے انتخاب اور شادیوں کے سلسلے میں ان کے دلوں میں یا تو واپس لَوٹ جانے کی خواہش اور ضرورت نے جنم لیا یا پھر آزاد فضاؤں میں پروان چڑھنے والی اولادکے والدین اپنی اولاد کی بے راہ روی‘ تہذیبی اور ثقافتی تشخص سے پہلو تہی اور مذہبی اقدار سے بے نیازی کے سبب احساسِ ندامت‘ کسک‘ دُکھ‘ پچھتاوے اور ملال کا شکار رہے۔تاہم تارکینِ وطن کی ایک قسم ایسی بھی ہے جنہوں نے نئے معاشروں سے تعلق جوڑنے کیلئے‘ اپنی مرضی سے‘ اپنے وطن اور جڑوں سے‘اپنا رشتہ توڑ ڈالا۔مذہبی اور اخلاقی حد بندیوں سے آزادی کی خواہش بھی یورپی ممالک میں سکونت اور کا محرک بنی‘‘!!
ڈاکٹر عذرا قدم قدم‘ صفحہ صفحہ‘ ترک ِوطن کے ایک ایک پہلو کا ذکر کرتی چلی جاتی ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ نئے دیاروں میں بسنے والے دو طرفہ عذاب سہتے ہیں ایک طرف پسماندگان کی اذیتناک یادیں اور اپنی جڑوں سے دوری‘ دوسری طرف نئی سرزمین اور اجنبی کلچر کی تکلیف !
غرض دو گو نہ عذاب است جانِ مجنوں را؍ بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ
تارکین وطن کو‘ بیک وقت‘ کئی تاوان ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اولاد کی بے راہروی‘ اپنی سر زمین سے دوری اور نائن الیون جیسے واقعات رونما ہونے کے بعدمقامی آبادی کا تعصب!! پھر وہ اُس انتہائی پُر درد صورتحال کا ذکر کرتی ہیں جسے بیان کرنے کیلئے Empty nest syndromeکی اصطلاح وضع ہو ئی ہے۔ یعنی خالی گھونسلا! ماں باپ بہت چاؤ سے ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے گھر تعمیر کرتے ہیں۔ ہر بیٹے اور بیٹی کیلئے الگ خواب گاہ مختص کرتے ہیں۔ مگر یہ آشیانہ بیکار جاتا ہے۔ پرندے اُڑ کر نئے ٹھکانوں کو جا چکے ہوتے ہیں۔ گھر مکان بن جاتا ہے‘ گھر نہیں رہتا۔ خالی کمرے‘ آسیب زدہ دکھائی دیتے ہیں‘مُڑتی ہوئی سیڑھیاں سانپ کی طرح نظر آتی ہیں‘ اداس دیواریں کھانے کو آتی ہیں! یہاں تک کہ شاعر پکار اُٹھتا ہے:
خالی مکاں میں کوئی نہ لَوٹا تمام عمر؍ دو پہریدار روتے رہے‘ جاگتے رہے!
وہ ان واقعات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں جن میں تارکینِ وطن‘ واپس وطن آتے ہیں تو اُن کی املاک پر ان کے رشتہ دار یا دوسرے لوگ قبضہ کر چکے ہوتے ہیں‘ مگر تارکینِ وطن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وطنِ عزیز میں قانون نہیں‘ روابط کام آتے ہیں۔ تارکینِ وطن روابط کہاں سے لائیں ؟ بے دخلی کے مقدمے تو پوری پوری زندگیاں نگل جاتے ہیں! ڈاکٹر عذرا اُن بددیانت تارکینِ وطن کو بھی نہیں بھولتیں جو ہٹے کٹے ہو کر بھی‘ حیلے بہانوں سے‘ غلط بیانیوں سے‘ گزارہ الاؤنس اور معذوری الاؤنس حاصل کرتے ہیں اور ساری کمیونٹی کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ پھر وہ اُن پیروں فقیروں کا ذکر کرتی ہیں جو یہ کاروبار مغربی ملکوں میں بھی لے گئے ہیں اور تارکینِ وطن سے چندے‘ نذرانے اور زکواۃ خیرات وصول کرتے ہیں۔ مسلکی فرقہ واریت بھی ہماری بر آمدات میں شامل ہے۔ پھر وہ غیر قانی طور پر ان ملکوں میں داخل ہونے والوں کا ذکر کرتی ہیں۔ یہ لوگ چھپ چھپا کر‘ کم معاوضوں پر‘ کام کرتے ہیں ! مصنفہ مغربی ملکوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ‘ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولتیں۔یہاں تہذیبی یا معاشرتی مسائل تو نہیں مگر دوسری مصیبتیں بھی کم نہیں۔ خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانی‘ وطن میں بسنے والے خاندانوں کو معاشی آسودگی تو فراہم کرتے ہیں مگر پیچھے‘ باپ کی نگرانی کے بغیر‘بچے بے راہرو ہو جاتے ہیں اور سالہا سال انتظار کرتی‘ تنہائی سہتی‘ بیویاں جذباتی اور نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان مسلمان ملکوں میں مسجدیں تو ہیں مگر مقامی آبادی کا احساسِ تفاخر اور نسلی امتیاز بھی موجود ہے۔ یہاں پاکستانیوں کو ''مسکین‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان کی تضحیک بھی کی جاتی ہے۔ سالہا سال رہنے کے باوجود سب کچھ کفیل کے نام ہوتا ہے۔ شہریت ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
یہ اس انتہائی اہم کتاب کی محض چند جھلکیاں ہیں ! یہ کتاب تارکینِ وطن کو ضرور پڑھنی چاہیے اور اُن پس ماندگان کو بھی جو جانے والوں کا انتظار کر رہے ہیں !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں