"AIZ" (space) message & send to 7575

برائی کا خاتمہ

اسلام میں بدکرداری کو انتہائی ناپسند کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت: 32 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور تم زنا کے قریب بھی نہ جائو‘‘۔ زنا کے اسباب میں جہاں اپنی نگاہوں کی حفاظت نہ کرنا‘ بالغ ہونے کے بعد نکاح میں تاخیر کرنا اور حدود وتعزیراتِ اسلامیہ کا کسی معاشرے میں نفاذ نہ ہونا شامل ہیں‘ وہیں اختلاطِ مرد وزن بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔اختلاطِ مرد وزن کے حوالے سے اسلام کے احکامات بالکل واضح ہیں۔ اسلام نے ان تمام ذرائع کو مسدود کرنے کی رغبت دلائی ہے جہاں مرد وزن کے اختلاط کے امکانات موجود ہوں۔ نبی کریمﷺ نے مرد اور عورت کے خلوت میں اکٹھے ہونے کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ اس حوالے سے مسند احمد میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ''جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ وہ کسی ایسی عورت کیساتھ خلوت میں نہ بیٹھے جو اس کی محرم نہ ہو‘ کیونکہ وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔
اسلامی تعلیمات میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرد وزن اگر آپس میں محرم ہوں تو ان کا ملنا بلا شک وشبہ جائز ہے مگر اس کے برعکس اگر وہ اس کے علاوہ خلوت اختیار کریں تو یہ بلاشک و شبہ حرام ہے۔ مرد وزن کاایک دوسرے سے بوقتِ ضرورت رابطہ‘ جس طرح معالج اور مریضہ کا یا عالم اور سائلہ کا رابطہ‘ اس کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا۔ وہ اختلاط‘ جس کی اسلام نے مذمت کی ہے وہ مرد وزن کا مستقل اختلاط یا لمبے عرصے تک مخلوط ماحول میں مرد وزن کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہے۔ یہ وہ صورت ہے جس پر معاشرے میں دو طرح کی آرا پائی جاتی ہیں۔ معاشرے کاایک طبقہ اس قسم کے اختلاط کو درست سمجھتا ہے جبکہ دینی طبقہ قرآن و سنت سے اس قسم کے اختلاط کے عدم جواز کے دلائل پیش کرتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رابطے کی یہ صورت برائی کے راستے کھولنے والی ہے۔ عموماً اس طرح کے اختلاط کے حوالے سے مختلف شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ہیں:
شبہ پیدا کرنے والوں کا ایک استدلال یہ ہے کہ اسلام میں مرد وزن کو مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب مرد وزن نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کے لیے آتے تھے تو ان کے داخلے کے لیے الگ الگ دروازے موجود تھے۔ مردوں کو ہمیشہ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی تلقین کی گئی جبکہ خواتین کے لیے آخری صفوں کو بہترین قرار دیا گیا۔ مساجد میں نماز ادا کرنا مرد کے لیے انتہائی فضیلت کی بات ہے لیکن خواتین کی نماز کے لیے گھروں کو بہترین جگہ قرار دیا گیا۔ مساجد‘ جو اللہ کا گھر ہیں‘ کے مقابلے میں خواتین کی نمازوں کو گھروں میں افضل قرار دے کر اس بات کو واضح کر دیا گیا کہ اختلاطِ مرد وزن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اختلاط کے بعض حامی اس سلسلے میں قرونِ اولیٰ کی دینی مجالس کا ذکر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ صحابہ کرامؓ کے لیے اکثر علمی مجالس کا اہتمام فرماتے لیکن عورتوں کے لیے باضابطہ طور پر ایسی الگ مجالس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بعض اوقات خواتین نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں مسائل پوچھنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں مگر ایسے مواقع پر ہمیشہ وہ پردے کے پیچھے ہوتیں‘ نبی کریمﷺ ان کو مسئلہ بتاتے تو وہیں سے وہ تشریف لے جایا کرتی تھیں۔ بسا اوقات حساس اور پردے والے مسائل کے بارے میں امہات المومنینؓ ان کو آگاہ فرماتی تھیں۔ نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ جو مومنوں کے لیے ان کی ماں کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بھی صحابہ کرام کے سامنے آنے کے بجائے پردے کی اوٹ سے کلام کیا کرتی تھیں اور ان کو اس بات کا حکم قرآنِ مجید میں دیا گیا کہ وہ نرم آواز میں کسی سے بات نہ کریں‘ تاکہ اگر کسی کے دل میں مرض ہے تو وہ ان کی آواز کو سن کے دل میں کوئی امید نہ پالے۔
اس حوالے سے ایک شبہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ عورتیں رسول اللہﷺ سے علیحدگی میں بھی سوال پوچھنے کا تقاضا کرتی تھیں مگر اس عمل کا مقصد خلوت اختیار کرنا قطعاً نہیں تھا بلکہ یہ معاملہ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوا کرتا تھا اور نبی کریمﷺ اگر تھوڑا فاصلہ اختیار کرتے تو یہ خلوت اختیار کرنا نہیں تھا بلکہ کسی کے راز یا سوال کو پوشیدہ رکھنا مقصود ہوتا تھا۔
سورۂ نور پر غور وخوض کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد وزن کو اپنی نگاہیں جھکانے اور عورتوں کو اپنے وجود کو چھپانے کا حکم دیا جس کا مقصد بلاشبہ اختلاط کو ختم کرنا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نور کی آیات: 30 تا 31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے‘ لوگ جو کچھ کریں اللہ اس سب سے باخبر ہے۔ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں‘ سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں‘ سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پائوں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی کے گھر جانے والے شخص کو اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہونے سے منع فرمایا ہے اور اگر اس کو واپس پلٹنے کا کہا جائے تو اس کو فوراً سے پیشتر واپس پلٹ جانا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نور کی آیات: 27 تا 29 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جائو جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو‘ یہی تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جائو۔ اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جائو‘ یہی بات تمہارے لیے پاکیزہ ہے‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ ہاں غیر آباد گھروں میں‘ جہاں تمہارا کوئی فائدہ یا اسباب ہو‘ جانے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ تم جو کچھ بھی ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اللہ سب کچھ جانتا ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں کئی مرتبہ عورتیں اسلام قبول کرنے کیلئے آتی تھیں لیکن آپ مرد صحابہ کرامؓ کے برعکس ان سے فقط زبانی بیعت فرمایا کرتے۔ اس حوالے سے سنن نسائی میں حضرت امیمہ بنت رقیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں کچھ انصاری عورتوں کی معیت میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ہم آپﷺ سے بیعت ہونا چاہتی تھیں۔ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم آپ سے بیعت کرتی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی‘ چوری نہیں کریں گی‘ زنا نہیں کریں گی‘ اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی نیک کام میں آپﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق (تم پابند ہو گی)‘‘۔ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم پر (ہم سے بھی) زیادہ مہربان اور رحم فرمانے والے ہیں۔ اے اللہ کے رسولﷺ! اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ میرا زبانی طور پر سو عورتوں سے (بیعت کی) بات چیت کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہر ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں‘‘۔مذکورہ بالا آیات مبارکہ اور احادیث طیبہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برائی کی روک تھام کیلئے ہر قسم کے اختلاط کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اہلِ اسلام کو پاک دامنی اور پاکیزگی کے راستے پر چلنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں