"HAC" (space) message & send to 7575

بیرونی تعلقات اور معیشت کی بحالی

کوئی بھی قوم تنہائی میں ترقی نہیں کر سکتی۔ ہر ملک دوسری قوموں کے ساتھ کثیر جہتی تعلقات استوار کرتا ہے‘ اس طرح عالمی برادری کا ایک لازمی جزو بن جاتا ہے۔ یہ باہم مربوط ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی اکیلا ملک اپنی آبادی کی جملہ ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔ بین الاقوامی تعاون بین الاقوامی چیلنجز سے نمٹنے اور انسانی اور معاشرتی فلاح وبہبود کو فروغ دینے کیلئے اہم ہے۔ دوسرے ممالک کیساتھ ہر ملک کے تال میل کی نوعیت اور جہت مختلف ہوتی ہے۔ یہ وہ تغیر ہے جو ہمیں مختلف ممالک کے مابین عالمی تعامل کی حکمت عملیوں کے بارے میں بات کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
کسی ملک کے غیر ملکی معاشی تعلقات کو سمجھنے کیلئے تین اہم سوالات پر غور کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ کوئی ملک معاشی امداد اور قرضوں کے حصول کیلئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور انفرادی ممالک پر کس حد تک انحصار کرتا ہے؟ کیا یہ ان ذرائع پر کسی ملک کا یکطرفہ انحصار ہے یا یہ متعلقہ ملک اور بین الاقوامی برادری کے مابین باہمی انحصار کا رشتہ ہے؟ دوسرا یہ کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے یا ڈونر ممالک معاشی مدد حاصل کرنے والے ملک کے معاشی نظام پر کوئی شرائط عائد کرتے ہیں؟ کیا عطیہ دہندگان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وصول کنندہ ملک مسلسل مالی امداد حاصل کرنے کیلئے اس کی معاشی ہدایات پر عمل کرے ؟ تیسرا یہ کہ کسی ملک کو اپنی معاشی پالیسیاں بنانے میں کتنی خود مختاری حاصل ہے ؟ بین الاقوامی عطیہ دہندگان امداد حاصل کرنے والے ملک کے اختیارات کو کس حد تک محدود کرتے ہیں؟ پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر ان نکات کا اطلاق کریں تو یہ دیکھنا مشکل نہیں لگتا کہ پاکستان کی معیشت بیرونی ذرائع پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ڈونر ممالک سے معاشی امداد (مخصوص منصوبوں کے لیے قرضے اور گرانٹ) وصول کرتا ہے۔ اس عمل نے پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی میں مالی ڈیفالٹ سے بچایا ہے اور ساتھ ہی اسے اپنی معیشت کو بحال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس کا بین الاقوامی سطح پر اقتصادی ڈومین میں مسلسل عمل دخل ہے۔
پاکستان نے اپنے عالمی اقتصادی تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے تین حکمت عملیاں اپنائی ہیں۔ سب سے پہلے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ذرائع سے نئے قرضے حاصل کیے جن میں نجی بینک اور ممالک سے انسانی فلاح وبہبود کے منصوبوں کیلئے معاشی مدد شامل ہے۔ کچھ نئے قرضوں کو پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے خود کو قرضوں کی ادائیگی اور ان کے سود سے بچایا ہے اور ان قرضوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے ان قرضوں کی واپسی کیلئے کچھ سال کی مہلت حاصل کی۔ سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات جنہوں نے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس کئی ارب ڈالر جمع کرائے ہیں‘ نے اس رقم کو مزید ایک سال کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ سعودی عرب نے مؤخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی پر بھی اتفاق کیا ہے۔ تیسرا‘ پاکستان بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر کے طور پر منتقل کیے گئے فنڈز سے بھی زرِمبادلہ وصول کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں پاکستانی بینکوں کے پاس فنڈز جمع کراتی ہے۔
تاہم پاکستان عالمی سطح پر مالی تعاون حاصل کرنے کیلئے ایک قیمت بھی ادا کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی کارکردگی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے پاکستان کی معیشت کی تشکیلِ نو کیلئے کئی شرائط رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے دو وفود گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور تیسرا مشن یہ جائزہ لینے کیلئے رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے دورے پر آنا چاہتا ہے تاکہ یہ جائزہ لے سکے کہ پاکستان ستمبر 2024ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کی پہلی قسط حاصل کرنے کے وقت طے ہونے والی شرائط پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ ان وفود کی رپورٹیں آئی ایم ایف کے قرض کی دوسری قسط کی ادائیگی پر اثر انداز ہوں گی۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے ایک وفد اور نو ڈائریکٹرز پر مشتمل ورلڈ بینک کے ایک وفد نے بھی رواں ماہ پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں بہت کم خودمختاری حاصل ہے۔ یہ یوٹیلیٹی اور ایندھن کی قیمتوں میں عام لوگوں کو شاید ہی کوئی مالی راحت دے سکے۔ نیز یہ کہ پاکستان آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر نئی سبسڈی بھی نہیں دے سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے باوجود پاکستان کی معیشت جلد ہی عام لوگوں کو کوئی بڑا ریلیف فراہم نہیں کر سکے گی۔
اگر پاکستان اپنی معیشت کی بین الاقوامی نگرانی سے خود کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو اسے اپنی معیشت کے داخلی ذرائع کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایسے پروگرام جو صرف اخراجات کا سبب بنتے ہیں اور نئی دولت پیدا نہیں کرتے‘ پر فنڈز خرچ کرنے کے بجائے ملکی معاشی پیداوار کو بڑھانے کیلئے غیر ملکی معاشی امداد کا استعمال کر کے بیرونی ذرائع پر انحصار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو مشرقی ایشیائی ممالک خاص طور پر جنوبی کوریا‘ ملائیشیا‘ ویتنام اور انڈونیشیا کے تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ملکی معیشت کو فروغ دینے کیلئے بین الاقوامی معاشی تعلقات کو استعمال کیا۔ پاکستان کو جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے زرعی فصلوں کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ زراعت پر مبنی صنعت کو وسعت ملے اور لوگوں کیلئے نئی ملازمتیں پیدا ہوں۔ موجودہ صنعت کو بہتر بنانے کے علاوہ برآمداتی پیداوار کو فروغ دینے کیلئے نئی صنعتیں لگانے کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان کو انسانی اور سماجی فلاح وبہبود پر مزید مالی وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افرادی قوت کو بڑھایا جا سکے اور جدید ٹیکنالوجیز کے علم کیساتھ باصلاحیت لیبر فورس تیار کی جا سکے اور پیشہ ورانہ مہارت اور ڈسپلن کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو تعلیم‘ جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور ماحولیات پر مزید سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کے انسانی سرمایہ کو مضبوط بنایا جا سکے۔ پاکستان کو نقصانات سے دو چار ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں میں سرمایہ کاری ختم کرنے کیلئے سرکاری کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ 20 فروری کو 'روزنامہ دنیا‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر میں 15ریاستی کاروباری اداروں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے پچھلے مالی سال میں اربوں روپے کا نقصان اٹھایا ہے۔ اب تک پی آئی اے سمیت بعض سرکاری اداروں کی نجکاری کی کوششیں قانونی‘ انتظامی‘ تکنیکی‘ نجی‘ سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی اور دباؤ کی وجہ سے پھنس چکی ہیں۔ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ان مسائل کو فوری اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم موضوع جس پر ملکی معاشی بنیادوں کو مضبوط بنانے کیلئے توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے واقعات غیر ملکی سرمایہ کاروں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ قانون کی حکمرانی پر توجہ‘ بیورو کریٹک خامیوں کا خاتمہ اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی پر قابو پانا بھی معاشی بحالی کیلئے ضروری ہے۔ سیاسی محاذ آرائی ملک کی معاشی تجدید کیلئے موزوں نہیں۔ سیاست اور معیشت اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ایسا ملک جو محاذ آرائی‘ تفرقہ اور سمجھوتا نہ کرنے والی سیاست کا تجربہ کرتا ہے‘ اسے معیشت کے داخلی معاملات کو بہتر کرنا مشکل لگتا ہے۔ ریاست کے تعزیراتی قوانین اور سرکاری مشینری پر بھاری انحصار کے ساتھ ساتھ سیاسی حریفوں کو قومی ومرکزی دھارے سے خارج کرنے کی کوششوں سے نہ تو حکومتی سکیورٹی میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی معاشی خامیوں کے حل میں سہولت ملتی ہے۔ پاکستان کی معیشت سیاسی عمل میں متنوع عناصر کو شامل کرنے کی سیاست اور اہم سیاسی اور معاشی مسائل کیلئے اجتماعی نقطہ نظر کا مطالبہ کرتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں