گلی گلی میں شور ہے…

نہیں! نہیں! غربت نہیں! بیماری کا سبب کچھ اور ہی ہے!!
کیا آپ کو وہ حادثہ یاد ہے جو جون 2017ء میں احمدپور شرقیہ میں پیش آیا تھا؟ آئل ٹینکر کراچی سے بہاولپور آ رہا تھا۔ احمدپور شرقیہ کے قریب ٹائر پھٹا اور ٹرک الٹ گیا۔ ہزاروں لیٹر پٹرول ٹرک سے نکل کر سڑک اور کھیتوں میں بہنے لگا۔ قریبی بستیوں سے ہزاروں لوگ جری کین‘ پتیلے‘ دیگچیاں‘ ڈرم‘ جگ‘ بوتلیں‘ واٹر کولر یہاں تک کہ کھانا پکانے والے برتن اُٹھائے‘ گھروں سے نکلے اور بہتے ہوئے پٹرول کو مالِ غنیمت‘ بلکہ شِیرِ مادر سمجھتے ہوئے‘ ٹوٹ پڑے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تیل لُوٹنا چاہتے تھے۔ بچے بوڑھے عورتیں مرد سب لگے ہوئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہائی وے پر سفر کرنے والے افراد نے بھی اپنی گاڑیاں روک کر تیل لُوٹنا شروع کر دیا۔ پھر کسی نے سگرٹ سلگایا یا نہ جانے کیا ہوا کہ تیل نے آگ پکڑ لی۔دھماکا ہوا۔ آگ نے سب کو لپیٹ میں لے لیا۔ ایک سو پچاس سے زیادہ افراد جل کر کوئلہ ہو گئے۔ زخمی اس کے علاوہ تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سب غریب تھے؟ وہ جو اپنی گاڑیوں میں سوار وہاں سے گزر رہے تھے اور رک کر لُوٹ میں شامل ہو گئے کیا وہ غریب تھے؟ آپ سڑک پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک اچھی خاصی قیمتی گاڑی آپ کے پاس آکر رکتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں ایک صاحب اور ایک بی بی سوار ہیں۔ صاحب باہر نکلتے ہیں۔ اچھے خاصے باعزت لباس میں ہیں۔ آپ گمان کرتے ہیں کہ راستہ پوچھیں گے مگر صاحب کہتے ہیں کہ پٹرول ڈلوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘ کچھ مدد کیجیے! آپ کا کیا خیال ہے یہ غریب ہیں؟ ایک قریبی دوست نے بتایا کہ انہوں نے مکان کرائے پر دیا تھا۔ کرایہ دار ایک بہت معروف‘ بہت ہی زیادہ معروف‘ سیاست دان تھے۔ گھر چھوڑا تو مالک مکان کا سامان بھی ساتھ لے گئے! سرکاری نوکری کے اوائل تھے۔ ہمارا ایک ساتھی بیچ میٹ‘ ایک یورپی ملک کے پاکستانی سفارت خانے کے آڈٹ پر مامور ہوا۔ بہت بڑی شخصیت وہاں بطور سفیر متعین تھی۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ یہ شخصیت جب مقررہ مدت ختم ہونے پر وطن واپس تشریف لائی تو سرکاری سامان بھی ساتھ لے آئی۔ فاروق گیلانی مرحوم کچھ ہنستے ہوئے‘ کچھ روتے ہوئے بتاتے تھے کہ انہوں نے جتنے وزیروں کے ساتھ کام کیا‘ سرکاری لنچ تک دفتر میں ضرور بیٹھتے تھے۔ سرکاری لنچ کھانے کے فوراً بعد چھٹی کر جاتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے نام تھے۔ گیلانی مرحوم یہ بھی بتاتے تھے کہ صرف چودھری شجاعت کا کھانا گھر سے آتا تھا۔ توشہ خانے ہی کو لے لیجیے۔ عمران خان تو بھگت رہے ہیں‘ مگر کون ہے جس نے توشہ خانے کے حوالے سے بے نیازی کا‘ سیر چشمی کا اور خاندانی ہونے کا ثبوت دیا ہو؟ کوئی نہیں! کوئی ایک بھی نہیں! جس کو بھی موقع ملا‘ لے اُڑا! سُوئی تھی یا ہاتھی‘ کچھ نہ چھوڑا!
