متنازع مسائل کے حل اور سیاسی طور پر دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنے کے لیے بات چیت کا عمل جمہوری عمل کو ہموار طریقے سے کام کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا یہی خیال ہے‘ تاہم سیاسی ہم آہنگی کیلئے اس نقطہ نظر کے باوجود پاکستان میں سیاسی مفاہمت کیلئے معنی خیز مذاکرات کے امکانات برائے نام ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں حکمران اتحاد اور حزبِ اختلاف کے مابین محاذ آرائی‘ جس کے اہم کھلاڑی پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں‘ اتنی شدید ہو چکی ہے کہ فریقین اپنی زیادہ توانائی ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات عائد کرنے پر صرف کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو پاکستان کے سیاسی اور معاشی زوال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سیاست کا محاورہ غیر پارلیمانی‘ ناشائستہ اور جارحانہ ہے اور دونوں اطراف کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد سیاسی حریفوں پر قومی مفاد کو مجروح کرنے اور بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے اور عوامی‘ سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ نقطہ نظر وضع کرنے میں بہت کم توجہ ہے۔
اس محاذ آرائی والے سیاسی ماحول میں وزیراعظم شہباز شریف نے 26 جون کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں اپوزیشن کو بات چیت کی پیشکش کی اور مسائل حل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔ انہوں نے ماضی میں بھی ایک یا دو مواقع پر اسی طرح کی پیشکش کی تھی۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ ماضی میں پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن یہ پیشکش ہمیشہ عمران خان اور کچھ دیگر رہنماؤں کی جیل سے رہائی کی شرط کے ساتھ منسلک ہوتی تھی۔ بعض اوقات پی ٹی آئی نے تجویز پیش کی کہ وہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے‘ جس کے پاس صورتحال کو تبدیل کرنے کی حقیقی طاقت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہے۔ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے‘ جمعیت علمائے اسلام نے اپنے آپشنز کو اس لحاظ سے کھلا رکھا ہے کہ اس نے پی ٹی آئی سے دوری برقرار رکھی ہے لیکن وہ حکومت پر تنقید میں آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا سے ملاقات کی تاکہ وہ حکومت کے خلاف باضابطہ طور پر پی ٹی آئی میں شامل نہ ہوں۔ مولانا فضل الرحمن فی الحال اپنی سیاسی خودمختاری برقرار رکھے ہوئے ہیں‘ لیکن پی ٹی آئی کے رہنما انہیں اپنی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی مفاہمت کے لیے بات چیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک مسائل کے چارsets پر توجہ نہ دی جائے: سب سے پہلے‘ حکومت اور حزبِ اختلاف کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سیاسی ماحول معتدل ہو۔ انہیں منفی اور دشمنانہ رویے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر کی مثال لیں‘ انہوں نے ایک مثبت بیان دیا جس میں بات چیت کرنے کی بات کی گئی تھی‘ تاہم اپوزیشن کے بارے زیادہ تر دیگر تبصرے منفی تھے۔ اگر ہم اپریل 2022ء میں وزیراعظم بننے کے بعد سے شہباز شریف کے بیانات پر غور کریں اور ان کی تقاریر کے مندرجات کا جائزہ لیں تو اپوزیشن کے بارے میں منفی تبصرے مثبت تبصروں سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح اگر ہم اپریل 2022ء سے لے کر اگست 2023ء کے پہلے ہفتے میں عمران خان کی گرفتاری تک کی تقاریر کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان کی تقاریر میں بھی سیاسی حریفوں کے بارے میں منفی تبصرے زیادہ ہیں۔ دونوں فریقوں کو اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں منفی گفتگو کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا‘ وفاقی سطح پر اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومتوں کو پی ٹی آئی کو یقین دلانے کے لیے کچھ اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے کہ حکومت سیاسی ماحول کو تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اسے 9 مئی کے سلسلے میں گرفتار پی ٹی آئی رہنماؤں کو ہراساں کرنے‘ گرفتاری یا سست ٹرائل یا کوئی مقدمہ چلانے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس دن وزیراعظم نے بات چیت کی تازہ ترین پیشکش کی‘ ایک وفاقی سرکاری ایجنسی نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں شاہ محمود قریشی (پہلے ہی جیل میں) کے خلاف سات مقدمات درج کر دیے۔ اگر حکومت پی ٹی آئی کو دباؤ میں رکھنے کے لیے قوانین اور ریاستی مشینری کا استعمال جاری رکھتی ہے تو پی ٹی آئی مکالمے کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دے گی۔
تیسرا‘ بامعنی بات چیت کے لیے ایک مشترکہ ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں اس پر اختلاف ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرے اور اسے نئے انتخابات کے لیے پانچ سال انتظار کرنا چاہیے۔ یہ بھی چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی مقدمات اور تفتیشی کارروائیوں کا سامنا کرتی رہے اور یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بجائے عدالتیں ہی اسے ریلیف دے سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی ان مسائل کو بات چیت کے اہم ایجنڈے کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ تمام معاملات پی ٹی آئی کے لیے اہم ہیں اور وہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔
چوتھا‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سیاسی لچک دکھانا آسان ہو جائے گا اگر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ 9 مئی کے واقعات کے بارے میں لچکدار نقطہ نظر اپنانے پر راضی ہو اور 9 مئی کو یا اس کے بعد تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں ان لوگوں کے خلاف نرم رویہ اپنائے۔ اگر سرکاری حلقے 9 مئی کے درد پر قابو نہیں پا سکتے تو پاکستان کی سیاست مفاہمت اور ہم آہنگی کی جانب نہیں بڑھ سکتی۔
پاکستان کے پاس غربت اور پسماندگی پر قابو پانے کے لیے انسانی اور مادی وسائل ہیں اور وہ اپنی معیشت کو بچا سکتا ہے‘ اسی طرح انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنج پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے‘ مگر ان اہداف کے حصول میں اہم رکاوٹ سیاسی اور سماجی اشرافیہ کے درمیان طاقت کی رسہ کشی ہے۔ اشرافیہ کا ایک طبقہ کسی بھی قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتا ہے اور دوسرا طبقہ اسے اقتدار سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔ اقتدار کی یہ کشمکش اکثر آئین اور جمہوریت کے اصولوں سے مبرا ہوتی ہے اور اس میں تہذیب اور رواداری کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ سیاسی استحکام اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سیاسی تنازعات کو ایک پیشگی شرط کے طور پر ختم کرنا ہو گا۔ اگر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری تصادم برقرار رہتا ہے تو پُرامن اور مستحکم سیاسی ماحول کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ دونوں فریقوں کو محاذ آرائی کی سیاست سے پیچھے ہٹنے اور ہر مسئلے پر ایک دوسرے کی مخالفت بند کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کے لیے یہ آپشنز ہیں۔ کیا سیاسی رہنما اس وقت کی منفی اور محاذ آرائی کی سیاست کو ترک کر سکتے ہیں جس میں سیاسی حریفوں کو سیاسی دشمن تصور کیا جاتا ہے؟ اگر سیاست کا یہ نمونہ برقرار رہتا ہے تو پاکستان کی معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی صورتحال کو تبدیل کرنے کا امکان بہت کم ہے۔