روایتی تجزیہ نگاری موت کی وادی میں پہنچ چکی ہے کیونکہ کچھ سمجھ نہیں کہ حکمرانوں کے ذہنوں میں کیا ہے اور کیا ارادے باندھے ہوئے ہیں۔ جب حکمرانوں کا نام لیا جائے تو عقل مندوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اشارہ کس طرف ہے۔ پی ٹی آئی والے سچ ہی کہتے ہیں کہ بات اُن سے کی جائے جن کے پاس اختیار ہے‘ یہ جو نمائشی قسم کے لوگ سامنے رکھے ہوئے ہیں ان سے بات کرنے کا فائدہ کیا؟ صرف ان کی آنیاں جانیاں دیکھنی ہوں پھر تو اور بات ہے لیکن فیصلے تو ان کے ہاتھ میں نہیں۔ لہٰذا کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ سیاسی ٹوپی میں سے کون سا کبوتر نکل سکتا ہے۔ لیکن لوگ تو سوال کرتے ہیں کہ بتائیں جی کیا ہونے والا ہے؟ ہم جیسے خاک کچھ بتلائیں کیونکہ تجزیہ نگاری اور اندھیرے میں ہاتھ مارنا برابر کے کارنامے ہو چکے ہیں۔
یہ بھی ایک عجوبہ ہی ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے فروعی قسم کی معلومات تو بہت ہیں لیکن عقل والی بات ذرا کم ہی ملتی ہے۔ ابوظہبی کے سربراہ سالانہ شکار پر اپنے چولستان والے محل میں آئیں تو بھرتی کے نمائشی بیچارے کیا کریں‘ اُنہوں نے وہاں استقبال کے لیے پہنچنا ہی ہے۔ مانگے تانگے پر جب گزارا ہو تو ایسی فرمانبرداری مجبوری بن جاتی ہے۔ اور جن قہقہوں سے استقبال کیا جاتا ہے وہ ہماری روایتی خوش مزاجی کم اور کسمپرسی کے عکاس زیادہ لگتے ہیں۔ مصافحہ کرنے کے انداز بے شمار ہیں اور کچھ زیادہ ہی دلکش۔ مصافحہ جو ہم نے تصویروں میں دیکھا اُس پر اتنے کو ہی کافی سمجھنا چاہیے۔
اس لاعلمی کی کیفیت میں کبھی تو سوچ اٹھتی ہے کہ اس قسم کا سیاسی جمود جس میں ہمارا پیارا دیس پھنسا ہوا ہے‘ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن ساتھ ہی ذہن ماضی کے دریچوں کو کھولنے لگتا ہے اور ایسے میں تلخ یادیں آن گھیرتی ہیں۔ ایوب خان کے پیچھے کون سی عوامی طاقت تھی‘ کون سے عوامی مینڈیٹ کے گھوڑے پر وہ سوار تھے؟ لیکن پھر بھی دس سال سے کچھ زیادہ عرصہ مسندِ اقتدار پر بڑے طمطراق سے براجمان رہے۔ دسویں سال تو جشنِ دس سالہ ترقی بھی منانے لگے اور عوامی تحریک نہ اٹھتی تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار سے چمٹے رہتے۔ یہ تو پاکستانی عوام کی بیزاری اس انتہا کو پہنچی کہ پُرزور احتجاج کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ جلوس نکلے اور وہ نعرے لگے کہ خود ساختہ فیلڈ مارشل کو بھی سمجھ آ گئی کہ اب جانے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن کمال دیکھئے کہ جاتے ہوئے اقتدار نیشنل اسمبلی کے سپیکر کو منتقل نہیں کیا‘ جیسا کہ اُن کا اپنا آئین کہتا تھا بلکہ اپنے چہیتے جنرل یحییٰ خان کو سب کچھ دے گئے اور خود تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ یہ اور بات ہے کہ اقتدار میں آتے ہی جنرل یحییٰ نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے گاڈ فادر سے دوری اختیار کی۔
جنرل یحییٰ خان کی شب و روز کی مصروفیات کا شمار تو کسی رنگیلا ڈائجسٹ میں بنتا ہے۔ لہٰذا اُن کی ہنگامہ خیز اور پُررونق شاموں کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ جمود اور طوالت کے دائرے میں اگلا نام جنرل ضیا الحق کا آتا ہے۔ اُن کے پیچھے کون سا مینڈیٹ تھا؟ نوے دن کے اندر انتخابات کا نہ صرف اعلان بلکہ سینے پر ہاتھ رکھ کر وعدہ فرمایا تھا لیکن جلد ہی سمجھ آ گئی کہ حسبِ وعدہ الیکشن کرائے تو بینڈ بج جائے گا۔ اس لیے بے مثال ہنرمندی دکھاتے ہوئے انتخابات کے کھاتے کو کسی ایسے ڈیپ فریزر میں ڈالا کہ ساڑھے آٹھ سال تک نکالنے کی نوبت نہ آئی۔ جب ہمارے سامنے یہ درخشندہ مثالیں موجود ہیں تو ایسا بیان دینا کہ موجودہ جمود قائم نہیں رہ سکتا‘ مشکوک پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی کہانی تو یہی ہے‘ جو پیر ومرشد آیا اُس نے آئین اور قانون کے ساتھ وہی کیا جو ایوب خان اور ضیا الحق نے کیا تھا۔
ایک لحاظ سے ان دونوں سورماؤں سے جنرل یحییٰ خان فائدے میں رہے کیونکہ گو اُن کا عرصۂ اقتدار قلیل مدت کا رہا‘ جتنا بھی تھا مزیدار اور پُررونق تھا۔ ابھی تک تاریخ کے تناظر میں موصوف کے ساتھ صحیح انصاف نہیں ہوا کیونکہ اُن کی شاموں کے بارے میں جو حتمی تاریخ لکھی جانی چاہیے تھی‘ وہ ابھی تک اپنے مؤرخ کی منتظر ہے۔ اپنی جگہ یہ تو درست ہے کہ مشہورِ زمانہ فنکارہ ترانہ صدر ہاؤس راولپنڈی گئیں تو اندر جانے میں انہیں دقت محسوس ہوئی۔ اے ڈی سی سے جب رابطہ ہوا تو باہر گیٹ کی گارد کو حکم ہوا کہ محترمہ کو فوراً اندر آنے دیا جائے۔ یہ قصہ ہم سب جانتے ہیں کہ جب محترمہ ضروری مصروفیات نبھا کر واپس گیٹ پر آئیں تو گارد نے اُنہیں سیلوٹ کیا۔ یہ تو چلیں ٹھیک ہے لیکن موصوفہ نے کن قومی اہمیت کے حامل موضوعات پر اندر صدر صاحب سے گفتگو فرمائی اس تفصیل سے قوم ابھی تک بے خبر ہے۔ لہٰذا مؤرخ کا انتظار بجا ہے۔
آگے کیا ہونے والا ہے اس سوال میں ہماری دلچسپی ذاتی نوعیت کی ہے۔ عمر کے اُس کنارے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم بس اب محض ایک ایکسٹینشن کی مار ہیں۔ اس نکتے پر اہلِ نظر انصاف کر سکتے ہیں۔ 75کے بعد رہ بھی کیا جاتا ہے۔ 75کے ساتھ ایک ایکسٹینشن لگائیں تو اس نکتے کی گہرائی سامنے آ جاتی ہے۔ زندگی عنایت کرنے والا تو پروردگار ہے‘ کچھ اور دن عنایت ہو بھی جائیں لیکن ایسی عمرِ خضر میں ہم جیسوں نے کیا تیر چلانے ہیں۔ اسی لیے دل سے دعا ہے کہ کچھ ہونا ہے تو ذرا جلد ہو جائے تاکہ ہمارے کام آ سکے۔ اُس کے بعد بادِ صبا چلتی ہے تو ہمارے کس کام کی۔
جمود کی باتوں کے علاوہ ہم پنجاب کے لوگ موجودہ نازک صورتحال کی مضمرات سمجھ نہیں رہے۔ جمود تو چلیں سیاسی ہے لیکن ہمارے دونوں مغربی صوبوں میں باقاعدہ عسکری شورشیں چل رہی ہیں۔ ان شورشوں کیلئے اردو میں کوئی مناسب لفظ نہیں۔ انگریزی میں ایسی کیفیت کو اِنسریکشن (insurrection) کہتے ہیں۔ یہ تو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ حملے اور اموات تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ قوم کو نوید سنائی جاتی ہے کہ سال کے دورانیہ میں دہشت گردی کو کچلنے کیلئے چالیس‘ پچاس ہزار آپریشن کیے گئے۔ تعداد جو بتائی جاتی ہے وہ شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اتنے آپریشن لانچ کیے جائیں تو کوئی مغلیہ سلطنت فتح ہو جائے۔ بہرحال ریاست کو ان دو شورشو ں کی وجہ سے نہایت ہی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔
اتنا تو کوئی اناڑی بھی جانے کہ ایسی صورتحال ہو تو اُس کا مقابلہ ایک متحد قوم ہی کر سکتی ہے۔ تمام اجزائے ریاست ایک ہو کر کام کر رہے ہوں‘ ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کر رہے ہوں‘ ایک دوسرے سے حوصلہ اور رہنمائی لے رہے ہوں‘ تب ہی ایسی بغاوتوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ عزائم یکجا نہ ہوں‘ اجزائے ترکیبی ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہوں‘ دھیان بٹا ہو‘ نگاہ کبھی اس طرف اور کبھی کہیں اور‘ پھر تو صورتحال اور ہی خطرناک ہو جاتی ہے۔ کچھ تو سوچنا چاہیے‘ کچھ تو گھوڑوں کو لگام دینی چاہیے۔