اگرچہ ہر دور میں‘ ہر معاشرے کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے لیکن موجودہ دور واقعی خطرناک ہے اور ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ آرٹیفیشل ایج کے بارے کچھ دوستوں کے ساتھ بات ہو رہی تھی‘ جو اس بارے جانکاری رکھتے ہیں‘ یقین کریں کہ پریشانی نے گھیر لیا کہ صرف چند برسوں بعد دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ اگرچہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی نئی ٹیکنالوجی ایسی ایجاد ہوتی ہے جو کروڑوں لوگوں کو ڈرا دیتی ہے‘ ان پر کوئی انجانا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ اصل میں لوگ کمفرٹ زون میں رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور کوئی بھی ایسی نئی زندگی میں نہیں رہنا چاہتا جس کے بارے اسے علم نہ ہو کہ اس کی کیا شکل بنے گی۔
تاریخ میں کئی ایجادات ہوئی ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہیہ‘ سٹیم انجن اور پرنٹنگ پریس کچھ ایسی ایجادات تھیں جنہوں نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اگرچہ بیسویں صدی ایجادات کی صدی تھی جب نسلِ انسانی نے صدیوں کا سفر برسوں میں طے کیا لیکن اکیسویں صدی کے پچھلے دس برسوں میں جو ایجادات ہوئی ہیں انہوں نے نسلِ انسانی کو ترقی کی ایک نئی راہ پر لا کھڑا کیا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ ان ایجادات سے خود نسلِ انسانی خطرے میں ہے۔ مصنوعی ذہانت بھی ان میں سے ایک ہے جس کی کرامات دھیرے دھیرے ہمارے سامنے آرہی ہیں۔
امریکہ میں میرے دوست ڈاکٹر احتشام قریشی سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے جس طرح اس کے مستقبل کا نقشہ کھینچا وہ سُن کر میں تو دنگ رہ گیا۔ کہنے لگے کہ اس سپر انٹیلی جنس ایج میں انسان کی عمر دو سو سال تک بڑھ جائے گی۔ کینسر اور شوگر کے مرض 2030ء تک ناقابلِ علاج نہیں رہیں گے۔ آپ ایک بیماری کا پتا کرنے جائیں گے تو نتیجہ آپ کو دس بیماریوں کا ملے گا‘ ان میں وہ بیماریاں بھی ہوں گی جو آپ کو چند برس بعد لگ سکتی ہیں۔ یہ سب سپر انٹیلی جنس کا نتیجہ ہوگا جو بڑی تیزی سے ہر شعبے میں پھیل رہی ہے۔ ڈاکٹر احتشام بتانے لگے کہ کون کون سے پروفیشن اب متروک ہو جائیں گے اور اب سپر ایج میں مشینوں کا راج ہوگا جو انسانی سوچ اور دماغ سے بہت آگے ہوں گی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: انسانی عمر اَب 120 برس تک نارمل ہو چکی ہے لیکن اصل حیرانی تو تب ہو گی جب انسان دو سو سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہو یا دنیا کے دیگر ممالک‘ وہاں ارب پتی لوگ جلدی نہیں مرنا چاہتے کیونکہ ان کے پاس بہت دولت ہے۔ کوئی بھی اپنی دولت اپنے پیچھے دوسروں کے لیے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ یوں اب وہ ارب پتی ان چیزوں پر ریسرچ چاہتے ہیں کہ وہ کتنی لمبی عمر جی سکتے ہیں اور بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے سپر انٹیلی جنس ایج ہی کرشمے دکھائے گی‘ جو آپ کو بوڑھا اور بیمار ہونے سے بچائے گی۔
ایک اور امریکن ڈاکٹر دوست تنویر حکیم صاحب اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ان سے بھی انسانی بیماریوں بارے لمبی بات ہوئی۔ وہ بھی بہت ساری نئی چیزوں بارے بتانے لگے اور ان سے بہت سی نئی چیزوں کا پتا چلا۔ کہنے لگے کہ اب ایسی ٹیکنالوجی بھی آگئی ہے کہ آپ ایک دفعہ اپنا ٹیسٹ کرا لیں تو پتا چل جائے گا کہ آپ کو آئندہ دس برس میں کینسر ہوگا یا نہیں۔ بہت سارے لوگوں کو خوف ہوتا ہے کہ انہیں کینسر ہو سکتا ہے۔ آپ ایک دفعہ یہ ٹیسٹ کرا لیں اگر ٹیسٹ نیگٹو آ گیا‘ تو دس سال تک آپ مطمئن رہیں گے۔ بتا رہے تھے کہ شاید اب یہ ٹیسٹ تو پاکستان میں بھی ہو رہے ہیں۔ شاید اس سے ملتا جلتا ٹیسٹ ہالی وُڈ کی ادکارہ انجلینا جولی نے بھی کرایا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنے وہ اعضا نکلوا دیے تھے جس سے خدشہ تھا کہ انہیں کچھ برس بعد کینسر ہو سکتا ہے۔ یوں میڈیکل سائنس کی ترقی سے انسانی زندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہی یورپ جہاں ڈیڑھ سو سال پہلے تک اوسط انسانی عمر 40 برس تک محدود ہو چکی تھی‘ وہاں اب 90 سال تک جینا نارمل ہو چکا ہے۔ روسی انقلاب کے خالق لینن 41 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ میرے پسندیدہ فرنچ ادیب بالزاک کی عمر صرف 51 برس تھی‘ اس دور میں آپ کسی بھی بڑے آدمی‘ ادیب یا لکھاری کی عمر دیکھ لیں شاید ہی وہ 50 سال سے اوپر گیا ہو۔ اکثر 40 کے پیٹے میں ہی دنیا سے رخصت ہوتے تھے۔ آج ذرا انہی معاشروں میں اوسط عمر دیکھ لیں تو وہ ڈبل سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اس لیے ڈاکٹر احتشام کا ماننا ہے کہ سپر انٹیلی جنس ایج میں انسانی عمر دو سو سال تک چلی جائے گی۔ اگرچہ بہت سارے لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے کہ کوئی انسان آج کے دور میں دو سو سال تک بھی زندہ رہ سکے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے انیسویں صدی میں جب اوسط عمر 40 سال تک پہنچ چکی تھی تو کوئی اُس وقت مان سکتا تھا کہ ڈیڑھ سو سال بعد لوگوں کی اوسط عمر اسی‘ نوے برس ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں کوئی نوے سال تک جیتا رہے تو کرشمہ سمجھا جاتا ہے لیکن یورپ میں تو یہ عمر اب نارمل ہے بلکہ وہاں کے معاشروں کے لیے پریشان کن بھی ہے کہ بوڑھے لوگ نہیں مر رہے اور وہ پروڈکٹیو بھی نہیں رہے اور ان کی دیکھ بھال اور دیگر اخراجات اب ریاست کو اٹھانا پڑتے ہیں‘ شاید اس لیے یورپی ممالک تیسری دنیا کے ممالک سے امیگرنٹس کو اپنے ہاں آنے دیتے ہیں۔ اگرچہ اب اس حوالے سے یورپ میں بھی مسائل سر اٹھا رہے ہیں لیکن یورپی حکومتیں یا معاشرے چاہنے کے باوجود امیگریشن نہیں روک سکتے کیونکہ اگر تیسری دنیا کے ممالک کے نوجوانوں کو وہ اپنے ہاں آنے سے روکتے ہیں تو پھر وہاں کام کون کرے گا‘ اور کما کر حکومت کو 30‘ 40فیصد ٹیکس کون دے گا جس کی بنیاد پر وہ ان بزرگوں کا خیال رکھتے ہیں۔ یورپین اگر امیگرنٹس کو نکالتے ہیں تو ان کی اکانومی خطرے میں پڑتی ہے کیونکہ ان کے ہاں نوجوان آبادی بہت کم ہے۔ لیکن انہیں امیگرنٹس کو آنے کی اجازت دینے کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ مقامی افراد اور باہر سے آنے والوں کے درمیان کلچرل اور مذہبی فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ اب وہاں وہ سیاسی جماعتیں الیکشن جیت رہی ہیں جو امیگرنٹس کے خلاف ہیں۔ مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ امیگرنٹس کی وجہ سے ان کے طرزِ زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ باہر سے آنے والے ان کے معاشروں میں گھل مل نہیں پاتے جو ان کے لیے معاشی بدحالی سے بڑا خطرہ ہے۔
یورپی پالیسی ساز لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی امیگرنٹس کو اپنے ہاں لانے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا کی ایج میں نفرتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں‘ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ مان لیا انسانی نسلیں اور قومیں ایک دوسرے سے محبت اور نفرت کرتی آئی ہیں‘ جنگیں لڑتی رہی ہیں‘ ایک دوسرے کا خون بہاتی رہی ہیں لیکن لگتا ہے سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ عمل بہت تیز ہو چکا ہے۔ افواہ سازی کے اس دور میں انسانوں کو گمراہ کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ ایک طرف سپر انٹیلی جنس کا دور شروع ہو رہا ہے جس میں انسان دو سو سال تک زندہ رہنے کا خواب دیکھ رہا ہے‘ لیکن دوسری طرف ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ انسانی عمر سے یاد آیا کہ میں بھارتی شاعر جاوید اختر کا ایک انٹرویو سُن رہا تھا جس میں وہ کہتا ہے کہ اس نے شراب اور دیگر غلط کام اس لیے بھی چھوڑ دیے کہ اسے ایک دن خیال آیا کہ ٹیکنالوجی کتنی تبدیلیاں لا رہی ہیں‘ زندگی ہر لمحے دلچسپ ہو رہی ہے‘ بدل رہی ہے‘ یہ بھی کوئی مرنے کا وقت ہے۔ ہنس کر بولے کہ میں زیادہ لالچی تو نہیں لیکن کم از کم پانچ سو سال تو زندہ رہنا چاہوں گا۔ اور ڈاکٹر احتشام قریشی کے مطابق دو سو سال تک زندہ رہنے کا ٹارگٹ تو حاصل ہو ہی جائے گا۔