"HAC" (space) message & send to 7575

پاک بھارت جنگ کا سبق

پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی 10مئی کی شام سے پہلے فعال ہو گئی۔ 10 اور 11 مئی کو کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والے چند واقعات کے علاوہ جنگ بندی برقرار ہے۔ جنگ بندی کیلئے مذاکرات کا آغاز امریکی وزیر خارجہ نے 10 مئی کی صبح بھارت کی 26 فوجی تنصیبات اور فضائی اڈوں پر پاکستان کے میزائل حملوں کے فوری بعد کیا تھا۔ اس کام میں امریکی نائب صدر بھی اُن کیساتھ تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ عسکری محاذ آرائی کے ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے پریشان تھے ‘جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک بڑھ سکتی تھی ۔ جب امریکی حکام نے 10 مئی کو پاکستان سے رابطہ کیا تو پاکستان کا جواب تھا کہ اگر بھارت جنگ بندی پر راضی ہوتا ہے تو پاکستان مثبت جواب دے گا کیونکہ اس کشیدگی کے دوران پاکستان کیلئے رہنما اصول عسکری کارروائی کرنا نہیں بلکہ بھارتی فوجی مہم جوئی کا جواب دینا تھا۔ اگر بھارت نے جنگ کے بجائے امن کا راستہ اختیار کیا تو پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے 13 سے 16 مئی سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات کے اپنے دورے کے دوران کئی بار پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بار بار اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا کہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں جنگوں کے خاتمے کیلئے کام کریں گے۔ پاک فضائیہ کی جانب سے بھارت کی فوجی تنصیبات اور فضائی اڈوں پر ہائی ٹیکنالوجی میزائل حملوں‘ ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی پر مبنی کارروائیوں کے بعد مودی حکومت نے جنگ بندی کو قبول کر لیا۔ اگرچہ بھارت کے سرکاری حلقوں نے فوجی شکست کو تسلیم نہیں کیا لیکن بین الاقوامی ماہرین اور مغربی میڈیا نے بھارت کے عسکری نقصانات کی تصدیق کی ہے۔ پاکستانی فضائیہ‘ جس کے پاس کم تعداد میں طیارے تھے‘ نے نہ صرف 7 اور 10 مئی کو بھارت کے میزائل‘ ہوائی جہاز اور 80 ڈرونز کے حملے کا مقابلہ کیا بلکہ دو دنوں میں بھارتی فضائیہ کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچایا۔ جنگ بندی کے باوجود بھارتی قیادت پاکستان کے خلاف جنگجویانہ لہجے میں بات کر رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم اور کابینہ کے سینئر وزرا کا جارحانہ لہجہ بھارت کی داخلی رائے عامہ کیلئے ہے جو پاکستان کیساتھ فوجی مقابلے میں بھارت کی شکست اور امریکی ثالثی میں جنگ بندی کی قبولیت پر ناراض ہے۔ جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ پریشان کیا وہ صدر ٹرمپ کا یہ بیان تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔
بھارتی فوج کو پانچ سفارتی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے‘ بھارت کا یہ پروپیگنڈا ناکام ثابت ہوا کہ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کا سپانسر تھا‘ کیونکہ وہ پہلگام میں دہشت گرد حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ دوسرا‘ بھارت جو جنوبی ایشیائی ممالک خاص طور پر پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات میں تیسری ریاست کے کردار کی مخالفت کرتا رہا ہے اسے امریکی ثالثی میں جنگ بندی کو قبول کرنا پڑا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت نے خود کو مزید ذلت سے بچانے کیلئے امریکی مداخلت کی کوشش کی۔ تیسرا‘ مسئلہ کشمیر اب عالمی سطح پر واپس آ گیا ہے اور امریکی صدر نے ایک سے زائد بار زور دے کر کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل میں آسانی پیدا کرنا چاہیں گے۔ چوتھا‘ داخلی سیاق وسباق میں بھارت کا یہ دعویٰ باطل ٹھہرا کہ اُس کے پاس پاکستان کو زیر کرنے کی فوجی صلاحیت ہے۔ پانچواں‘ چار روزہ عسکری مڈھ بھیڑ نے عالمی سطح پر کردار کے حوالے سے بھارتی ایجنڈے پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ مودی حکومت کو پاکستان کے ساتھ تازہ ترین ٹکراؤ میں لگنے والے دھچکے اور عالمی سطح پر اپنے سیاسی ایجنڈے کے مابین تضاد داخلی رائے عامہ کو باور کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے تازہ ترین بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ اقتصادی‘ تجارتی اور سیاسی تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف مائل ہے۔ اگرچہ بھارت چین پر قابو پانے کی امریکی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے لیکن بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ لڑنے اور عالمی سطح پر چین کے بڑھتے ہوئے کردار پر قابو پانے کی امریکی‘ برطانوی‘ آسٹریلوی اور جاپانی پالیسیوں میں شراکت دار کی حیثیت سے کام کرنے کے درمیان انتخاب کرنا ہوگا۔ دونوں ایجنڈے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اپنے عالمی کردار پر توجہ دے تاہم بی جے پی اور آر ایس ایس کے بیشتر رہنماؤں کی ذہنیت قریبی پڑوس میں بالادستی قائم کرنے پر زیادہ مرکوز ہے۔ مگر یہ مؤخر الذکر کام چین پر قابو پانے کیلئے ایک امریکی اتحادی کی حیثیت سے کام کرنے سے زیادہ پیچیدہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان کے خلاف بھارت کا جارحانہ رویہ جاری رہتا ہے تو امریکہ اور مغرب چین پر قابو پانے کیلئے بھارت پر انحصار کرنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں گے۔
تازہ ترین پاک بھارت تصادم کی بین الاقوامی اہمیت کی ایک اور جہت بھی ہے۔ پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی نے امریکی‘ فرانسیسی اور روسی فوجی ٹیکنالوجیز پر چینی فوجی ٹیکنالوجی جیسا کہ J10-C جیٹ طیارے‘ JF-17 تھنڈر طیارے‘ میزائل ٹیکنالوجی‘ انفارمیشن اور جاسوسی ٹیکنالوجی اور چین اور ترکیہ کے ڈرونز کی برتری کا تاثر اجاگر کیا ہے۔ اس نے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے جو جدید ہتھیاروں اور فوجی ساز وسامان کی تلاش میں ہیں۔ اس نے اعلیٰ ٹیکنالوجی‘ ہتھیاروں‘ فوجی ساز وسامان اور انٹیلی جنس جمع کرنے کے ساز وسامان تیار کرنے میں مغربی ممالک‘ خاص طور پر امریکہ اور فرانس کی اجارہ داری کو بھی چیلنج کیا ہے‘ لہٰذا آنے والے ہفتوں میں آپ مغربی ممالک میں شائع ہونے والے مضامین دیکھیں گے جو پاکستان کے ذریعے استعمال ہونے والے ہائی ٹیک چینی فوجی ساز وسامان اور ہوائی جہازوں سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کی کامیابیوں کو گھٹا کر پیش کریں گے۔
بھارت کو اب امریکہ کی زیر قیادت چین مخالف اپروچ اور پاکستان سے روایتی نفرت اور بھارت کے اندر مسلمانوں کے ساتھ توازن قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تازہ ترین عسکری تصادم تک بھارت کے سرکاری اور نیم سرکاری ماہرین یہ دلیل دیتے تھے کہ بھارت ایک یا دو دن میں فوجی حملوں میں پاکستان کو بھاری نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مکمل جنگ اور جوہری تبادلے میں اضافے کا سوال پیدا ہونے سے پہلے‘ بھارتی حملہ پاکستان کو مفلوج کر دے گا‘ مگر تازہ ترین صورتحال سے بھارت پر واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان عسکری طور پر کمزور ریاست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ بڑے حملے بھی کرتا ہے۔ بھارت کیلئے بڑا سبق یہ ہے کہ پاکستان کو مفلوج کرنے کیلئے اس کا ''محدود جنگ‘‘ کا تصور قابلِ عمل نہیں ہے۔ تازہ ترین فوجی تصادم امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور جاپان جیسے ممالک کو چین کے خلاف کاؤنٹر فورس کے طور پر بھارتی صلاحیت کے بارے میں شکوک وشبہات کا باعث بنتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے مابین صورتحال جلد ایک نئی جنگ میں واپس نہیں آ سکتی لیکن ''جنگ نہیں‘ امن نہیں‘‘ کی موجودہ صورتحال جاری رہے گی‘ لہٰذا پاکستان کو عسکری طور پر چوکس رہنے اور عالمی سطح پر دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کیلئے بھارت کے ساتھ سفارتی مقابلے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں فتح کی تقریبات کافی تھیں‘ اب بھارت کے ساتھ حالیہ تصادم اور اس کے پس منظر سے متعلق عالمی سطح پر اپنے نقطہ نظر کیلئے لابی کرنے کے اقدامات کو اپنانے کا وقت آ گیا ہے۔ مغربی میڈیا‘ تھنک ٹینکس اور عہدیداروں کے خدشات اور سوالات کو سمجھداری اور پیشہ ورانہ انداز میں حل کرنا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں