جوانی میں ناکام ریاستوں کی اصطلاح سے ہم ناواقف تھے۔ تب عمومی سمجھ یہی تھی کہ دنیا کا جو نقشہ جنگِ عظیم دوم کے بعدکھنچ چکا ہے وہ اٹل ہے اوراُس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکے گی۔ 1973-74ء میں سفارت خانہ پاکستان ماسکو میں تعینات تھا اور تب مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ پرانے ماسکو کی گلیوں کے پرانے پتھروں میں طاقت کا احساس پیدا ہوتاہے۔ سوویت یونین تب واقعی ایک سپرپاور تھا‘ لیکن پھر جو اُس کے ساتھ ہوا اوراُس طاقتور ترین ریاست کے جو ٹکڑے ہوئے‘ وہ عمل ناقابلِ یقین تھا۔ ہم جیسے ملکوں میں یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ عسکری طاقت مضبوط ہو تو ملک کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ سوویت یونین کے پاس عسکری اور نیوکلیئر قوت کی کوئی کمی نہ تھی لیکن جب سیاسی اور معاشی حالات کمیونسٹ پارٹی کی سمجھ اورکنٹرول سے باہر جانے لگے تو بات سوویت یونین کے بکھرنے تک جا پہنچی۔ نہ اسلحہ بارود کام آیا‘ نہ راکٹ اور میزائل۔
1974ء میں جب لاہور میں اسلامی سَمٹ ہوئی توبیشتر مسلم ممالک بڑے مضبوط لگتے تھے اور اُن کے لیڈر بھی بڑے مدبر اور طاقتور لگتے تھے۔ الجزائر کے بومدین بڑے قد کاٹھ کے لیڈر تھے۔ لیبیا میں کرنل قذافی کو کچھ سال ہوئے تھے اقتدار میں آئے‘ نوجوان اور جوشیلے تھے اور نوجوانوں نے اُنہیں ایک ہیرو کا درجہ دے رکھا تھا۔مصر کے انورسادات 1973ء کی اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ چکے تھے اور گو آخرکار مصری افواج کا پلڑہ اسرائیل کے مقابلے میں بھاری نہ رہا‘ اُس جنگ میں اتنا تو تھا کہ مصری افواج نے نہر سوئزعبور کی۔ شام کے حافظ الاسد‘ اُن کی بھی کیا چمک اور کشش تھی۔ عراق میں صدام حسین اقتدار میں نہیں آئے تھے لیکن عراقی حکومت بڑی مضبوط لگتی تھی اور تیل کی دولت سے مالا مال تھی۔ ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی تیل کی دولت پر بیٹھے ہوئے تھے ‘ جابر قسم کی حکمرانی ایران پرمسلط تھی اور شہنشاہ کا یہ عالم تھا کہ مغربی دنیا کو ترقی اور استحکام کے بھاشن سناتے تھے۔ پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو کا طوطی بول رہا تھا۔ کیا کرشمہ تھا اُن میں‘ کیا الفاظ کی ادائیگی۔ اُس زمانے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ تقریباً ان تمام حکمرانوں اوران کے ممالک کا اچھا انجام نہ ہوگا؟آج کے زاویے سے دیکھا جائے تو مسلم ممالک کی اُس وقت کی کیفیت ایک خواب لگتی ہے۔
الجزائر کا آج کون صدر ہے‘ مشکل سے لوگوں کو پتا ہوگا۔ لیبیا اور قذافی کے ساتھ وہ ہوا کہ اُس پر سوچیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سادات پر گولی چلی اور مصر کا یہ حال ہے کہ بیرونی امداد رک جائے تو حالات مشکل ہو جائیں۔ شام میں الاسد خاندان کا اقتدار ختم ہوا اوروہاں کا مستقبل کیا ہوگا آسانی سے نہیں کہا جاسکتا۔ عراق جس تباہی سے دوچار ہوا وہ کسی پرانی تاریخ کا حصہ نہیں اسی دور میں ہوا۔ ایران میں مضبوط حکومت ہے لیکن حالیہ دنوں میں اُس کی پوزیشن کافی کمزور ہو چکی ہے۔ غزہ کے واقعات سے پہلے ایسے لگتاتھا کہ ایران اوراُس کے پراکسیوں نے اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ ایک سال میں اُس سارے خطے کی سٹریٹجک پوزیشن بدل چکی ہے۔ او رآج حزب اللہ اور حماس نے جو نقصان اٹھائے ہیں اُس کے بعد ایران کوخاصا دھچکا لگا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی بات نہ ہی کی جائے تو اچھا ہے۔ بھٹو کے ساتھ کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور جو ہم نے اجتماعی طور پر اس ملک کے ساتھ کیا وہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ مسلم ممالک میں ایڈونچرازم کا شوق پتا نہیں کہاں سے پیدا ہوا۔ لیبیا کو دیکھیں‘ اقتدار کے شروع کے سالوں میں کرنل قذافی بین الاقوامی انقلابی بنے ہوئے تھے۔ جوش تو تھا ہی وسائل بھی تھے لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیامیں طاقت کے توازن کو صحیح طور پر پڑھ نہ سکے۔ اپنے وقت میں ایڈونچرازم کا شکار تو ہوتے رہے لیکن جب مغربی دنیا نے موقع پاکر بدلا لینا شروع کیا تواُن کی جارحیت کے سامنے قذافی بے بس ہو گئے۔ عراق کی مثال بھی دیکھی جاسکتی ہے‘ امریکی حملہ تو بعد میں آیا لیکن صدام حسین کو ایران سے جنگ چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی اور کویت پر چڑھائی کی اتنی تڑپ کیوں پیدا ہوئی؟ امریکیوں کے عذر جھوٹ پر مبنی ہوں گے لیکن امریکیوں نے پھر عراق کے ساتھ وہ کیا جو ہلاکو خان نے اپنے وقت خلیفۂ بغداد کے ساتھ کیا تھا۔ ایران بھی اپنی برانڈ کا انقلاب ایکسپورٹ کرنے میں مصروف رہا۔ ملکوں کو کرنا وہ چاہیے جس کی استطاعت ہو۔ ٹرمپ جب پہلی بار صدر ہوئے تھے تو جنرل قاسم سلیمانی امریکی میزائل کا نشانہ بنے‘ وہ بھی تب جب وہ بغداد کے دورے پر پہنچے تھے۔ اس کے جواب میں ایران کیا کرسکا؟ کچھ زیادہ نہیں‘ بغداد میں ایک امریکی بیس پر ایک دو راکٹ داغ دیے اور امریکہ نے بھی سوچ لیا کہ اپنی ناک کی خاطر ایران کو اتنا تو کرنا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ واقعات نے البتہ ایران کو بے نقاب کر دیا ہے۔ حماس اپنی تباہی کی خود ذمہ دار ہے اور اس لڑائی میں حماس کی خاطر حزب اللہ کو بھی بہت نقصان اٹھانا پڑاہے۔ حزب اللہ کا اچھا بھلا رعب بنا ہوا تھا۔ حماس کی غزہ کی پٹی پر حکمرانی قائم تھی۔ اتنا بڑا پنگا لینے کی حماس کو کیا ضرورت تھی۔
مسلم ممالک مصطفی کمال کی زندگی سے کچھ سبق حاصل کیوں نہیں کرتے؟ گیلی پولی کے معرکے میں مصطفی کمال کس سے برسرِپیکار تھے؟ برطانوی‘ آسٹریلوی اور فرانسیسی افواج سے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعدمغربی قوتوں نے ترکی پر ایک رسوا کن معاہدہ مسلط کیا۔ مغربی طاقتوں نے یونان کو شہ دی اور یونان ترکی پر حملہ آور ہوا۔ اس جنگ میں مصطفی کمال کی کمان میں ترکی سرخرو ہوا اور یونانی فوجوں کو ترکی سے بھاگنا پڑا۔ لیکن ان تمام تلخ حقائق کے باوجود اتاترک کے دل میں مغربی دنیا کے خلاف کوئی رنجش نہ تھی‘ بلکہ اُن کا خیال و عزم تھا کہ ترکی کو مغرب کی تقلید کرنی چاہیے اوراُس کے رنگ میں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہیے۔ عراق پر تب برطانیہ قابض تھا لیکن موصل کے تیل کے کنویں ہاتھ سے گئے‘ برطانیہ سے بھی معاہدہ کرلیا۔ مطمح نظر مصطفی کمال کا یہ تھا کہ تمام چیزوں کو ایک طرف رکھ کر ترکی کی توانائیاں اپنے ملک کی بہتری اور ترقی پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ جو کچھ اُنہوں نے پھر کیا ترکی فلاح و بہبود اورعظمت کیلئے کیا۔ کسی بیرونی ایڈونچر میں اپنے ملک کومبتلا نہ کیا۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے حالات پر توجہ دینے کے بجائے ہم بیرونی معاملات میں پڑے رہے۔ ہندوستان سے بہتر تعلقات قائم نہ رکھ سکے۔ قومی دفاع کے نام پر ہندوستان کی دشمنی پر قومی وسائل صرف ہوتے رہے۔ اوروں کی جنگوں میں ہم ملوث رہے اور کیونکہ اس قسم کی ایڈونچرازم کا ہمیں شوق تھا اوروں نے بھی ہمیں خوب استعمال کیا۔ جب ہم استعمال ہوتے تھے اور اس کے عوض کچھ ملتا تھا تو ہم اپنے آپ کو بہت پاٹے خان سمجھتے تھے۔ نیشنل سکیورٹی کے نام پر ہم نے اپنے آپ کو ایک نارمل ملک نہ رہنے دیا۔
آج حالت یہ ہے کہ توانائیاں بکھری پڑی ہیں۔ چالیس سال ہم افغانستان کے ٹھیکیدار بنے رہے اور اب افغانستان ہمارے لیے سب سے بڑا دردِ سربنا ہواہے۔ پختونخوا کے بہت سے اضلاع میں لااینڈآرڈر کی صورتحال مخدوش ہے ۔ ایک جنگ کی صورتحال سے ہم درپیش ہیں۔ بلوچستان میں ایک اور قسم کی شورش چل رہی ہے اور وہاں بھی ہم پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جہاں اندرونی سیاسی استحکام ہونا چاہیے وہاں بھی عدمِ استحکام کی کیفیت ہے۔ اس تمام صورتحال کودیکھ کر دل میں اضطراب پیدا ہونے لگتا ہے۔ کچھ ٹھہراؤ کچھ سنبھلنے کی ضرورت ہے۔