تو جناب ! یہ غربت یا مجبوری کا مسئلہ نہیں! ہماری ساخت ہی ایسی ہے۔ یہ Manufacturing Defect ہے۔ یہ ڈی این اے کی خرابی ہے۔ آج ایک خبر پڑھی تو دل چاہا کہ لباس تار تار کر کے‘ جنگل کا رُخ کیا جائے۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:''حکومت پاکستان نے ایران میں مختلف جرائم میں ملوث دس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کر دیے۔ ان پاکستانی شہریوں پر مختلف جرائم کے الزامات تھے۔ پاکستانی شہری انسانی سمگلنگ‘ غیر قانونی رہائش‘ منشیات‘ شدت پسندی اور دیگر جرائم میں گرفتار کیے گئے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ایران نے پانچ ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ڈی پورٹ (ملک بدر) کر دیا۔ چار ہزار سے زائد تو صرف غیر قانونی طور پر ایران بارڈر کراس کرنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے۔ جرائم میں ملوث پاکستانیوں کے پاسپورٹ پانچ اور سات سال کے لیے بلاک کیے گئے ہیں۔ چند روز قبل متحدہ عرب امارات میں منشیات کے جرائم میں ملوث 2470 پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کیے گئے ہیں۔ نومبر میں حکومت پاکستان نے عراق سے ڈی پورٹ کیے گئے پندرہ سو پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ ابتدائی طور پر پچاس پاکستانیوں کے پاسپورٹ سات سال کے لیے بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق عراق سے پندرہ سو سے زائد پاکستانی شہری گزشتہ چھ ماہ میں ڈی پورٹ ہوئے۔ ان کے بھی پاسپورٹ بلاک کیے جائیں گے۔ اکتوبر میں حکومت پاکستان نے سعودی عرب میں قید چار ہزار پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کیے تھے۔ سعودی عرب کی حکومت نے ان چار ہزار پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا۔ ان پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ سات سال کے لیے بلاک کیے گئے ہیں‘‘۔
بتائیے! کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ سعودی عرب‘ ایران‘ متحدہ عرب امارات‘ عراق‘ ہر جگہ ملک کی عزت افزائی ہو رہی ہے۔ انتظار کیجیے۔ جلد ہی بحرین اور قطر بھی ایکشن لیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی تطہیر ترکیہ نے بھی کی تھی! یو اے ای نے پاکستانیوں کے ویزے مکمل طور پر بند کر رکھے ہیں! اس میں سرکاری‘ غیر سرکاری پاسپورٹ سب شامل ہیں! گزشتہ سال جن لوگوں کے سعودی عرب میں سر قلم کیے گئے‘ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی‘ یعنی 21۔ بھارت اور افغانستان سے تین تین تھے اور سری لنکا سے ایک! ان 21میں بیشتر وہ تھے جو منشیات کے حوالے سے پکڑے گئے تھے۔ گدھے کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ جو بھی منشیات میں ملوث ہوگا موت کی سزا پائے گا۔ مگر آفرین ہے ہم پاکستانیوں پر‘ ہماری مستقل مزاجی پر اور ہمارے دماغوں پر کہ ہم مرنے کے لیے تیار ہیں مگر باز نہیں آ سکتے! ابھی تو صرف اُن پاکستانیوں کے اعداد وشمار ظاہر ہوئے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ میں قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یورپ‘امریکہ اور دیگر ملکوں کے اعداد وشمار معلوم ہوں تو ہماری شان وشوکت کا درست اندازہ لگے!
اس لکھنے والی کی دادی جان کمال حسِ مزاح رکھتی تھیں! اُس زمانے میں بھی ماڈرن خیالات رکھتی تھیں۔ بچوں کی زیادہ تعداد پسند نہیں کرتی تھیں۔ ہمارے ایک رشتے کے ماموں ہمیشہ بندوق ساتھ رکھتے تھے۔ عورتیں لکڑی کے جس ٹیڑھے میڑھے ڈنڈے کے ساتھ تنور کے اندر ایندھن اور آگ کو آگے پیچھے کرتی ہیں اُسے ہمارے علاقے میں ''کُڈھنا‘‘ کہتے ہیں۔ بندوق والے ماموں کو وہ کُڈھنے والا کہا کرتیں۔ ریشِ دراز کا مذاق اڑایا کرتیں! ایک بار بس میں سفر کر رہی تھیں‘ گھر پہنچیں تو دلچسپ واقعہ سنایا۔ کہنے لگیں: بس میں ایک شخص کی لمبی داڑھی تھی‘ کنڈکٹر نے اسے کہا: صوفی صاحب! آپ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور فلاں سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ وہ اٹھا اور جہاں کنڈکٹر نے کہا تھا وہاں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بس میں کوئی نئی سواری داخل ہوئی۔ کنڈکٹر نے پھر صوفی صاحب کو سیٹ تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ پھر تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ دادی جان کے بقول ''کنڈکٹر سمجھ گیا تھا کہ جَھلا یہی ہے‘‘۔ ہم پاکستانیوں کا بھی یہی حال ہے۔ جہاں بھی کوئی غیر قانونی کام ہو گا‘ کوئی نہ کوئی پاکستانی ہی ملوث ہو گا۔ ایک دوست کچھ عرصہ پیرس میں رہے۔ اس قیام کی انہوں نے روداد لکھی۔ لکھا کہ پیرس میں ہارن بجانے کا رواج بالکل نہیں مگر جب کبھی بجا‘ کسی پاکستانی ہی پر بجا۔ ایک سفر نہیں بھولتا۔ اُن دنوں تاشقند اور لاہور کے درمیان ازبک ایئر لائن کی پروازیں چلتی تھیں! میں تاشقند سے واپس آ رہا تھا۔ دورانِ پرواز دو پاکستانیوں میں جھگڑا ہو گیا۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچی۔ دونوں اٹھ کر‘ گتھم گتھا ہو گئے۔ یہ دست بدست لڑائی بہت دیر جاری رہی یہاں تک کہ پائلٹ اور عملے نے بتایا کہ پرواز کا توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ بہت مشکل سے انہیں ایک دوسرے سے چھڑایا گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں