22اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے علاقے میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر ہیں۔ ابھی تک بھارت نے اس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا۔ بھارتی عہدیداروں کی جانب سے دیے گئے زیادہ تر دلائل دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کے ملوث ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کے بجائے 1990ء کی دہائی میں ہونے والے واقعات کے بارے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام دہشت گردی کے واقعے کی آزادانہ انکوائری کی پیشکش کی ہے تاکہ وہاں کیا ہوا‘ اس کی نشاندہی ہو سکے۔ اس سے یہ بھی طے ہوگا کہ پاکستان کے بارے میں بھارتی دعویٰ کس حد تک حقائق پر مبنی ہے۔ کئی ریاستوں نے اس پیشکش کو سراہا ہے لیکن بھارت اس پر خاموش رہا۔ بھارت سے اس تجویز کو قبول کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ بھارت پاکستان پر الزامات ثابت نہیں کر سکے گا‘ البتہ آزادانہ انکوائری کی پیشکش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نیک نیتی کو ثابت کیا ہے۔ اس دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا‘ ان میں 1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کی یکطرفہ معطلی کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ پاکستان نے بھی اسی طرح کے اقدامات سے بھارت کو جواب دیا۔ پاکستان نے بھارتی ایئر لائنز کیلئے اپنی فضائی حدود بھی بند کر دی ہیں۔ اگرچہ 30اپریل کو بھارت نے بھی پاکستانی طیاروں کیلئے اپنی فضائی حدود بند کر دیں تاہم فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ ملائیشیا جانے والی پی آئی اے کی صرف ایک پرواز بھارتی حدود میں پرواز کرتی تھی۔ تاہم یورپ‘ برطانیہ اور شمالی امریکہ کی پروازوں کیلئے بھارت کی زیادہ تر ایئر لائنز پاکستان کی فضائی حدود سے گزرتی ہیں۔ پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی طیاروں کو یورپ جانے کیلئے ایندھن کی لاگت کے علاوہ پرواز کے دورانیے میں بھی ایک سے دو گھنٹے کا اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کے نجی شعبے کے ٹی وی چینلز پر پاکستان مخالف بیان بازی غیر معمولی طور پر زور پکڑ چکی ہے۔ ان چینلز پر کچھ لوگ پاکستان پر فوجی حملے کی کھل کر بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کے نجی شعبے کے ٹی وی چینلز اپنے تبصروں میں محتاط ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بھارت کو برابری کا جواب دینے کی بات کی ہے۔ کوئی بھی بھارت پر پہلے حملے کی بات نہیں کر رہا۔ وہ بھارت کی کسی بھی قسم کی فوجی مہم جوئی کو ناکام بنانے کیلئے سخت فوجی ردِعمل پر اصرار کرتے ہیں۔
پاکستان کے خلاف بھارت کے جنگجویانہ رویے کو بی جے پی حکومت کی ذہنیت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے‘ جو سخت گیر ہندوتوا نظریاتی مزاج میں پھنسی ہوئی ہے اور کلاسیکی اور ویدک ہندو مذہبی متن کے حوالے سے بھارتی شناخت کی وضاحت کرتی ہے۔ اس طرح کا سیاسی اور ثقافتی رجحان بھارت کی مسلم آبادی کے خلاف دشمنی میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور پاکستان کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا بھارتی رویہ بھی اس کو آشکار کرتا ہے۔
بھارت کے سرکاری حلقے اس پر ناراض ہیں کہ پہلگام کے واقعے نے بھارت کے سرکاری پروپیگنڈا کو بے نقاب کر دیا کہ کشمیر میں سب کچھ پُرامن اور ٹھیک ہے اور کشمیریوں نے اگست 2019ء کے بھارتی فیصلے کو قبول کر لیا ہے‘ جس نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا تھا‘ کشمیر کیلئے ریاستی حیثیت واپس لے لی اور اسے مرکزکے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پہلگام واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے کشمیریوں کی گرفتاری اور انہیں ہراساں کرنے کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اب کوئی بھی یہ قبول نہیں کرے گا کہ کشمیر میں صورتحال معمول پر ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھارت کی جانب سے فوجی خطرات کا سامنا کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے‘ جو کھلی جنگ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور مخصوص مقامات پر سرجیکل سٹرائیکس کی صورت میں بھی‘ جیسے فروری 2019ء میں پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے بالاکوٹ کے قریب فضائی حملے کیے تھے۔ یہ کارروائی اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی‘ اگر بھارت نے اب بھی پاکستان میں یا لائن آف کنٹرول کے اِس پار آزاد کشمیر میں سرجیکل فضائی حملے کیے تو ویسا ہی ردِعمل ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان کی فوج‘ فضائیہ اور بحریہ جدید ریڈار سسٹم اور AWACS طیاروں کے ساتھ مکمل الرٹ پر ہیں۔ غیر سرکاری پاکستانی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے حال ہی میں جنگی کارروائیوں کیلئے کچھ J-35 لڑاکا طیارے پاکستان کو منتقل کیے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی امریکی F-16 طیاروں کے علاوہ J-5C اورJF-17 تھنڈر طیارے استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان سے زمینی‘ فضائی یا بحری کارروائی شروع کرنے کی توقع نہیں کی جاتی‘ مگر یہ بھارت کی فوجی چالوں کا جواب ضرور دے گا‘ لہٰذا یہ بھارت پر ہے کہ کوئی محدود فوجی کارروائی ہوگی یا مکمل جنگ۔ آزاد فوجی اور سیاسی حکمت عملی کے ماہرین کی رائے ہے کہ دو جوہری طاقتوں کے مابین کھلی جنگ کے بارے میں سوچنا سراسر دیوانگی ہے۔ جنگ بھارت اور پاکستان کیلئے دانشمندی کی بات نہیں کیونکہ دونوں کے پاس جوہری ہتھیار اور ان کی ڈِلیوری کا نظام موجود ہے۔ پاکستان نے چھوٹے سائز کے جوہری ہتھیار بھی تیار کر رکھے ہیں جو جنگ کے دوران استعمال کیے جا سکتے ہیں اور ان کی تابکاری محدود ہوتی ہے۔ بھارتی سرجیکل کارروائی کی صورت میں پاکستان یقینی طور پر اس کا جواب دے گا۔ اگر بھارتی فضائی حملے اور پاکستانی جوابی کارروائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو یہ ایک مکمل روایتی جنگ کی طرف بڑھ سکتا ہے اور ایک روایتی جنگ ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے‘ جو دونوں ملکوں میں بڑی تباہی کا سبب بنے گی اور جس کا اثر باقی دنیا پر بھی ہو گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔
ایک تصواراتی منظرنامہ یہ ہے کہ اگر بھارت کی تینوں افواج کے مشترکہ حملے کی صورت میں وسیع پاکستانی علاقے پر قبضہ کرلیا جاتا ہے یا کراچی کی بندرگاہ کو روک دیا گیا اور اسے نقصان پہنچا تو پاکستان اپنی سرزمین میں بھارتی فوجیوں پر ٹیکٹیکل اور چھوٹے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت عام جوہری ہتھیاروں کے بجائے پاکستانی سرزمین پر ''ٹیکٹیکل اور تھیٹر آف وار‘‘ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا کیا جواب دے گا؟
امریکہ اوراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت کئی ممالک دونوں فریقوں یعنی پاکستان اور بھارت کو تحمل کا مشورہ دے رہے ہیں۔ منطقی سوچ رکھنے والے افراد کی بھی یہی رائے ہے جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں جنگ میں نہیں جاتیں۔ ان کی تشویش قابلِ فہم ہے کیونکہ جنگ ہوتی ہے تو یہ خود ہی اپنے پھیلاؤ کے اسباب پیدا کر لے گی جو مکمل طور پر کسی ایک فریق یا کسی دوسرے کے کنٹرول میں نہیں رہے گی۔ بین الاقوامی برادری کو بیانات سے بالاتر ہو کر دوطرفہ اور کثیر جہتی سطحات پر سفارتی کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ بھارت کو جوہری حد سے نیچے‘ فوجی کارروائی شروع کرنے ہی سے باز رکھا جا سکے۔ اگر بھارت فوجی مہم جوئی شروع نہیں کرتا تو پاکستان سے بھی جنگ شروع کرنے کی توقع نہیں کی جاتی۔ دیگر متعلقہ آپشنز تیسرے فریق کی ثالثی اور دہشت گردی کے واقعے کی آزادانہ انکوائری ہیں۔ جنگ کے آپشن کے بارے میں سوچتے ہوئے بھارت اور پاکستان دونوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ کا ان کی معیشتوں پر تباہ کن اثر پڑے گا۔