"AYA" (space) message & send to 7575

جاگ اور دیکھ ذرا عالمِ ویراں میرا

ویرانیٔ دل کی کوئی بات نہیں کرنی‘ نہ آج کے دن ایسی بات جچتی ہے۔ بڑے مزے کی دھوپ تھی اور برآمدے میں پاؤں آگے کر کے بیٹھا اور استاد بڑے غلام علی خان کا راگ بھوپالی سنا تو نیند کا مزیدار جھونکا آیا۔ اُس کے بعد اپنے ڈاؤن لوڈ کیے ہوئے گانوں میں کچھ غزلیاتِ سہگل تھیں اور اُن میں سیماب کی یہ غزل جس کے الفاظ بے اختیار اوپر لگا دیے ہیں۔ یہ سوچ ضرور آئی کہ ایک اور سال بیت گیا ہے اور آنے والے سال میں زندگی نے وفا کی تو کیا کرنا ہے اورکیا کرنا چاہیے۔ یہی آرزو دل میں پیدا ہوئی کہ خواہ مخواہ کی چیزوں میں وقت ضائع نہیں کرنا اور کوشش یہی ہو گی کہ پسندیدہ کتابوں میں جو ابھی تک ختم نہیں کر سکے‘ اُن کی طرف لوٹا جائے اور اس پڑھائی پر زیادہ وقت دیا جائے۔ اگلے دو مہینوں میں 75سال کے ہو جائیں گے اور یہی دعا ہونی چاہیے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے انسان دور رہے ۔ یہی ہو جائے تو بڑی بات ہے۔
اب تو یہی دل کرتا ہے کہ گاؤں کے قریب جو ویرانے ہیں‘ اور ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک ایسی جگہیں موجود ہیں‘ اُن میں زیادہ سے زیادہ چہل قدمی کی جائے۔ روٹین بننی چاہیے کہ ہر روز آٹھ دس کلومیٹر کا سفر پیدل طے کر لیا جائے۔ زیادہ ملنے جلنے کی ویسے ہی کبھی عادت نہ تھی‘ اس لیے پسند کی محفل جو نہ ہو اُس سے دور رہنا کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ صحت ہو‘ کتابوں کی طرف رغبت برقرار رہے اور ہاتھ میں چھڑی تھامے انسان پیدل دور کو نکل جائے تو اورکیا چاہیے۔ البتہ من یہ ضرور چاہتا ہے کہ دور دراز علاقوں کی طرف بھی سفر کیا جائے۔ دنیا کی سیر تو ایک طرف رہی‘ اپنے ملک میں کتنے ہی مقامات ہیں جہاں ہم کاہلی کی وجہ سے جا نہیں سکے۔ اکیلے میں ایسا سفر کرنا اچھا نہیں لگتا اور مردوں کی صحبت ویسے تو ٹھیک ہے لیکن کاشغر یا ثمرقند کا ارادہ باندھیں اور ساتھ صبح سے شام تکنے کو اپنا ہم جنس ہی ملے تو یہ دل کو اُکتا دینے والی بات ہے۔ غور تو کیجئے کہ تاشقند کی کسی رندوں کی آماجگاہ میں بیٹھنا ہو اور محفل دل لبھانے والی نہ ہو تو جی میں کچھ تلملاہٹ پیدا نہ ہو جائے؟ لیکن جس کمپنی کی طرف اشارہ ہے مل جائے تو مل جائے‘ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اور یہ اپنے نصیب اور مقدر کی بات ہے۔ لیکن ایسے بھی شخص ہیں جو اکیلے میں دور دراز مقامات کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ ہمت والے لوگ ہیں‘ ہمیں بھی اُن کی پیروی کرنی چاہیے۔
سال کا آخری دن ہو تو خیال ضرور جاتا ہے اُس طرف کہ شام کو کیا کریں۔ گزرے سال کو الوداع کیسے کیا جائے‘ آنے والے سال کو ویلکم کس انداز سے کریں۔ اچھا تو یہی لگتا ہے کہ یہ کام کرنے کے لیے محفل خوبصورت ہو۔ چند روز پہلے دو تین فون کالیں ادھر اُدھر کی تھیں جس سے امید پیدا ہوئی کہ شام اچھی گزر جائے گی۔ لیکن سال کے آخری روز جو پکا کرنے کے لیے پھر سے فون کیے تو آمادگی ذرا کم محسوس ہوئی۔ ایک طرف سے بتایا گیا کہ بھائی جان آئے ہوئے ہیں‘ آج جانا تھا پر نہیں گئے۔ ایک اور طرف کال اٹھانے کی زحمت گوارہ نہ کی گئی۔ پہلے ہی دل میں محسوس ہو رہا تھا کہ اکیلے ہی شام گزارنی پڑے گی اور بڑے غلام علی خان اور سہگل صاحب پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ لیکن سچ پوچھئے تو اس سے کوئی دل میں ملال پیدا نہیں ہو رہا‘ محفل ہو تو اچھی ہو نہیں توخواہ مخواہ کے چہروں کو اکٹھا کرنے کا کیا فائدہ۔ نہا دھو کے‘ اجلے کپڑے پہن کر‘ اور شاید کوئی اُونی چادر کندھوں پر لپیٹ کر‘ گرم کمرے میں اکیلے سے بیٹھ جائیں گے ۔ میز ہمارا غریبوں کا میز ہے لیکن غربت کو بھی سامنے رکھ کر کچھ نہ کچھ تو اُس پر پڑا ہو گا۔ سال جو اپنے اختتام پر پہنچ رہا ہوگا اُس کی طرف‘ ظاہر ہے کچھ نہ کچھ سوچ جائے گی۔ اپنے حوالے سے گزرے سال میں کوئی اتنی کمال کی چیز تو ہوئی نہیں‘ بس کچھ بھی خاص نہ کرتے ہوئے سال بیت گیا۔ کتابیں جو نہ پڑھیں اُن کا افسوس دل میں ضرور اٹھے گا۔ خیال رہے کہ دھوپ میں ٹہلتے ہوئے یہ سطریں لکھائی جا رہی ہیں اور شام کا مر حلہ ابھی سامنے ہے ۔ لہٰذا ذہن میں خیال اُٹھ رہا ہے کہ شام کیسے ہو گی اور کیسے خیالات ذہن میں دوڑ رہے ہوں گے۔
شاید یہ گزرتے دنوں کا تقاضا ہے کہ نئے سال کی شام کے موقع پر اب لاہور اسلام آباد جانے کا دل نہیں کرتا۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک دو جگہ پوچھ لیا کرتے تھے کہ کیا پروگرام ہے لیکن وہ زمانہ اب بیت گیا اور اب خلوت میں ہی خوش ہیں۔ اور مطمئن بھی کیونکہ جو بے قراری ہوا کرتی تھی وہ اب نہیں رہی۔ وہ بھاگے بھاگے پھرنا کہ نیوایئر نائٹ ہے اور کچھ تو اس میں کمال کا ہنر دکھانا ہے وہ دل کی خلش اب جا چکی۔ کبھی کبھی سوچ آتی ہے کہ کاش یہ عقل پہلے آ جاتی۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں‘ اپنے وقت پر ہی ہر چیز ہوتی ہے۔
ایک ارمان البتہ ہے اور رہے گا‘ اور اس ارمان کا رونا ان سطور میں اکثر ہوتا رہتا ہے‘ کہ ہم نے اپنے دیس کو خواہ مخواہ کا بگاڑ دیا ہے۔ اس کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے۔ کوئی معاشرہ جو اپنے آپ کو مہذب کہے اُس میں اتنی تو چوائس ہونی چاہیے کہ اگر من چاہے تو کوئی دلفریب مقامات میسر ہوں‘ جہاں انسان اکیلا بھی جا سکے اور کسی کونے میں بیٹھ کر وقت یا شام گزار سکے۔ یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کر لیا ہے کہ ہر سال نیو ایئر نائٹ پر انتظامی اہلکاروں کی طرف سے ایسے اعلانات ہونے لگتے ہیں جیسے شام ڈھلے اخلاقیات کی فصیلوں پر کوئی حملہ ہونے والا ہے۔ صبح اخبارات کا مطالعہ ہوا تو ایک بیان ڈی پی او ساہیوال کی طرف سے تھا‘ ایک ڈی پی او راولپنڈی کی طرف سے کہ سپیشل دستے شہر کے ناکوں اور چوراہوں پر مامور کر دیے جائیں گے تاکہ وَن ویلنگ یا ہوائی فائرنگ یا کسی اور ہلڑ بازی کا خطرہ پیدا نہ ہو۔ جب آپ نے اس ملک کو نارمل رہنے ہی نہیں دیا تو نوجوان جو نام نہاد پوش علاقوں کے مکین نہیں‘ وہ اور کیا کریں سوائے سڑکوں پر نکل آنے کے اور پھر وہ کون سے دُھوتو ہوتے ہیں جن کو منہ سے لگائے ایک ہلڑ سا پیدا ہو جاتا ہے۔ معمولی سے معمولی چیز کو آپ نے یہاں ممنوع قرار دے دیا ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ نوجوانوں کا اچھل کود اورکچھ مزہ کرنے کا دل کرتا ہے۔ یہاں آپ نے ہرچیز بند کی ہوئی ہے تو نوجوان ہلڑ نہ مچائیں اور موٹر سائیکلوں پر سڑکوں پر نہ چلیں تو اور بے چارے کیا کریں؟ تفریق اس معاشرے میں ایسی ہے کہ اونچی دیواروں کے پیچھے سب کچھ ہو رہا ہو گا۔ بڑے فارم ہاؤسوں میں اور محفوظ قسم کی عمارتوں میں پارٹیاں ہوئی ہوں گی‘ ناچ گانے کے منظر سجے ہوں گے۔ دنیا کی ہر پابندی کے باوجود مضرِ زندگی منشیات کا استعمال ہمارے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں۔ بس بیکار کی نصیحت اور تنبیہ جاری رہتی ہے۔ ایسی منشیات کا استعمال اہلِ ثروت کی محفلوں میں بکثرت ہوا ہو گا۔ ایسے میں غریب کیا کرے؟ اور ریاست کا تمام جبر اس شام لاچار طبقات کے لیے مختص ہوتا ہے۔
ہماری ہر دلعزیز طلبہ جماعت کا تو وتیرہ ہوا کرتا تھا کہ ہر نیو ایئر نائٹ سے پہلے ان کی طرف سے اعلان ہوتا تھا کہ کوئی نیو ایئر تقریب منعقد نہیں ہونے دی جائے گی۔ ایسے لوگ اسی کام کے لیے رہ گئے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں