"HAC" (space) message & send to 7575

امریکہ کا عالمی ایجنڈا اور دو جنگیں

دنیا جلد ہی امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کو دیکھے گی‘ جب ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدر جو بائیڈن کی جگہ لیں گے۔ یہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی سے ریپبلکن پارٹی کی تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ ٹرمپ کی شخصیت اور سیاسی بندوبست بھی بائیڈن سے مختلف ہے۔ ٹرمپ ایک پُر شور اور غیر متوقع شخصیت ہیں جن کا نعرہ ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں عالمی نظام میں امریکہ کی برتری کو بحال کرنے اور یوکرین اور غزہ کی جنگوں کے فوری خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر یہ دونوں کام عملی سطح پر متصادم ہیں۔ اگر نئی امریکی انتظامیہ چین پر قابو پانے‘ روس کو دباؤ میں رکھنے‘ ایشیا پیسفک خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ اور یورپ کی سلامتی کے لیے زیادہ سے زیادہ یورپی شراکت پر توجہ مرکوز کرتی ہے تو یہ دونوں جنگیں اُس کی ثانوی ترجیح ہوں گی۔
یوکرین اور روس کے درمیان جنگ فروری 2022ء سے جاری ہے۔ اس جنگ کے اتنے لمبے عرصے تک جاری رہنے کی بڑی وجہ یوکرین کو امریکہ اور نیٹو کی فوجی اور سفارتی حمایت ہے۔ عملی طور پر یہ ایک پراکسی یعنی یوکرین کے ذریعے امریکہ؍ نیٹو اور روس کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے۔ اس سے یوکرین اور روس‘ دونوں کو انسانی اور مادی نقصان ہوا‘ اگرچہ یوکرین کے نقصانات زیادہ ہیں اور روس نے مشرق اور جنوب میں اس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سبکدوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ماہ یوکرین کے لیے نئے امدادی پیکیج کا اعلان کیا‘ تاکہ نئی انتظامیہ کیلئے روس کے ساتھ جنگ میں یوکرین کے ساتھ امریکی عزم سے دستبردار ہونا مشکل ہو جائے۔
اگرچہ ٹرمپ کی ٹیم بائیڈن انتظامیہ کی یوکرین روس پالیسی کی وسیع خصوصیات سے اتفاق کرتی ہے اور روس کو چین کے ساتھ ایک مخالف ملک کے طور پر دیکھتی ہے لیکن منتخب صدر ٹرمپ نے جلد از جلد اس جنگ کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔ اگرچہ اس نے اس مقصد کے حصول کی حکمت عملی کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا۔ اگر بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو اس جنگ کے جلد خاتمے کے امکانات کم ہیں۔ اس جنگ نے روس پر معاشی اور سلامتی کا دباؤ پیدا کیا ہے‘ لیکن اس دباؤ سے روس کی سرحد پر واقع ریاستوں میں نیٹو کے باضابطہ داخلے کی مخالفت کی پالیسی جاری رکھنے اور فعال عالمی سفارتکاری کیلئے اس کے اختیارات پر منفی اثر پڑنے کی توقع نہیں کی جاتی۔
نئی ٹرمپ انتظامیہ جس دوسری جنگ کا سامنا کرے گی‘ وہ غزہ اسرائیل جنگ ہے جو اکتوبر 2023ء سے جاری ہے۔ اسرائیل کو خطے میں فیصلہ کن فوجی برتری اور امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ فرانس بھی اسرائیل کا درپردہ حامی ہے۔ اس نے اسرائیل کو نہ صرف غزہ کے علاقے میں بلکہ جنوبی لبنان‘ شام اور یمن میں بھی اپنی فوجی برتری کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔ اس نے یمن میں حماس‘ حزب اللہ اور حوثیوں جیسی بنیادی قوتوں کو بھی کمزور کیا ہے۔ ایران اسرائیل کے دباؤ میں ہے‘ مگر اس کا جرأت مندانہ مزاج ظاہر و باہر ہے۔ تاہم شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اسرائیل کے لیے ایک معاون پیشرفت ہے۔ شام میں موجودہ غیریقینی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے اسرائیل شام کی فوجی تنصیبات اور گولہ بارود کے ذخائر کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ اس کی دفاعی صلاحیت کو بالکل مفلوج کر دے۔ نئی شامی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ کسی تنازع کے موڈ میں نہیں‘ لیکن حماس اور حزب اللہ اپنی ناکامیوں کے باوجود اسرائیل کو زور دار انداز سے چیلنج کر رہے ہیں۔ ایران مشرقِ وسطیٰ کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف رکھتا ہے۔ لیبیا‘ شام اور عراق جیسی دیگر تمام ریاستوں کو اسرائیل کی حمایت کرنے والی بڑی طاقتوں نے مفلوج کر دیا ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ کی دیگر ریاستوں میں سے اکثر نے یا تو اسرائیل کے ساتھ امن قائم کر لیا ہے یا اسرائیل کے بارے میں ان کی پالیسی بزدلی اور کم ہمتی کی آئینہ دار ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ فوجی کارروائیوں کا مقصد غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو تہس نہس کرنا‘ حماس کا مکمل خاتمہ اور املاک‘ بنیادی ڈھانچے اور بنیادی سہولتوں کو اس حد تک نقصان پہنچانا ہے کہ بیس‘ پچیس سال تک یہ علاقہ بحال نہ ہو سکے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک قرارداد منظور کی ہے لیکن چونکہ بڑی مغربی طاقتیں فوری جنگ بندی نہیں چاہتیں‘ لہٰذا اسرائیل غیر انسانی جنگی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کی حمایت جاری رکھتے ہوئے‘ جو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کا مستقل مقصد ہے‘ غزہ میں جنگ کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ کیا نئی امریکی انتظامیہ فوری جنگ بندی اور غزہ میں اب تک زندہ بچ جانے والے افراد کے لیے انسانی اور طبی امداد کی فراہمی یقینی بنا سکتی ہے؟ نئی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا مخمصہ یہ ہے کہ بین الاقوامی نظام میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کی فوجی اور معاشی طاقت کو کس طرح پیش کیا جائے۔ امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے مضبوط فوجی طاقت اور سب سے بڑی معیشت بھی ہے‘ لیکن بین الاقوامی نظام کو اپنی ترجیحات کے مطابق ڈھالنے کی اس کی صلاحیت کم ہو چکی ہے۔ اکیسویں صدی میں ورلڈ آرڈر کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے اور مختلف طاقت کے مراکز‘ جنہیں اکثر علاقائی بااثر وجود کے طور پر بیان کیا جاتا ہے‘ دنیا کے مختلف حصوں میں ابھرے ہیں۔ علاقائی طاقت کے یہ مراکز امریکہ کو براہِ راست چیلنج نہیں کرتے ہیں لیکن ان کی خود مختار حیثیت امریکہ کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور امریکہ کی یک قطبیت کی راہ روکتی ہے۔ امریکہ کو ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے علاقائی بااثر طاقتوں کا تعاون حاصل کرنا ہو گا۔ ان پاور سینٹرز کے عروج نے آپریشنل سطح پر دنیا کو کثیر قطبی بنا دیا ہے‘ جس سے واحد سپر پاور کی یک قطبیت اور عالمی امور کو ایک اہم مقام سے کنٹرول کرنے کی صلاحیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس کثیر قطبیت نے سفارت کاری کی اہمیت میں اضافہ کیا اور علاقائی بااثر طاقتوں کی حمایت کو متحرک کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ اس نے شمالی امریکہ اور یورپ سے باہر عالمی ایجنڈے کو وسعت دی ہے۔
عالمی نظام کی تبدیل شدہ نوعیت نے یورپی یونین‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ بھارت‘ سعودی عرب اور ترکیہ جیسے کئی ممالک کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ چین اور روس امریکہ کے بڑے حریف بن کر ابھرے ہیں۔ امریکہ کی ترجیح عالمی سطح پر چین کی معاشی اور سفارتی توسیع کو روکنا ہے۔ امریکہ کو روس اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون اور عالمی سطح پر روس کی سرگرمی پر بھی تشویش ہے۔ لہٰذا نئی امریکی انتظامیہ کے ایجنڈے میں چین اور روس کی راہ روکنا‘ چین کے حریف کی حیثیت سے بھارت کی تعمیر‘ ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں امریکی حمایت اور اثر و رسوخ میں اضافہ اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی برتری کو برقرار رکھنا شامل ہو گا۔ دونوں جنگوں کا خاتمہ امریکی کے لیے ثانوی ترجیح ہو گی۔ لہٰذا یہ تجویز کرنا مشکل ہے کہ غزہ اور یوکرین میں جنگوں کے خاتمے کے لیے امریکہ کتنی تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں